ہمارے سوسائٹی کے اخلاقی انحطاط کے دور میں ایک بڑی بیماری جو ہمارے ہاں پیدا ہوئی ہے، وہ قول و فعل کا تضاد اور دوسرے لفظوں میں منافقت ہے۔
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ۔ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوْا الضَّلالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ۔ (البقرۃ 2: 14-16)
جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، اور جب اپنے شیطانوں سے علیحدگی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے تو ہم محض مذاق کر رہے تھے۔ اللہ ان سے استہزا فرماتا ہے، وہ ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، مگر یہ کاروبار ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔
بعض لوگ خود کو ضرورت سے زیادہ ہوشیار سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ دوغلا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر نیک لوگوں سے ملے تو ایسے جیسے ان سے زیادہ نیک اور کوئی نہیں ہے اور شیطان صفت لوگوں سے ملے تو نیک لوگوں کا مذاق اڑانے لگ گئے۔ عام زبان میں انہیں منافق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور میں مسلمانوں اور یہود میں ایسے ہی منافق موجود تھے جو ایسا دوغلا رویہ اپنائے ہوئے تھے۔
کیا میں تمہیں اہل جنت کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہر وہ شخص (جنتی ہے) جو عجز و انکسار کرنے والا ہے۔ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لے تو اللہ اس کی قسم کو پورا کر دیتا ہے۔ کیا میں تمہیں اہل جہنم کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہر وہ شخص (جہنمی ہے) جو تند خو، اکڑ کر چلنے والا اور تکبر کرنے والا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم |
انسان منافقت کا رویہ کیوں اختیار کرتا ہے؟ اگر نظر غائر سے دیکھا جائے تو منافقت کی اصل جڑ مفاد پرستی میں پوشیدہ ہے۔ بعض لوگ اپنے دنیاوی مفاد کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس کے لئے اخلاقیات کے تمام اصولوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ان کی زندگی میں اصل اہمیت کسی اخلاقیات کی نہیں بلکہ ان کے اپنے فائدے کی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اچھے اور برے تمام لوگوں سے بنا کر رکھنے کے قائل ہوتے ہیں اور دونوں جانب سے مفادات حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
اپنے فائدے کا خیال رکھنا کوئی بری بات نہیں۔ اگر انسان اپنے حقیقی فائدے کو مدنظر رکھے تو وہ آخرت کا فائدہ ہے۔ دنیا میں جو کچھ بھی کمایا جا سکے گا وہ چند دن میں ختم ہو جائے گا لیکن آخرت کی کمائی ہمیشہ باقی رہے گی۔ اپنے مفادات کا صحیح خیال رکھنا یہ ہے کہ انسان تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے لیے آخرت کے لامحدود فائدے کو نظر انداز نہ کرے۔ اگر یہ سوچ بن جائے تو پھر انسان دوغلے پن سے نکل کر درست راستے پر آ جاتا ہے۔
امام شافعی کی کتاب الرسالہ کا آسان اردو ترجمہ۔ قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کو سمجھنے کا طریق کار کیا ہے؟ عام اور خاص سے کیا مراد ہے؟ حدیث کے صحیح ہونے کو پرکھنے کا طریق کار کیا ہے؟ علماء کے اختلاف رائے کی صورت میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔ |
ہمارے معاشرے میں بعض لوگ جو علی الاعلان برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ فخر سے یہ کہتے ہیں کہ “ہم منافق نہیں”۔ یہ ایک نہایت ہی سنگین رویہ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایسا انسان دوغلے پن سے بچ کر ایک طرف ہو گیا ہے لیکن اسے اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ایسا رویہ اختیار کر کے وہ براہ راست خدا کے مقابلے پر آ کھڑا ہوتا ہے اور اپنی برائیوں پر فخر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ایک خدا پرست جو منافقت سے بچنا چاہتا ہے، وہ دوغلے پن سے نکل کر خالص برائی کی بجائے خالص نیکی کو اختیار کر لیتا ہے۔
نیک لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے انہیں اس دنیا میں جو ڈھیل دی ہوئی ہے یہ ان لوگوں کے لئے بھی محض ایک مذاق بن سکتی ہے۔ وہ اپنے سرکشی میں آگے بڑھتے جائیں گے اور پھر یکایک ایک دن ان کے پاؤں تلے سے زمین سرک جائے گی اور وہ اپنے رب کی سزا کا سامنا کرنے کی حالت میں آ کھڑے ہوں گے۔ درست راستے کو چھوڑ کر غلط راستے کو اختیار کرنے کا یہ کاروبار کسی طور پر بھی ان کے حق میں فائدہ مند نہ ہو گا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنا چلتا ہوا نفع بخش کاروبار بیچ کر اس کے بدلے ایک نقصان دینے والا سفید ہاتھی خرید بیٹھے اور پھر اس کا نقصان ساری عمر بھگتتا رہے۔ ہمیں اپنی شخصیت کو دوغلے پن اور سرکشی دونوں رویوں سے پاک رکھنا چاہیے۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ دوغلے پن اور سرکشی کے جن انتہائی رویوں کی طرف مصنف نے اشارہ کیا ہے، ان کی ایک ایک عملی مثال بیان کیجیے۔
۔۔۔۔۔۔ دوغلے پن سے بچنے کے لئے ہمیں اپنی شخصیت میں جن تبدیلیوں کی ضرورت ہے، ان کی ایک فہرست تیار کیجیے۔
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز