امریکی تعلیمی نظام کا ڈھانچہ کریڈٹ آورز یعنی تدریسی گھنٹوں کی بنیا د پر قائم ہوتا ہے۔ بارہ جماعتیں پڑھنے کے بعد مزید چار سال کی تعلیم کی تکمیل پر بی ایس اور دو سال مزید پڑھنے پر ماسٹر کی ڈگری ملتی ہے۔ان اٹھارہ سالوں میں ایک طالب علم روزانہ درس گا ہ جاتا، لیکچر غور سے سنتا ، نوٹس لیتا، اسائنمنٹس بناتا ، پریزینٹیشن دیتا اور پھر اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لئے امتحان کے عمل سے گذرتا ہے۔ ان جوانی کے قیمتوں سالوں میں وہ دھوپ کی حدت جھیلتا، سردی کے تھپیڑے برداشت کرتا، راتوں میں شب بیداری کرتا اوردن کی سرگرمیوں کومحدود رکھتا ہے۔ اس کے سامنے ایک روشن مستقبل ہے، اس کو پانے کی امنگ ہے۔ وہ ان تکالیف کو جھیلتا ہوا شاندار مستقبل کے تصورمیں مگن آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ چلچلاتی دھوپ میں اپنے تخیلاتی دفتر کا یخ بستہ کمرہ تصور میں لاتا، رت جگوں میں مستقبل کی پرسکون نیندوں کی امید رکھتا اور بسوں کے دھکوں میں عالیشان کار کے تخیل سے محظوظ ہوتا ہے۔ اس کے ماں باپ، دوست احباب اور خیر خواہ اس کو دیکھتے ،سراہتے اور اسکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں کامیابی کا راز یہی محنت ہے۔ بالآخر یہ اٹھارہ برس کی ٹریننگ اسے اس قابل بنادیتی ہے کہ وہ ایک اچھی ملازمت حاصل کرلیتا اور اپنے سارے خوابوں کی تعبیر حاصل کرلیتا ہے۔
ایک بند ۂ مومن کی زندگی بھی کچھ اسی سے ملتی جلتی ہے۔ اس سامنے بھی ایک واضح مقصد ہے اور وہ ہےاپنے رب کی رضامندی اور خوشنودی۔ اس کا روشن مستقبل جنت کی شہریت کے حصول سے منسلک ہے۔ چنانچہ جب اسے جنسی خواہش تنگ کرتی ہے تو نفس کو لگام ڈالتا ہے، جب وہ بیماری و مشکل میں گرفتار ہوتا تو صبر کرتا ہے۔ جب اسے کسی کامیابی کا سامنا ہوتا تو وہ اکڑنے کی بجائے شکر کرتے ہوئے اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے۔جب شیطانی محفلوں کی رنگ رلیا ں اسے دعوت گناہ دیتیں تو وہ آنکھیں پھیرلیتا ہے۔جب نفس کے تقاضے اسے بدگوئی پر مجبور کرتےتو وہ زبان کو قابو کرلیتا ہے۔ وہ اپنے ہر عضو، ظاہر اور باطن ہر شے کو اپنے مکمل کنٹرول میں رکھتا اور اپنے رب کی مرضی کے ماتحت کردیتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر آج محنت نہ کی تو کل کی جنت ہاتھ سے نکل جائے گی۔
ایک نوجوان اس دنیا میں اعلیٰ مستقبل کے تو اتنی محنت کرتا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ وہ دوسری دنیا کے لئے کوئی محنت کرنے پر تیار نہیں۔ وہ صبح فجر میں نہیں اٹھنا چاہتا، وہ اپنی نگاہوں کو فحش مناظر سے نہیں بچاتا، وہ اپنی زبان کو گناہ کے کلام سے محفوظ نہیں رکھتا اور اپنے آپ کو نفس کے ہاتھوں یرغمال بنالیتا ہے۔ اس کے باوجود بھی وہ جنت کی تمنا رکھتا ہے بلکہ بسا اوقات تو وہ یہ تمنا بھی نہیں رکھتا اور پھر بھی یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ دوسری دنیا میں کامیاب ہوجائے گا۔ اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اس دنیا میں کاغذ کے نوٹ اگر محنت کے بغیر نہیں ملتے تو دوسری دنیا کی نعمتیں بھی اتنی سستی نہیں کہ محنت کے بغیر جھولی میں ڈالدی جائیں۔
(پروفیسر محمد عقیل، aqilkhans.wordpress.com, aqilkhans@gmail.com )
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ طالب علم کی زندگی سے ہر انسان کو کیا سبق سیکھنا چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔ ہم میں سے بہت سے لوگ آخرت کے معاملے میں بے پرواہ ہیں اور دنیا کے معاملے میں بہت ہوشیار اور چاک و چوبند۔ اس رویے کی وجہ کیا ہے؟
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز