فیصلہ تیرے ہاتھوں میں ہے

سانحوں کے شہر کراچی میں 12 ربیع الاول کا سورج غروب ہوا۔ شہر سے آنے والے تمام جلوس نشتر پارک میں جلسہ کی پہلی نشست میں شریک تھے۔ مسجد کے میناروں سے نغمۂ توحید بلند ہوا۔ حاضرین نے نماز مغرب کی ادائیگی کے لیے صفیں ترتیب دیں۔ نماز شروع ہوئی، مگر اس کے اختتام سے قبل ہی ایک ہولناک دھماکہ ہوا۔جس کے نتیجے میں ممتاز اہل علم سمیت درجنوں افراد خالق حقیقی سے جاملے۔ متعدد زخمی ہوئے۔

علم کے بغیر جلد بازی سے کئے گئے (عمل کا) جوش انسان کو گمراہ کر دیتا ہے۔ سیدنا سلیمان علیہ والصلوۃ والسلام

اس کے بعد وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے۔حسب روایت احتجاج ہوا۔ گاڑیاں، پٹرول پمپ جلائے گئے۔ سوگ منایاگیا۔ کئی دن کے لیے شہر کراچی میں قبرستان کا سا سناٹا طاری رہا۔ کچھ بھی نیا نہیں ہوا۔ ۔ ۔ حکمرانوں کے روایتی بیانات،اپوزیشن کے الزامات،اخبارات کے اداریے، میڈیا کی رپورٹیں، ہمدردی و تاسف کی لہر، معمول کے اعلانات، خفیہ ہاتھوں اور سازشوں کی دریافت۔ ۔ ۔ کچھ بھی تو نیا نہیں۔موت کا رقص بھی وہی اور رقص کے لوازمات بھی وہی۔ جلد ہی سب بھول جائیں گے کیا ہوا تھااور کیوں ہواتھا۔ اب دوبارہ جب کوئی نیا سانحہ ہوگا، جو جلد یا بدیر بہرحال ہونا ہی ہے، تو پھر یہی کہانی نئے مقام اور کرداروں کے ساتھ دہرادی جائے گی۔

    ہم نہیں جانتے کہ یہ شہر اور یہ ملک کب تک یوں مقتل بنا رہے گا۔کب تک بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی یہ لہرجاری رہے گی۔ کب تک اہل علم اور اہل مذہب نشانہ بنتے رہیں گے۔ایک بات ہم البتہ ضرور جانتے ہیں۔ وہ یہ کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری اپنی کمائی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی، عدم برداشت، فرقہ واریت، نفرت و عداوت، احتجاج و ہنگامہ آرائی اور انسانی جان کی بے وقعتی کی جو تربیت ایک طویل عرصے سے ہورہی ہے، اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ اور نہیں نکل سکتا۔ اب یہ سب کچھ ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں قوم کی تربیت کرنے والے ہمارے مفکرین نے کیا بنیادی غلطی کی اور کیے جارہے ہیں جس کے نتائج یہ نکل رہے ہیں۔

    ہم نے ہزار سال تک دنیا پر اس طرح حکو مت کی ہے کہ ہمارے مقابلے میں جو اٹھتا ہم اسے عراق و افغانستان میں بدل دیتے تھے۔کتنے ہی ’صدام حسین‘ اور ’اسامہ بن لادن‘ ہم سے ٹکرانے آئے مگر ہمارے اقتدار کی ایک اینٹ بھی نہ ہلاسکے۔ ہماری طاقت کے مراکز مدینہ سے دمشق، دمشق سے بغداد اور بغداد سے قسطنطنیہ تک تو یقیناً منتقل ہوئے مگر ہم رہے وہی سول سپریم پاور۔ مگر عروج و زوال کا ابدی قانون حرکت میں آیا اور ہمارے اقتدار کے سورج کو گہن لگ گیا۔ مسلمان غالب سے مغلوب ہوئے۔ خلافت ختم ہوگئی ۔براعظم یورپ میں ہسپانیہ کو گرانے کے بعد برعظیم ہند میں بھی ہماری سلطنت کا سورج غروب ہوا۔بیسویں صدی کے آغاز پر مسلمان دنیا بھر میں سیاسی طور پر غلام بن چکے تھے۔

قرآن اور بائبل کے دیس میں
اس سفرنامے کے مصنف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا میں گھوم پھر کر خدا کی نشانیوں میں غور و فکر کیا جائے۔ یہ نشانیاں اللہ تعالی کی تخلیق کردہ فطرت کی صورت میں ہوں یا اس کی عطا کردہ انسانی عقل نے ان نشانیوں کو تیار کیا ہو، یہ انسان کو ایک اور ایک خدا کی یاد دلاتی ہیں۔ مصنف نے بعض قوموں کے تاریخی آثار کو خدا کے وجود اور اس کے احتساب کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ تفصیل کے لئے مطالعہ کیجیے۔

یہ وہ صورتحال تھی جس میں ہمارے ہاں احساسِ زیاں پیدا ہوا۔ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہمارے ہاں زیاں کے نام پر صرف سیاسی زوال کو اہم سمجھا گیا اور اس کا ذمہ دار یورپی اقوام کی سازشوں کو قرار دیا گیا ۔یہی ہمارے مفکرین کی بنیادی غلطی تھی ۔کیونکہ ہمارا سیاسی زوال ہمارے علمی اور اخلاقی زوال کا نتیجہ تھا جبکہ یورپی اقوام کے عروج کے پیچھے یہ حقیقت کار فرما تھی کہ انہوں نے ایک طویل سفر کے بعد طاقت اور توانائی کے نئے ذخائر دریافت کیے اور ان کا استعمال سیکھ لیا تھا۔

    جب ہم نے اس بات کو نہیں سمجھا تو علم و اخلاق کے اپنے زوال کو دور کرنے اورطاقت و توانائی کے نئے ذخائر کو دریافت کرنے کے بجائے عوامی جذبات کا تمام تر رخ نفرت، غصے، احتجاج اور ٹکراؤ کی طرف موڑ دیا۔اس راستے پر چل کر چند صدی قبل لاکھوں صلیبیوں نے چند ہزار مسلمانوں سے بہت مار کھائی تھی۔آج مسلمان اسی راستے پر چل کر انہی کی نسلوں سے مار کھا رہے ہیں۔

    بات صرف اتنی ہی نہیں کہ ہم دو سو سال سے مار کھا رہے ہیں۔ زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ نفرت اور غصے کی یہ آگ ،جلاؤ اور گھیراؤ کا یہ طریقہ، احتجاج اور مظاہروں کی یہ سوچ خود ہمارے معاشروں کو برباد کررہی ہے اور ہم کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ ہماری پوری فکری قیادت اس وقت صرف ایک کام کررہی ہے ۔وہ ہے غیر مسلموں کے خلاف نفرت اور انتقام کی فضا بنانا۔ اس فضا میں کوئی تعمیری کام نہیں ہوسکتا۔ صرف تخریب ہوسکتی ہے اور وہی ہو رہی ہے۔

    یہ تخریب کبھی غیروں کے خلاف ہوتی ہے اور کبھی اپنوں کے خلاف ہوجاتی ہے۔ جس اصول پر ہم غیر مسلم عوام الناس پر خود کش حملے کرتے ہیں اسی اصول پر ہم اپنے معاشروں میں یہ کام کرتے ہیں۔ جس سوچ کے ساتھ ہم غیر مسلم عوام کی جان و مال کو مباح سمجھ لیتے ہیں اسی سوچ کے ساتھ ہم دوسرے فرقے اور دوسری قومیت کی جان و مال کی بربادی کو معمولی بات سمجھ لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں دنیا کی طاقتور اقوام کی پٹائی بھی سہنی پڑتی ہے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں بدترین نقصانات بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ مگر ہمارے نام نہاد مفکرین اپنی حقیقی کمزوری کے اسباب دور کرنے کے بجائے تیاری کے بغیر طاقتور اقوام سے ٹکرانے کا مشورہ دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف اپنے بدترین اخلاقی جرائم پر غیر ملکی سازش کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔

    ان حالات میں ہم اپنی قوم کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ بربادی کا راستہ ہے۔دوسروں کی نہیں اپنی بربادی کا راستہ۔ یہ تخریب کا راستہ ہے ۔ دوسروں کی نہیں اپنی تخریب کا راستہ۔ یہ زوال کا راستہ ہے ۔ دوسروں کے نہیں اپنے زوال کا راستہ ہے۔تعمیر کا راستہ احتجاج سے نہیں صبر سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ٹکراؤ سے نہیں اعراض سے شروع ہوتا ہے۔یہ نفرت سے نہیں درگزر سے شروع ہوتا ہے۔یہ غیر مسلموں کو دشمن سمجھنے سے نہیں ان کو اسلام کا مخاطب بنانے سے شروع ہوتا ہے۔ یہ سیاست کے میدان سے نہیں علم کے میدان سے شروع ہوتا ہے۔

    اب فیصلہ ہماری قوم کو کرنا ہے کہ اسے کس راستہ پر چلنا ہے۔ دونوں راستے اس کے سامنے ہیں۔ وہ چاہے تو احتجاج، ٹکراؤ، نفرت، انتقام کے راستے پر چلے اور اس کے نتائج کا سامنا نئے نئے سانحات کی شکل میں کرتی رہے یا چاہے تو صبر، محبت، دعوت اور علم کے راستے پر چلے اور اس کے نتائج آنے والے دنوں میں دیکھ لے۔فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے ۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔۔ مسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والی انارکی کے اسباب کیا ہیں۔ بیرونی سازشوں سے قطع نظر ہماری اپنی کمزوریاں کیا ہیں جن کے باعث ہمارے معاشرے لاقانونیت کا شکار ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔ ہم کس طریقے سے اپنی قوم کو تخریب کے راستے سے نکال کر تعمیر کے راستے پر لگا سکتے ہیں۔

علوم القرآن اور تعمیر شخصیت لیکچرز

فیصلہ تیرے ہاتھوں میں ہے
Scroll to top