اکتوبر 18 کے سبق

یہ 18 اکتوبر کا دن تھا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ 8 برس کے بعد وطن واپس آرہی تھیں۔ شہر کراچی میں تعطیل کا سماں تھا اور ہر طرف استقبالی ریلیاں نکل رہی تھیں۔ میرا گھر شارع فیصل پر واقع ہے اور راستہ بند ہونے کی بنا پر آج میں گھر ہی میں تھا۔ ظہر سے لے کر عشا تک کی چاروں نمازوں میں میں نے یہ دیکھا کہ مسجد سے باہر سیکڑوں لوگ موجود ہیں۔ مگر ان میں سے گنتی کے چند لوگوں کے سوا کوئی شخص نماز میں شریک نہیں ہوا۔ حالانکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مسجد کے بیت الخلا، وضو خانے اور واٹر کولر کو اپنی ضروریات پوری کرنے اور اس کے صحن اور لان کو آرام کرنے کے لیے استعمال کررہی تھی۔ اندرون سندھ اور شہر کے اندرونی علاقوں سے آئے ہوئے ان لوگوں کی زیادہ تر دلچسپی نعرے لگانے اور خیرمقدمی گانوں پر دھمال ڈالنے اور انہیں دیکھنے سے تھی۔

لوگ اپنی آنکھ کے شہتیر کو نظر انداز کر دیتے ہیں مگر اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکے کی تلاش میں رہا کرتے ہیں۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام

    میں نے سوچا کہ یہ میری قوم ہے، دین کے علم سے عاری۔ بدقسمتی سے دین سے ناواقف یہ لوگ دنیا سے بھی واقف نہیں۔ اس کا ایک نمونہ میں ٹی وی پر تھوڑی دیر پہلے دیکھ چکا تھا جب ایک چینل پر سانگھڑ سے آئے ہوئے ایک نوجوان سے سوال کیا گیا کہ تم یہاں کیوں آئے ہو۔ تو اس نے جواب دیا کہ پتا نہیں۔ اس سے قبل ایک معروف صحافی انٹرویو میں یہ فرماچکے تھے کہ بی بی کے استقبال کے لیے لاکھوں لوگوں کا آنا یہ بتاتا ہے کہ کرپشن کی بات کرنا شہری علاقوں کے مڈل کلاس لوگوں کی اخلاقیات ہے۔ یہ نہ لوئر کلاس کا مسئلہ ہے اور نہ اپر کلاس کا۔ یہ لوگ بھٹو کے عشق میں گرفتار ہیں اور باپ کے بعد بیٹی سے محبت کا یہ والہانہ اظہار جاری ہے۔ چاہے اس پر کچھ بھی الزامات لگیں۔ مجھے مسجد میں بیٹھے بیٹھے اقبال کی وہ بات یاد آگئی ۔

تیرے امیر مال مست

تیرے غریب حال مست

رات بارہ بجے کے قریب استقبالی جلوس میرے گھر کے قریب پہنچا ۔ میں باہر کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ پھر دو کان پھاڑ دینے والے دھماکے ہوئے اور لوگ بھاگنے لگے۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ انسانی جانوں کا بے دریغ ضیاع، لاشوں کے ڈھیر، زخمیوں کی کراہیں اور لواحقین کی آہیں۔ مگر یہ ایک ایسی قوم میں ہوا جہاں انسانی جان کی حرمت ختم ہوچکی ہے۔ سو سب کچھ حسب روایت ہوگا۔ گھسے پٹے بیانات، روایتی اعلانات، معمول کے حکومتی دعوے اوردو چار دن میڈیا پر ہلچل۔ پھر رات گئی بات گئی ۔ کسی کا کیا جاتا ہے۔ دنیا تو غریبوں کی لٹی ہے۔ کسی اور مہذب معاشرے میں یہ ہوتا تو پوری قوم اٹھ جاتی اورکبھی دوبارہ ایسا نہیں ہو پاتا۔ مگر یہاں اس جیسے ان گنت واقعات میں ہزاروں لوگ مرچکے ہیں اور آج تک کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

مایوسی سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ مایوسی کن وجوہات کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے؟ مایوس انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ مثبت زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لئے یہاں کلک کیجیے۔

    مگر کیا کیجیے کہ جب عوام نے اپنے لیے ’جانور‘ کا کردار پسند کر لیا ہے تو کسی کو کیا پروا کہ وہ جیتے ہیں یا مرجاتے ہیں۔ مجھے اس صحافی کی بات یاد آگئی۔ اس نے غلط کہا تھا ۔ مڈل کلاس کی اخلاقیات ان کی اپنی گھڑ ی ہوئی نہیں ہیں۔ یہ خدا اور پیغمبر کی عطا کردہ اخلاقیات ہیں۔ اس میں جان، مال اور آبرو کے تحفظ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس ملک کے عوام نے اگر اس اخلاقیات کو اختیار نہیں کیا اور اس کے دفاع کے لیے نہیں اٹھے تو اسی طرح سڑکوں پر ان کی لاشیں اور اعضا بکھرے پڑے رہیں گے اور ہر حکمران ان کو رنگین خواب دکھا کر ان کی ٹیکسوں سے لی گئی دولت اپنی ذات پر خرچ کرتا رہے گا۔

فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے

کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو کبھی معاف

18 اکتوبر کے اس دن کا دوسرا سبق ہماری قوم میں بڑھی ہوئی وہ خلیج ہے، جسے آج سے پانچ برس قبل میں نے اپنی کتاب’عروج و زوال کا قانون اور پاکستان‘ میں بیان کیا تھا۔ یہ خلیج معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی اور مغرب پرستی کے عناصر سے پیدا ہوئی۔ اس کی تاریخی بنیادیں ہیں جنہیں میں نے اس کتاب میں تفصیل سے بیان کردیا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ فکری خلیج اب عملی ٹکراؤ میں بدل چکی ہے۔

    اس وقت ہمارے معاشرے میں ایک طرف وہ مذہبی انتہا پسند ہیں جن کی بنیاد مذہب کا سطحی علم اور مغرب کی شدید نفرت پر قائم ہے۔ دوسری طرف مغرب کی تہذیب کے سامنے فکری اور تہذیبی طور پر شکست کھائے ہوئے وہ لوگ ہیں جو اس معاشرے کو خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ صراط مستقیم کے بجائے مغربی اقدار کے سانچے پر قائم دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب پسند ان لوگوں کو پہلے ہی حکمرانوں کی تائید حاصل تھی کہ بے نظیر صاحبہ کے امریکی حمایت پر مبنی بیانات اور متوقع طور پر ان کے اقتدار میں آنے پر مذہبی انتہا پسند شدید ردعمل کا شکار ہوگئے۔ ان کی آمد پر حملے کی دھمکیاں پہلے ہی سے موجود تھیں اور ہر شخص کسی حملے کی توقع کر رہا تھا۔

    ہم نہیں جانتے یہ دھماکے کس نے کرائے ہیں، لیکن یہ خلیج، یہ تقسیم اور یہ نظریاتی اختلاف کوئی واہمہ نہیں بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ خلیج اگر بڑھتی ہے تو اس کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ ملک کو کوئی شدید نقصان پہنچ جائے۔ ایسے میں یہ باشعور لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ایک اعتدال کی راہ سامنے لائیں۔

    وہ لوگ سامنے آئیں جو سچے خدا پرست ہوں لیکن معاشرے کو قرون وسطیٰ میں لے جانا نہ چاہتے ہوں۔ وہ مغرب کے مقابلے میں اپنی قوم کی سرفرازی اور ترقی چاہتے ہوں، لیکن مغرب کی نفرت کی نفسیات میں نہ جیتے ہوں۔ وہ لوگ جدید روشنی کو اپنے معاشرے میں پھیلانے کے خواہش مند ہوں لیکن مغربی اقدار کے بجائے اسلامی اقدار کی بنیاد پر یہ کام کرنا چاہتے ہوں۔ یہ لوگ لباس، زبان اور ثقافت میں جدید ہوں لیکن ذہن، سوچ اور فکر میں نبوی ماڈل کو اپنا معیار بناتے ہوں۔ یہ اعتدال پسند لوگ اگر سامنے نہ آئے تو اندیشہ ہے کہ دو قسم کے انتہا پسندوں کا یہ ٹکراؤ مملکت خداداد کی چولیں ہلا دے گا۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ سیاسی اور مذہبی لیڈر کس طریقے سے اپنے پیروکاروں کو بے وقوف بناتے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ لوگ لیڈروں کی اندھی تقلید کیوں کرتے ہیں؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

اکتوبر 18 کے سبق
Scroll to top