عیسائی اور مسلم تاریخ میں حیرت انگیز مشابہت

اس کے سوا کہ اسلام حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ابن اللہ ہونے کو تسلیم نہیں کرتا، اسلام اور عیسائیت میں کوئی اساسی اختلاف نہیں۔ دونوں کا جوہر، دونوں کی روح و رواں ایک ہی ہے، دونوں نوع انسانی کے بطون میں کام کرنے والی ایک ہی قسم کی روحانی قوتوں کی پیداوار ہیں۔

    عیسائیت، یہودیوں اور رومیوں کی شقی القلب مادہ پرستی کے خلاف ایک صدائے احتجاج تھی۔ اسلام عربوں کی انسانیت سوز بت پرستی اور ان کے وحشیانہ و ظالمانہ رسوم و عادات کے برخلاف ایک اعلان جنگ تھا۔ عیسائیت کی تبلیغ ایک متمدن و مہذب قوم کو کی گئی جو ایک منظم حکومت کی تابع فرمان تھی۔ اس لئے اسے کم شورہ پشت خرابیوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اسلام کی اشاعت ایسے قبیلوں اور فرقوں میں ہوئی جو ہمیشہ ایک دوسرے سے برسر پیکار تھے۔ اس لئے اسے ذاتی مفادات کے جبلی تقاضوں اور آبائی و جدی توہم پرستی کی قلعہ بندیوں کے خلاف لڑائی لڑنی پڑی۔

انسانوں میں تکبر، حسد، ریاکاری اور دیگر شخصی مسائل کیوں پائے جاتے ہیں؟ ان کا علاج کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس تحریر کا مطالعہ کیجیے۔

    عیسائیت مشرق کی طرف جو قدم بڑھا رہی تھی، انہیں ایک نفیس الدماغ، لیکن عجیب الفطرت شخص نے، جو نسلاً یہودی لیکن تعلیماً اسکندریہ کا ایک یونانی تھا، روک دیا۔ چنانچہ وہ یونان اور روما کی طرف چل دی۔ ان ملکوں میں پہنچ کر اس نے ان کی صدیوں پرانی مشرکانہ تہذیب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور اس نئے افکار اور نئے نظریوں کی صورت میں منتقل کر دیا۔ عیسائیت نے جس لمحہ اپنے مولد سے نقل مکان کیا، وہ عیسائیت نہ رہی بلکہ حضرت عیسی کے دین کی بجائے پال حواری کا مذہب بن گئی۔۔۔۔۔

    اسلام کے موجودہ نام لیواؤں کی حالت پر افسوس ہے! جس طرح کلیسائی آبائیت نے دین عیسوی کی اصلی صورت کو مسخ کر دیا تھا، اسی طرح علمائے ظاہر کی اندھا دھند تقلید پرستی نے اسلام کی حقیقی روح کو جلوہ گر ہونے سے روک دیا ہے۔ ایک عیسائی خطیب [مامرے] نے دین اور دینیات کے باہمی اختلاف کو اور ان خرابیوں کو جو ان دونوں کے التباس کی بدولت عیسوی کلیسا یں پیدا ہو گئی ہیں، بڑے پرزور الفاظ میں بیان کیا ہے۔ جو کچھ عیسائیت میں ہو چکا ہے وہی اب اسلام [یعنی مسلمانوں] میں ہو رہا ہے۔

    عمل کی جگہ زبانی اقرار کے ڈھونگ نے لے لی ہے۔ نیک اور پرخلوص کاموں کو، یعنی ایسے کاموں کو جو خلق خدا کی بھلائی کے لئے، نیکی کرنے کی خاطر اور حب الہی کی وجہ سے کئے جائیں، خالی خولی رسم پرستی نے معطل کر دیا ہے۔ مذہبی جوش مردہ ہو چکا ہے اور خدا و رسول کی محبت ایک مہمل ترکیب لفظی بن گئی ہے۔

    وہ ذوق و شوق جس کے بغیر انسانی زندگی بہائم کی زندگی سے بہتر نہیں، یعنی راست روی و راست اندیشی کا ذوق و شوق رخصت ہوچکا ہے۔ آج کل کے مسلمان الفاظ کی محبت میں مبتلا ہو کر معانی سے غافل ہو گئے ہیں۔ معلم اسلام نے جس مثالی نصب العین کی تلقین کی تھی، اس کے حصول کی جدوجہد کرنے کی بجائے، نیکو کاری و اتقاء میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں کوشاں رہنے کی بجائے، خدا سے محبت کرنے اور اس کی خاطر انسانوں سے محبت کرنے کی بجائے، وہ موقع پرستی اور ظاہر داری کے غلام ہو گئے ہیں۔۔۔۔

    مسلم جماعتوں کے موجودہ جمود کا سب سے بڑا باعث یہ غلط خیال ہے جس نے مسلمانوں کی اکثریت پر قبضہ جما لیا ہے کہ اجتہاد ذاتی کا حق فقہائے قدیم پر ختم ہوگیا ہے اور اس زمانے میں اس کی مشق گناہ ہے۔ اسی کی ایک شق یہ خیال ہے کہ ایک مسلمان صرف اس صورت میں صحیح العقیدہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کا مقلد ہو اور اپنی ذاتی رائے کو معطل کر کے ایسے علماء کے احکام و اقوال پر اعتماد کرے جو نویں صدی عیسوی میں زندہ تھے اور بیسویں صدی کے مقتضیات کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔

اچھی ساکھ اپنی اصل میں کسی پودے کی طرح ہے۔ اسے قائم کرنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ اچھی ساکھ کو ایک رات میں قائم نہیں کیا جا سکتا لیکن اسے ایک ہی رات میں تباہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔ جیریمی ٹیلر

    اہل سنت کا یہ عام عقیدہ ہے کہ چار اماموں کے بعد کوئی عالم دین ایسا پیدا نہیں ہوا جو شریعت محمدی کی تعبیر و تفسیر کی قابلیت رکھتا تھا۔ مسلمان جن بدلے ہوئے حالات میں آج کل زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا اور یہ خیال کیا جات اہے کہ جن نتائج پر یہ علمائے دین آج سے صدیوں پہلے پہنچے تھے، وہ آج بھی جوں کے توں قائم ہیں اور ان کا اطلاق آج کے حالات پر بھی اسی طرح ہوتا ہے۔

    شیعوں میں اخباریوں کا فرقہ ذاتی رائے کو مفسرین شریعت سے ایک قدم آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فکر کو ذہن انسانی کا سب سے اہم اور سب سے اشرف وظیفہ کہا تھا۔ ہمارے مکتبی ارباب فقہ اور ان کے غلامانہ ذہنیتوں والے مقلد اسے بروئے کار لانے کو گناہ اور جرم قرار دیتے ہیں۔ جو کچھ عیسائیوں کے یہاں ہوا تھا وہ ہی مسلمانوں کے یہاں ہوا ہے۔۔۔۔

    عیسائی کلیسائیوں کی طرح ان علمائے فقہ میں بہت سے ایسے تھے جو جابر اور مستبد بادشاہوں کے ملازم تھے، جن کے مطالبات معلم اسلام صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشادات سے مطابقت نہ رکھتے تھے۔ چنانچہ نئے نئے قانون ایجاد کئے گئے، نئے نئے نظریے تراشے گئے، نئی نئی روایات ڈھونڈ نکالی گئیں اور شارع کے الفاظ کو ایسے ایسے معانی پہنائے گئے جو ان کے اصلی مفاہیم کی ضد تھے۔۔۔۔ ایک انگریز مصنف کہتا ہے،

جس طرح عبرانیوں [یعنی یہودیوں] نے عہد عتیق کی کتابوں [یعنی بائبل] کو برطرف کر کے تلمود کو اختیار کیا، اسی طرح مسلمانوں نے قرآن کو بالائے طاق رکھ کر [ضعیف و موضوع] روایتوں اور علمائے دین کے فتووں کا اپنا رہبر بنا رکھا ہے۔ اگر کسی مسلمان سے پوچھا جائے کہ اس کے مذہب کا نصاب کیا ہے تو وہ قرآن کے سوا کسی اور کتاب کا نام لے گا۔ پھر بھی ہمارا مطلب ضرور ہے کہ فی الواقع قرآن اس کے اعمال یا عقائد کی راہنمائی نہیں کرتا۔

قرون وسطی میں نیا عہد نامہ [یعنی انجیلیں] نہیں بلکہ ٹامس ایکوئیناس کی سما تھیولوجیکا یعنی ‘جامع دینیات’ عیسوی عقائد کے صواب و خطا کا معیار تھی۔ اور کیا موجودہ زمانے میں عیسائی گرجا کا کوئی رکن انجیلوں کی ذاتی چھان بین کر کے حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات سے اپنے عقائد اخذ کرتا ہے؟ غالباً اگر وہ کسی تحریر سے رجوع کرتا بھی ہے تو صرف گرجا کے سوال و جواب نامہ ہی سے۔ یہی اس کے لئے کافی ثابت ہوتا ہے۔

اگر اس کی طبیعت میں چیزوں کی ٹوہ لگانے کا مادہ ہو تو گرجا کے انتالیس ارکان سے اس کے تمام شبہات زائل ہو جاتے ہیں، لیکن اگر اس سے پوچھا جائے تو وہ یہی کہے گے گا کہ اس کا ضابطہ عقائد انجیلوں سے ماخوذ ہے اور وہ کبھی یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ اس نے انجیلوں کے مضمون کا اکتساب کن وسیلوں سے کیا۔ موجودہ زمانے کا اسلام بالکل اسی قسم کے طریقوں سے وضع کیا گیا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے عقائد و اعمال کا بیشتر حصہ ایسا ہے کہ قرآن پر مبنی نہیں۔  

(مصنف: جسٹس سید امیر علی، ترجمہ: محمد ہادی حسین، “روح اسلام” سے اقتباس)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اسے پرنٹ کر کے اپنے ان دوستوں کو دیجیے جو کمپیوٹر استعمال نہیں کرتے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ اس تحریر سے آپ کیا سبق اخذ کر سکتے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ ہماری جامد ذہنیت کے تین اسباب بیان کیجیے۔

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

عیسائی اور مسلم تاریخ میں حیرت انگیز مشابہت
Scroll to top