انٹرنیٹ دورِ جدید کی ایک بہت مفید اور کارآمد ایجاد ہے۔ یہ نہ صرف معلومات کا ایک خزانہ ہے بلکہ مواصلات کے شعبے میں بھی اس نے ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔انٹرنیٹ پر ہر طرح کی معلومات بہت آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں۔اس کے ذریعے سے لوگ اپنے دور دراز عزیزوں سے باآسانی رابطہ کرسکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس نے بڑی حد تک لائبریری اور ڈاک کے نظام کی جگہ لے لی ہے۔
محتاجوں پر ظلم کرنے والا دراصل ان کے خالق کی شان میں گستاخی کرتا ہے اور ان پر رحم کرنے والا ان کے خالق کی تعظیم کرتا ہے۔۔ سیدنا سلیمان علیہ والصلوۃ والسلام) |
پاکستان میں انٹرنیٹ کئی سال قبل متعارف ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی ۔ملک میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کی تنظیم ’اسپاک‘ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں انٹرنیٹ کے صارفین کی کل تعداد کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی۔
اس حوالے سے یہ امر بے حد تشویشناک ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کے بیشتر صارفینِ اسے فحش اور عریاں ویب سائٹس تک رسائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ محض اندازہ نہیں، مذکورہ بالا تنظیم ’اسپاک‘ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بیشتر لوگوں کا پسندیدہ شغل، فحش اور عریاں ویب سائٹ دیکھنا ہے۔
یہ صورتحال ہر باشعور شخص کے لیے باعث تشویش ہے۔باخبر لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ تنہا پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس مسئلے سے پریشان ہے۔دنیا بھر میںسب سے زیادہ فحش ویب سائٹس ہی دیکھی جاتی ہیں۔ان سائٹس پربا قاعدگی سے جانے والے لوگ، دنیا کی نظر سے چھپ کر، انٹرنیٹ کی تاریک گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں۔یہ آوارگی ان کی عادت بن کر قلب و نظر کوناپاک کردیتی ہے۔اس کے بعد زندگی دو میں سے کسی ایک راستے کی طرف مڑ جاتی ہے۔ یاتو انسان حلال و حرام کی ہر تمیز کو فراموش کرکے زناکی وادی قدم رکھ دیتا ہے یا پھر شادی کا جائز راستہ کھلنے کے بعد بھی تاعمر پورنوگرافی کے نشہ کا عادی بنا رہتا ہے۔
انسانوں میں تکبر، حسد، ریاکاری اور دیگر شخصی مسائل کیوں پائے جاتے ہیں؟ ان کا علاج کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس تحریر کا مطالعہ کیجیے۔ |
ہماری سوسائٹی کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے غلط رویوں، نظریات اور بعض حالات کی بنا پر شادی کی بنیادی ضرورت کو، نوجوانوں کے لیے ناقابلِرسائی بنادیا ہے ۔جبکہ دنیا بھر میں یا تو مناسب عمرمیں نوجوانوں کی شادی ہوجاتی ہے یا پھر شادی کیے بغیر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ساتھ رہنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ ’اسپاک‘ کی اس رپورٹ کے ذریعے سے پوری سوسائٹی کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ یا تو لوگوں کے لیے نکاح کے جائز راستے کو کھول دیا جائے یا پھر سوسائٹی کی تباہی کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔
اس پیغام کا پس منظر یہ ہے کہ جن مغربی ممالک میں نکاح کے بغیر مرد و زن کا تعلق عام بات ہے، ان کے ہاںیہ کوئی اخلاقی خرابی نہیں ہے۔ان کے ہاں کی بلیو فلمیں ہوں یا فحش ویب سائٹس، اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ان سے دور رکھا جائے باقی لوگ آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں۔ مگر ہمارے ہاں، حیا اور عفت بنیادی اقدار ہیں۔ اسی طرح اخلاقی بحران کے اِس دور میں خاندان کا ادارہ ہماری واحد معاشرتی ڈھال ہے۔زنا اور بے حیائی کے فروغ سے یہ اقدار اور یہ ادارہ ختم ہوجائے گا۔
انٹر نیٹ پورنوگرافی کا کوئی حل ابھی تک جدید دنیا دریافت نہیں کرسکی ہے۔ سعودی عرب اور سنگاپور جیسے ممالک نے سنسرشپ کے ذریعے سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کا حل بہت زیادہ مؤثر نہیں ہوسکا ہے۔ ہمارے ہاں بھی سنسر شپ کی کوشش کی گئی مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔ بلکہ جیسا کہ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ جتنے زیادہ انٹرنیٹ کو استعمال کرنے والے بڑھیں گے اتنے ہی زیادہ فحش سائٹس پر وزٹ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں۔ وہ بچوں کی تربیت کو اپنا مسئلہ بنائیں۔ ان کو وقت کی رفتار کے حوالے نہ کریں بلکہ زندگی کے ہر سرد و گرم میں ان کی رہنمائی کریں۔ بچوں کے شعور میں حیا اور عفت کی اہمیت واضح کریں۔ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ کسی غلطی کی صورت میں نرمی اور محبت سے ان پر یہ واضح کریں کہ یہ چیزیں ہماری اقدار کے خلاف ہیں۔جب بچے بڑے ہوجائیں تو ایک مناسب عمر میں ان کی شادی کو اپنی ترجیحات میں بہت اوپر رکھیں۔یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ (مصنف: ریحان احمد یوسفی)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ فحش ویب سائٹس کے جو اثرات انسان کی خاندانی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں، ان کا جائزہ لیجیے۔
۔۔۔۔۔۔ ہم اپنی اولاد کو کس طرح فحش ویب سائٹس سے بچا سکتے ہیں؟
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز