ایک ہیٹ بیچنے والا دوپہر کے وقت ایک درخت کے سائے تلے سوگیا تاکہ کچھ آرام کرے۔ برابر میں ہیٹ (Hat) کی ٹوکری رکھی تھی۔ جب وہ سو کر اٹھا تو اس نے دیکھا کہ ٹوکری غائب ہے۔ اچانک اس کی نظر درخت کے اوپر پڑی جہاں بندر اس کے ہیٹوں سے کھیل رہے تھے۔ وہ پریشانی کے عالم میں اپنا سر کھجانے لگا لیکن وہ حیران رہ گیا کہ بندر بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے سر کھجا رہے ہیں ۔ اس نے ایک دو حرکتیں اور کیں اور دیکھا کہ بندر اس کی ہر حرکت کی نقل کر رہے ہیں ۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ اس نے اپنے سر پر سے ہیٹ اتار کر زمین پر پھینک دیا۔ تمام بندروں نے اس کی پیروی میں اپنے ہیٹ زمین پر پھینک دیے۔ اس طرح ہیٹ کے مالک نے انہیں جمع کیا اور اپنی راہ لی۔
برے آدمی اچھی باتوں میں بھی برائی ڈھونڈتے ہیں جیسا کہ مکھی سارے جسم کو چھوڑ کر زخم پر بیٹھتی ہے۔ افلاطون |
اتفاق سے اسی ہیٹ بیچنے والے کا ایک پوتا بھی ہیٹ فروش بن گیا۔ اس نے اپنے دادا سے یہ کہانی سن رکھی تھی۔ اس نے آزمانے کے لیے ایک دن ہیٹ ٹوکری میں ڈالے اور ایک درخت کے نیچے سستانے لیٹ گیا۔ اس کی توقع کے عین مطابق کچھ دیر بعد بندر اس کی ٹوکری لے اڑے۔ اس نے اپنا سر کھجانا شروع کیا تو بندروں نے بھی اس کی نقل کی۔ یہاں تک کہ اس نے اپنا ہیٹ زمین پر پھینکا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بندر نیچے اترا اور اس کا زمین پر پڑا ہوا ہیٹ اٹھایا پھر اس نے ہیٹ فروش کے ایک تھپڑ رسید کیا اور بولا ’’بیوقوف! کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ صرف تیرا ہی دادا تھا‘‘؟
ہماری سوسائٹی میں دوسروں کو بیوقوف بنانے کی وبا عام ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہر شخص دوسرے کا گلا کاٹنے پر تلا ہے۔ اس ’’ڈیڑھ ہوشیاری‘‘ کے سحر میں ایک فیکٹری کا مالک بھی ملوث ہے اور ایک پھل فروش بھی۔ ایک دودھ والا مہنگائی کا نعرہ لگاتے ہوئے دودھ کی قیمت میں ناجائز اضافہ کر دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ صرف وہ ہی عقل مند ہے اور دوسرے بیوقوف ہیں۔ لیکن پھر دوسرے لوگ بھی چالاکی سیکھ لیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ دودھ والا جب ناجائز منافع اپنی جیب میں بھر کے بازار میں نکلتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تو اس سے بھی بڑے ’’ڈیڑھ ہوشیار‘‘موجود ہیں جو اس کے ناجائز منافع کو سود کے ساتھ وصول کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
موجودہ دور کی بین الاقوامی سیاست میں کیا عوامل کار فرما ہیں؟ عصر حاضر کی اسلامی تحریک کو امریکی دانشور کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں؟ اسلام اور مغرب کے مابین موجودہ تصادم کی حرکیات کیا ہیں؟ اسلامی جماعتیں کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟ ان سوالات کا جواب مشہور امریکی مصنف جان ایل ایسپوزیٹو نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہ مضمون ان کی کتاب کے تعارف پر مشتمل ہے۔ |
اس وقت ہماری پوری سوسائیٹی مہنگائی کا رونا رو رہی ہے۔ اس مہنگائی کے کئی اسباب میں سے ایک سبب دوسرے کو بیوقوف بنانا ہے لیکن اس عمل کی مثال ٹینس کی بال کی مانند ہے جسے جتنی قوت سے دیوار پر مارا جائے گا وہ اتنی ہی شدت سے واپس پلٹ آئے گی۔
دوسروں کو بیوقوف مت سمجھئے کیونکہ دوسرا بھی آپ کے بارے میں یہی سوچ سکتا ہے۔ اکثر چالاکی کرنے والا خود ہی بیوقوف بن جاتا ہے۔
(مصنف: پروفیسر محمد عقیل)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ بے وقوف لوگ دوسروں کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ اس طرز عمل کی اصل وجہ انسان کے اندر پایا جانے والا کون سا جذبہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔ ہم کس طریقے سے اپنے اندر دوسروں کے بارے میں ایک مثبت رویہ پیدا کر سکتے ہیں؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز