دین اور عقل

اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

وہ کہیں گے : اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو (آج )ان اہل جہنم میں نہ ہوتے۔ اس طرح وہ اپنے گناہ کا اقرار کرلیں گے، تو( اب) لعنت ہواِن ا ہلِ جہنّم پر۔ (اس کے برخلاف) وہ لوگ جو بِن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، ان کے لئے بے شک، مغفرت بھی ہی اور بہت بڑا اجر بھی۔ اور (سنو! اے لوگوں) تم کوئی بات چھپاکر کہو یا کھول کر،وہ، لاریب، دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔ کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ وہ بڑا دقیقہ رس ہے، بڑا ہی خبردار۔ (الملک67:10-14 )

اللہ تعالیٰ اہل جہنم کا قول نقل فرماتے ہیں کہ ،’’ وہ کہیں گے اگر ہم سنتے اور سمجھتے تو آج اہل جہنم میں سے نہ ہوتے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کفار کے کفر کی بنیاد جس رویے کو قرار دے رہے ہیں، وہ کیا ہیں؟ وہ یہ ہے کہ یہ لوگ نہ سنتے تھے اور نہ عقل ہی سے کام لیتے تھے۔ یہ اگر ایسا کرتے تو اہل جہنم میں سے نہ ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بات سننے سے انکار کردینا اور عقل کو بالائے طاق رکھ دینا اہل کفر کا رویہ ہے۔یہ رویہ انسان کو جہنم تک پہنچا سکتا ہے۔

کسی شخص کے لئے تھوڑا سا اچھا کام مشکل نہیں ہوتا۔ مشکل یہ ہے کہ کوئی شخص ساری عمر اچھے کام کرتا رہے۔ ماؤزے تنگ

بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہمارے ہاں جو لوگ مذہبی رہنمائی کے مقام پر ہیں ،وہ اسی رویے کو آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک جو کچھ بزرگوں نے فرما دیا وہ حرف آخر ہے۔ اس کے بعد مزید کچھ کہنے سننے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ عقل کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ دین میں عقل کا کیا عمل دخل۔ بھلا دین کے معاملے میں عقل بھی استعمال کرنے کی چیز ہے؟ عقل کو استعمال کرنا ہے تو دکان پر کرو۔

    دوسری طرف قرآن مجید اپنی پوری دعوت عقل و فطرت کے مسلمات پر رکھتا ہے۔آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دلائل کے ذریعے سے سمجھا رہے ہیں، قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ سورہ تو قرآن کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے، جب ہم آگے بڑھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ قرآن عقلی دلائل کا ڈھیر لگا دیتا ہے۔ اورجب لوگ سننے سے انکار کردیتے ہیں تو قرآن کو کہنا پڑتا ہے کہ ان کے کانوں میں ڈاٹ لگی ہوئی ہے۔ قرآن ان کی ہٹ دھرمی کو ان کے اس قول کے ذریعے سے بیان کرتا ہے کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں۔یعنی کچھ بھی کہہ لو اثر نہیں ہونے کا۔قرآن ان کے رویے کو بیان کرتا ہے کہ ہم نے انہیں دل دیے ہیںمگر یہ سوچتے نہیں،کان دیے ہیں مگر یہ سنتے نہیں، آنکھیں دی ہیں مگر یہ دیکھتے نہیں۔یہ جانور ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر۔

دور جدید میں دعوت دین کا طریق کار
 یہ تحریر دعوت دین کی اہمیت، دین کا کام کرنے والوں کی شخصیت، دعوت دین کی منصوبہ بندی اور دعوتی پیغام کی تیاری کے عملی طریق ہائے کار کی وضاحت کرتی ہے۔ ان افراد کے لئے مفید جو کہ دعوت دین میں دلچسپی رکھتے ہوں۔

یہ ہے قرآن کا تبصرہ ان لوگوں پر جو کانوں کو بند اور عقل کومعطل کرلیتے ہیں۔اور ہماری سوسائٹی میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان سب چیزوں کو کونے میں رکھو۔ میاں اب تم ہمارے حلقے میں میں آگئے ہو ،کسی اور کی نہ سننا۔ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے۔ ہم نے کہہ دیا تم نے سن لیا مسئلہ ختم۔ کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں۔

    کمال یہ ہے کہ جن چیزوں کو آج لوگ اپنا سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں قرآن انہیں کفار کے اوصاف اور بیانات کے طور پر بیان کرتا ہے۔آج ہم کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ سننے کی ضرورت نہیں ۔ہم اپنے بڑوں کے راستے پر چلیں گے۔قرآن اسے کفار کے الفاظ کے طور پر نقل کرتا ہے کہ ’’ہم نے اپنے باپ دادا کو یہی کرتے ہوئے پایا ہے‘‘۔ہم کہتے ہیں کہ ہم نہیں سنیں گے۔ ہم نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دیے گئے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں دیکھنا۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیںسوچنا ۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ ان دل پر مہر لگ گئی ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے لیے جو چیزیں سرمایۂ افتخار ہیں قرآن کے مطابق وہ سب چیزیں رسول کریم کے بدترین مخالفین کے لیے سرمایہ افتخار تھیں؟ اور جو اہل ایمان ہیں ،قرآن بار بار ان کی تعریف کرتا ہے کہ وہ اندھے بہروں کی طرح قرآن کی آیات پر نہیں گرتے، وہ سوچتے ہیں سمجھتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ لوگوں کا یہ رویہ ہے کہ کہ کوئی شخص بھولا بھٹکا کسی بھی وجہ سے دین سیکھنے یا روحانیت تلاش کرنے کے لے اگر ان کی طرف آگیا تو اب وہ ان کے حلقے سے جانے نہ پائے۔ان کا معتقد بن گیا ہے تو ان کے ساتھ ہی رہے۔ کسی اور کے پاس نہ چلا جائے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ باقی ہر شخص کو گمراہ ،بددین، ملحد،امریکہ کا ایجنٹ بنادیا جائے۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ لوگ دنیا کی کوئی چیز لیتے وقت تو بڑی سوچ بچار سے کام لیتے ہیں مگر دین کے معاملے میں کسی ایک راہنما پر اندھا اعتماد کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس رویے کی وجوہات بیان کیجیے۔

۔۔۔۔۔۔ عقل اور وحی کا باہمی تعلق بیان کیجیے۔ عقل کو کس طرح سے وحی کے تابع رہ کر اپنا کام کرنا چاہیے۔

اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

دین اور عقل
Scroll to top