برصغیر کے لوگ بھی عجیب ہیں۔ سیکس سے متعلق ان کے ہاں بالکل متضاد رویے پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف ان کے ہاں شرم وحیا ایک بہت بڑی اخلاقی قدر ہے۔ سیکس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بھی انسان خود کو کھسیانا سا محسوس کرتا ہے اور دوسری طرف یہ عالم ہے کہ معاشرے میں جنسی بے راہ روی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے برعکس مغربی معاشروں میں اگرچہ فحاشی اپنے عروج پر ہے لیکن وہ لوگ اس معاملے میں دوغلے رویوں کا شکار نہیں ہیں۔
ناکام شخص وہ ہے جس نے ایک غلطی کی مگر اس غلطی سے سبق سیکھ کر اپنے تجربے میں اضافہ نہ کیا۔ البرٹ ہبرڈ |
برصغیر کی قدیم معاشرت میں عورت کو بری طرح دبایا گیا اور اقدار کا ایسا نظام قائم کیا گیا جس میں عورت کے لئے سانس لینا بھی دشوار ہے۔ یہ تصور قائم کیا گیا کہ عورت صرف مرد کی خدمت کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ پہلے باپ، پھر بھائی، اس کے بعد خاوند اور آخر میں بیٹے کی خدمت اس کا فرض ہے۔ اگر خاوند اپنی بیوی سے بے وفائی کرتے ہوئے کسی اور عورت سے ناجائز تعلقات استوار کر لے تو یہ جرم قابل معافی سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ چلو مرد ہے، لیکن اگر بیوی ایسا کرلے تو یہ جرم ناقابل معافی ہے اور اس کی سزا موت ہے جو عورت کو اس کا خاوند، باپ یا بھائی دے سکتا ہے۔
انسان کی نفسیات رد عمل کی نفسیات ہے۔ جب انسان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تو وہ انہیں آسانی سے قبول نہیں کرتا بلکہ ان کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ اگر اسے ہر طرح سے باندھ کر رکھا جائے تو وہ چور راستے تلاش کر لیتا ہے۔ جب کبھی اسے کوئی ایسا موقع ملتا ہے جس سے وہ ان پابندیوں کو توڑ سکے تو وہ انہیں پوری قوت سے توڑ دیتا ہے۔ یہی معاملہ برصغیر کی عورت کے ساتھ ہوا۔
بیسویں صدی کے اواخر سے میڈیا کے فروغ سے ایک بہت بڑی معاشرتی تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ پرانی اقدار ٹوٹ رہی ہیں اور نئی جنم لے رہی ہیں۔ میڈیا نے اپنا کاروبار چمکانے کے لئے انسان کے سفلی جذبات کو بھرپور استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں ایک خاموش تبدیلی آ رہی ہے۔ اس تبدیلی کا ہدف نئی نسل ہے۔ برصغیر کی عورت نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر خود پر عائد جائز و ناجائز پابندیوں کو توڑنے کا ارادہ کی جس کے اثرات واضح طور پر ہمارے معاشرے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ آپ نے پاکستان کے بازاروں میں اکثر یہ منظر دیکھا ہو گا کہ ماں برقعے میں ہے اور اس کی بیٹی نے انتہائی نامعقول سا لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔ دراصل یہ عورت کی قدیم اقدار کے خلاف بغاوت ہے جن میں اس پر بہت سی ناجائز پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
ان قدیم و جدید اقدار کے درمیان ایک خدا سے ڈرنے والے مسلمان کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟ شرم و حیا سے متعلق جو احکام ہمیں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے معلوم ہوتے ہیں، وہ انتہائی معقول ہیں اور انسانی عقل بھی انہیں تسلیم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ جو پابندیاں ہماری معاشرت میں رائج ہیں، ان میں زیادہ تر نامعقول ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ اس معاملے میں افراط و تفریط سے اجتناب کرتے ہوئے اعتدال پسندی کا رویہ اختیار کریں۔ دین کے احکامات پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے اور بے جا پابندیوں سے اجتناب کرکے ہم اپنی نئی نسل کو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بندہ بنا سکتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی معاشرتی پابندیوں پر ہی اصرار کیا تو عین ممکن ہے کہ نئی نسل دینی احکام کو بھی پس پشت ڈال دے۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
سیکس سے متعلق جو انتہا پسندانہ رویے ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں، ان کا تقابلی جائزہ پیش کیجیے اور یہ بیان کیجیے کہ اعتدال کی راہ کیا ہے؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز