فارم اور اسپرٹ

دینی احکام کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی شریعت کا ظاہری ڈھانچہ  اور دوسرا اس کا باطن۔ مثال کے طور پر رکوع و سجود نماز کا ظاہر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے تعلق اور خشوع و خضوع نماز کی روح ہے۔ کعبہ پہنچ کر پھیرے لینا طواف کا ظاہر ہے لیکن خدا کے حضور خود کو قربانی کے لئے پیش کرنا اس کی اصل روح ہے۔ بھوکے کو کھانا کھلانا ایک ظاہری عمل ہے لیکن لوگوں کی خدمت کا جذبہ اور اپنے پروردگار کا شکر اس کی روح ہے۔ اسی طرح دین کے ہر حکم کا ظاہر و باطن موجود ہے۔

دعوت دین کا کام کیسے کیا جائے؟ اس کا عملی طریق کار کیا ہونا چاہیے؟ دین کی دعوت کا کام کرنے والے مبلغ میں کیا خصوصیات ہونی چاہییں؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس تحریر کا مطالعہ کیجیے۔

جب دینی اعمال افراد یا اقوام کی محض عادت بن جائیں تو رفتہ رفتہ ان کا ظاہری ڈھانچہ باقی رہ جاتا ہے اور اصل روح کی طرف توجہ ہٹتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد نماز محض ورزش، روزہ محض بھوک و پیاس، زکوۃ محض دکھاوے اور حج محض سفر کا نام رہ جاتا ہے۔اگلے مرحلے پر گنتی کے چند ظاہری اعمال اصل بن جاتے ہیں اور بہت سے دوسرے احکامات یا تو نظر انداز کر دیے جاتے ہیں یا پھر ان کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے، چنانچہ زکوۃ تو دی جاتی ہے لیکن محتاجوں کو ذلیل کر کے دی جاتی ہے۔ حج تو کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ بھی کی جاتی ہے۔ روزہ تو رکھا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ افطار پارٹیوں کی صورت میں نمود و نمائش اور اسراف کا پورا انتظام کیا جاتا ہے۔ دعا بظاہر کی تو خدا سے جاتی ہے لیکن اس کے اصل مخاطب لوگ بن جاتے ہیں۔ جہاد کیا تو اللہ کے نام پر جاتا ہے لیکن اس کا نشانہ معصوم لوگوں کو بنایا جاتا ہے۔

درست رویے کے حامل شخص کو کوئی چیز اس کے مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی جبکہ غلط ذہنی رویے کے حامل شخص کی مدد روئے زمین کی کوئی چیز بھی نہیں کر سکتی۔ تھامس جیفرسن

سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں یروشلم کے مذہبی راہنما اسی قسم کی ظاہر پرستی کا شکار تھے۔ آپ نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ اپنے برتنوں کو صاف رکھنے کا تو بہت اہتمام کرتے ہو مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے اندر جو کھانا بھرا ہوا ہے، وہ لوٹ مار اور بددیانتی کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔

    کچھ لوگ تو اس ظاہر پرستی کا شکار ہوتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو ظاہری ڈھانچے کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہوتے کیونکہ اس میں انہیں کچھ پابندیاں سہنی پڑتی ہیں۔ ایسے لوگ کہتے نظر آتے ہیں کہ جی نماز میں کیا رکھا ہے، دین تو خدمت خلق کا نام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اللہ تعالیٰ کے احکام کا نام ہے۔ دین کے ظاہری ڈھانچے  اور اس کی روح دونوں ہی کی اہمیت اپنی اپنی جگہ بجا ہے۔ جو لوگ دونوں میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہیں۔

(مصنف: محمد مبشر نذیر)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ عام طور پر لوگ شریعت کے ظاہری ڈھانچے کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر اس کی حقیقی روح کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ بیان کیجیے۔ اس کے برعکس بعض لوگ ظاہری ڈھانچے کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی بیان کیجیے۔

۔۔۔۔۔۔ شریعت کی فارم اور اسپرٹ دونوں کو مدنظر رکھنے کی اہمیت بیان کیجیے۔

اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

فارم اور اسپرٹ
Scroll to top