قناعت اعلیٰ ترین انسانی صفات میں سے ہے۔ قناعت کرنے والا شخص اپنی خواہشات کو اپنی ضروریات اور حالات کے تابع کر دیتا ہے۔ وہ زیادہ کی دوڑ میں شامل ہونے کے بجائے صبر کے دامن میں پناہ لیتا ہے۔ وہ لوگوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے آپ سے مقابلہ کرنا پسند کرتا ہے۔ بلاشبہ ایک قانع شخص بڑا ہی قابل تحسین ہوتا ہے۔
مگر قناعت کی ایک اور قسم ہے جو بہت بری ہوتی ہے۔اس قناعت میں بھی آدمی کم پر صابر و شاکر ہونا پسند کرتا ہے۔ وہ دولت و ثروت، شان و شوکت اور مقام و مرتبے میں دوسروں سے پیچھے رہنا گوارا کر لیتا ہے۔وہ نعمت و عزت کی اس سطح کو پسند کرتا ہے جو بلاشبہ ایک کم تر سطح ہے۔ قناعت کی یہ قسم انسان اس دنیا اور اس کی نعمتوں کے لیے نہیں، بلکہ رب کی بنائی ہوئی جنت کے لیے اختیار کرلیتے ہیں۔
انسان کا وجود خواہشات کا اتھاہ سمندر ہے۔ یہ سمندر اس قدر بڑا ہے کہ زمین و آسمان کی وسعت اس کے سامنے ہیچ ہے۔ خواہشات کے اس اس لامحدود صحرا اوراس بحرِ ناپیدکنار کی سماعی اگر کہیں ہے تو فردوس کی وہ حسین و بے مثل بستی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام تر قدرت کے ساتھ بنایا ہے۔ کوئی شخص اگر خدا اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تو دوسری بات ہے، وگرنہ جس نے جنت کو مان لیا، اسے پہچان لیا، اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اس بستی میں بلند مرتبے کی خواہش نہ کرے۔
جنت چونکہ آخرت میں آنے والی چیز ہے اس لیے اس کی حقیقی نوعیت کو سمجھانا اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانی تصورات کے پس منظر ہی میں اس کی وضاحت کی ہے۔ جس کے مطابق اس جنت میں کوئی دوسری اور تیسرے درجے کی چیز نہیں ہوگی۔ اس میں صرف اور صرف دو مقامات ہیں۔ ایک وہ مقام ہے جس میں اس دنیا اور انسانی تصور میں آنے والی بہترین نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اکھٹی کر دی ہیں۔ ان نعمتوں پر کسی قسم کی روک ٹوک ہوگی اور نہ کبھی اللہ تعالیٰ ان کو منقطع کریں گے۔
دوسرا مقام وہ ہے جہاں مندرجہ بالا تمام نعمتوں کے ساتھ وہ نعمتیں بھی جمع کردی جائیں گی جو نہ اس دنیا میں دستیاب ہیں اور نہ جن کا خیال بھی کبھی کسی انسان کے دل میں گزرا ہوگا۔ اس میں خواہش کی تسکین کا سامان بھی ہوگا اور لطف و سرور کی ان نئی سطحوں سے بھی انسان کو متعارف کرایا جائے گا، جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ اس مقام میں نعمتوں کی اس سطح کے ساتھ اللہ تعالیٰ بادشاہی کا عنصر جمع کردیں گے۔
اس کو دنیا کے لحاظ سے اس طرح سمجھیں کہ ہر معاشرے میں ایک طبقہ امرا ہوتا ہے۔ جن کے پاس اس معاشرے میں دستیاب ہر نعمت میسر ہوتی ہے۔ تاہم اسی سوسائٹی میں ایک محدود طبقہ حکمرانوں کا بھی ہوتا ہے ۔ جن کے پاس نہ صرف یہ تمام نعمتیں بھی ہوتی ہیں بلکہ وہ اپنے اختیارات اور طاقت کی بنا پر دنیا بھر سے اپنے لیے سہولت جمع کرلیتے ہیں۔ پھر حکمرانی کی انسانی جبلت کی تسکین بہرحال انہی میں سب سے زیادہ پوری ہوتی ہے۔
اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی جنت میں کوئی مقام حقیر اور کمتر نہیں۔ یہاں یا تو اعلیٰ مقام ہے یا پھر بہت اعلیٰ مقام ۔اسی لیے وہ قرآن میں اس جنت کے متعلق کہتے ہیں کہ محنت کرنے والو! تمھیں اگر محنت کرنی ہے اس جنت کے لیے کرو۔ مقابلہ کرنے والو! اگر مقابلہ کرنا ہے تو میرے اس شاہکار کے لیے کرو۔ قرآن تو آیا ہی اسی لیے ہے کہ دنیا کی حقیر پونجی کے پیچھے بھاگنے والوں کو جنت کی خبر دے۔ فانی دنیا کی فانی نعمتوں سے نکال کر جنت کی ابدی بادشاہی کی خبر دے۔ مگر بدقسمتی سے لوگوں نے اپنی قناعت کے اظہار کے لیے کوئی مقام چنا ہے تو وہ جنت کا مقام ہے، جہاں کوئی درجہ کم تر نہیں ہوتا۔
انسانوں میں تکبر، حسد، ریاکاری اور دیگر شخصی مسائل کیوں پائے جاتے ہیں؟ ان کا علاج کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس تحریر کا مطالعہ کیجیے۔ |
اصل بات یہ ہے کہ لوگ جنت کے لیے محنت نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اس کو اپنی زندگی کا مقصود نہیں بنانا چاہتے۔وہ اس کی قیمت نہیں دینا چاہتے۔ چنانچہ وہ بغیر محنت کے جنت میں کوئی چھوٹا موٹا مقام چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ بغیر محنت کے آدمی کو اگر کچھ ملے گا تو وہ جہنم کی آگ ہوگی، جنت میں چھوٹا موٹا مقام نہیں۔
جنت کا وعدہ حقیقت ہے کوئی قصہ کہانی نہیں۔اس کے لیے انسان کو سرتوڑ جدوجہد کرنی ہوگی۔قربانی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اعلیٰ ترین اخلاقی اعمال کرنے ہیں گے۔ یہ نہ ہوسکے تو رب کے حضور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کر کے اپنی غلطیوں کی تلافی کرنی ہوگی۔ عمل صالح کی کوشش کرنا ہوگی۔ جنت کے دو مقامات میں جانے کے یہی دو راستے ہیں، تیسرا کوئی راستہ نہیں۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
لوگ دنیا کے معاملے میں تو حرص و ہوس کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن آخرت کے معاملے میں کم پر قناعت کیوں کر دیتے ہیں؟
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز