بلا تحقیق

اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لائے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو مبادا کسی قوم پر نادانی سے جا پڑو، پھر تمہیں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔(الحجرات ۴۹:۶)

ذرا سوچیے

۔۔۔۔۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دین میں بلا تحقیق بات پھیلانے کا کیا مطلب ہے؟

۔۔۔۔۔۔ کونسی خبریں ہیں جن کی تحقیق ضروری ہے؟

۔۔۔۔۔۔ بنا سوچے سمجھے خبر پھیلانے کے کیا نقصانات ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ اس عادت سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟

یہ سب جاننے کے لئے درج ذیل مضمون کا مطالعہ کیجیے۔

کیس اسٹڈی

ایک صاحب نے اپنے گھر کا فون نمبر ملایا ، نوکر نے اٹھایا۔

نوکر: کون ؟

صاحب: میں تمہارا صاحب بول رہا ہوں۔

نوکر: لیکن میرا صاحب تو اندر بیٹھا ہے۔

صاحب: لیکن تمہاراصاحب تو میں ہوں۔

نوکر: اب میں کیا کروں؟

صاحب: لگتا ہے وہ کوئی چور ہے، اسے مار دو۔

نوکر: اچھا ساب

 کچھ دیر بعد نوکر واپس آیا اور بولا : لاش کا کیا کروں۔

صاحب: اسے سوئمنگ پول میں پھینک کر بھاگ جاؤ۔

نوکر: مگر ہمارے گھر میں تو کوئی سوئمنگ پول نہیں۔

صاحب کچھ سوچ کر: اوہ، لگتا ہے یہ میرا گھر نہیں۔ سوری، میں نے رانگ نمبر پر کال کردی۔

غور فرمائیے

سوال نمبر ۱: اس کیس میں وہ کونسی خبر یا معلومات تھیں جن کی تحقیق کرنا ضروری تھی۔

سوال نمبر ۲۔ خبر کی تحقیق کی ذمہ داری کس کی تھی؟

خبر بلا تحقیق نشر کرنے کا مفہوم

اس آیت سے مراد یہ ہے اگر خبر کسی معاشرتی ، اخلاقی ، مذہبی یا کسی اور پہلو سے اہمیت کی حامل ہے اور اسکی اشاعت سے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں اور اس خبر کا بتانے والا کوئی شریعت کی حدودو قیود سے لاپرواہ کوئی غیر سنجیدہ شخص ہے تو اس خبر کی اشاعت سے قبل اسکی تحقیق کرلینا ضروری ہے۔

بلا تحقیق بات کو پھیلانے سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان معاشرے کو افواہوں اور انتشار سے بچایا جائے اور باہمی اخوت و یگانگت کو فروغ دیا جائے۔

بلا تحقیق معلومات کو تسلیم کرنے یا پھیلانے کے اسالیب

۔۔۔۔۔۔ سیاسی گفتگو میں تحقیق کے بغیر بات کہنا جیسے فلاں سیاستدان  ایک کرپٹ شخص ہے۔

۔۔۔۔۔۔ مذہبی امور میں نشر کرنا جیسے احادیث یا دینی احکامات کوسند کے بغیر مان لینا یا شخصیات کے بارے میں پروپیگنڈا کرنا کہ فلاں شخص یا گروہ کافر ہے وغیرہ۔

۔۔۔۔۔۔ سماجی معاملات میں خبر نشر کرنا جیسے ساس کی سنی سنائی باتیں شوہر کو بتانا وغیرہ یا کسی قوم کے خلاف پروپیگنڈا کرنا۔

بلا تحقیق معلومات کو تسلیم کرنے یا پھیلانے کی وجوہات اور محرکات

عام طور پر لوگ ان وجوہات کی بنیاد پر بلا تحقیق باتوں کو پھیلا دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ معلومات کاادھوری ہونا: مثال کے طور پر اکرم نے کہا کہ احمد نے وسیم کو برا بھلا کہا اور بری طرح پیش آیا۔  اس جملے سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ احمد ایک بدمزاج انسان ہے۔بات یوں تھی کہ احمد نے وسیم کو نماز نہ پڑھنے پر برا بھلا کہا اور سرزنش کی۔

۔۔۔۔۔۔ الفاظ میں ہیر پھیر کرنا یا غلط مفہوم اخذ کرنا: جیسے ایک شخص نے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تو اس کو یہ رنگ دیا گیا کہ اس نے خود توہین رسالت کی ہے۔ پھر یہی بات آگے لوگوں کو منتقل کر دی گئی۔

۔۔۔۔۔۔ مطلقاً  بات کا جھوٹ ہونا:  جیسے کسی کے بارے میں  پراپیگنڈا کیا گیا کہ وہ بدکار ہے۔

بلا تحقیق معلومات کو تسلیم کرنے یا پھیلانے کے محرکات یہ ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ ۱۔ تفریح کا حصول۔  ۲۔ معاشرے میں انتشار پیدا کرنا ۔ ۳۔ بے احتیاطی۔ ۴۔ غلط فہمی۔ ۵۔ لوگوں کو متاثر کرنے کا جذبہ

بلا تحقیق معلومات کو تسلیم کرنے کے نقصانات

۔۔۔۔۔۔ ۱۔سیاسی ابتری ۲۔بداعتمادی کی فضا ۳۔ گروہ بندی ۴۔ مسلکی اختلافات ۵۔بدگمانی ۶۔جنگ و جدل

تحقیق کرنے کے طریقے

کسی معلومات، خبر یا افواہ کی تحقیق ، تصدیق یا تردید کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں اور انکا انحصار خبر کی نوعیت اور موقع محل پر ہے۔البتہ کسی بھی اہم بات کی تصدیق یا تردید کے لئے درج ذیل ذرائع استعمال کئے جاسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ علمی معلومات کی تصدیق کے لئے کتابیں یا انٹرنیٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے مثال کے طور پر کوئی یہ کہے کہ سود حرام ہے تو اس کی تصدیق قرآن کی آیت اور احادیث سے کی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔ اخبار،ٹی وی یا ریڈیو پر کسی اہم خبر کی تصدیق دیگر ٹی وی چینل اور متعلقہ اداروں سے کی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔ سماجی غلط فہمیوں کی تحقیق متعلقہ افراد سے پوچھ کر کی جاسکتی ہے۔

بلا تحقیق بات پھیلانے کی عادت کا علاج

۔۔۔۔۔۔ خبر کی نوعیت کو دیکھیں کہ وہ اہم ہے کہ غیر اہم۔ اور کیا اس خبر کی اشاعت سے کوئی فساد پھیلنے کا اندیشہ ہے یا نہیں۔

۔۔۔۔۔۔ خبر کا حوالہ معلوم کیا جائے جیسے اگر کوئی حدیث بیان کرے تو مکمل حوالہ معلوم کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔ خبر پہنچانے والے پر نظر رکھی جائے کہ وہ کس کردار یا عادات کا حامل ہے اور اسکا اس خبر سے کیا تعلق ہے۔

۔۔۔۔۔۔ اگر خبر کو آگے بڑھائیں تو اس کو من وعن بیان کریں اور اس کا حوالہ ضرور بیان کریں۔

۔۔۔۔۔۔ اگر شک ہو کہ خبر یا مخبر میں غلطی ہو سکتی ہے تو خاموشی کئی بلاؤں کو ٹال سکتی ہے۔

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ ’’بھائی مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ پیاز کھانا حرام ہے‘‘ ۔اکبر نے کہا ’’تم غلط کہہ رہے ہو۔ چلو چل کر پوچھ لیتے ہیں‘‘۔ مولوی صاحب سے کہا’’ میاں میں نے کہا تھا کہ بیاج(سود) کھانا حرام ہے‘‘۔اس جملے میں خبر غلط کب ہوئی اور اس کی کیا وجہ تھی؟

۔۔۔۔۔۔ اسلم نے اکبر سے کہا کہ ٹی وی پر بتایا ہے کہ پاکستان چوک پر دھماکہ ہو گیا ہے۔ اکبر نے ٹی وی دیکھے بنا لیاقت کو یہ خبر پہنچادی کیا یہ خبر کو بلاتحقیق آگے بڑھانا ہے؟ وضاحت کریں۔

۔۔۔۔۔۔ پہلے خبر کی تحقیق ضروری ہے کہ مخبر کی جانچ پڑتال کی جائے کہ وہ کس حد تک قابل اعتماد ہے؟ کیا احادیث کے ضمن میں راویوں اور متن پر ہونے والی جرح کی کیا نوعیت ہوتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔ پورے شہر کی بجلی پچھلے ۴ گھنٹے سے منقطع تھی ، ٹی وی چینل کی نشریات نہ سننے کی بنا پر شہر بھر میں افواہ پھیل گئی کہ ملک پر فوج نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس افواہ کی تصدیق و تردید کے لئے کون سے ذرائع استعمال کریں گے ؟

۔۔۔۔۔۔ اکرم نے کسی سے سنا کہ ملک کے صدر کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس نے اپنے دوستوں کو متحیر کرنے کے لئے یہ خبر آگے پھیلا دی۔ لوگ بلا تحقیق بات کیوں آگے بڑھاتے ہیں؟ اسکے اسباب بیان کریں۔

۔۔۔۔۔۔ کسی نے افوہ اڑادی کہ ایک سیاستدان کو گولی مار دی گئی۔ اس سے شہر میں سراسیمگی پھیل گئی۔ سنی سنائی بات بلاتحقیق آگے بیا ن کردینے کے کیا کیا نقصانات ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ ایک عالم دین نے کسی حدیث سے متعلق اپنی تحقیق بیان کی کہ یہ حدیث مستند نہیں ہے۔ سننے والے نے عالم کے بارے میں یہ رائے پھیلا دی کہ وہ منکر حدیث ہے۔ مذہبی لوگوں میں بلا تحقیق بات آگے پہنچانے کا جذبہ کیوں پایا جاتا ہے؟

 (پروفیسر محمد عقیل)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

بلا تحقیق
Scroll to top