لیجیے انقلاب آ گیا

ہمارے ہاں ایک طویل عرصے سے انقلاب کا انتظار جاری ہے۔ اس انتظار کا پس منظر یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ذرائع وسائل پر، دیگر بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح، استحصالی طبقات کا قبضہ ہے۔ فوج، جاگیردار، سیاستدان، سرمایہ دار اور بیوروکریسی میں پایا جانے والا استحصالی عنصر اس ملک کی سیاسی اور معاشی شہ رگ پر قابض ہے۔

    دوسری طرف عوام کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ غریب ہر دور میں چاہے وہ فوجی دور ہو یا عوامی سیاسی دور، یکساں طور پر پستا رہا ہے۔ حکومتیں بدلنے سے عوام کی تقدیر کبھی نہیں بدلی۔ ہر آنے والا پچھلے پر لعنت کرتا ہے، نئی روشنی اور ترقی کی نوید دیتا ہے اور جب جاتا ہے تو صورتحال پہلے سے زیادہ خراب ہوچکی ہوتی ہے۔ عوام کے کچلے جانے کا یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ امتیاز کیوں برتتا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں بھی نسلی و قومی امتیاز پایا جاتا ہے؟ اس ضمن میں اسلام ہمیں کیا سبق دیتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لئے یہاں کلک کیجیے۔

    اس عرصے میں ہمارے مذہبی اور غیر مذہبی دانشور قوم کو ایک عظیم انقلاب کی نوید دیتے رہے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ جس طرح روس،فرانس اور ایران میں انقلاب آیا تھا، اسی طرح پاکستان میں بھی عوامی انقلاب کی لہر استحصالی طاقتوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گی۔ انقلاب کی لہر کو پیدا کرنے کا جو طریقہ انہوں نے ٹھیک سمجھا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ استحصالی طبقات کے خلاف غصے کی وہ آگ بھڑکائیں کہ لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والی تپش آتش فشاں بن کر دہکنے لگے۔ قلم کے جوش اور لہجے کی گرمی سے عوامی جذبات کو برانگیختہ کریں۔ اپنے فکر و نظر کے ہر سوتے کو صرف لوگوں میں ردعمل کی نفسیات کے فروغ کے لیے وقف کر دیں۔

    چنانچہ اس پس منظر میں ہر قلمکار اور ہر مقرر کوشش کرتا ہے کہ وہ ان طبقات کے خلاف لوگوں کے ذہن میں نفرت کا زہر انڈیلتا رہے۔ ان کے ظلم، بدعنوانیوں، ریشہ دوانیوں سے عوام کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرتا رہے۔ اس مقصد کے لیے صاحب اقتدار شخص کو عام طور پران استحصالی طبقات کا نمائندہ بنا کر سامنے لایا جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ عوام کو بتاتے ہیں کہ ان کا ہر حکمران اصل میں حکمران نہیں بلکہ شیطان ہے۔ اس کے دور میں کوئی خیر نہیں اوراس کی ذات سے کسی کا بھلا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اس قوم کی تاریخ یہی ہے کہ جو شخص حکومت میں آجاتا ہے اس کی برائیاں لوگوں کو ازبر ہوجاتی ہیں اور اس کا ہر اچھا کام اس کا ذاتی مفاد ہی لگنے لگتا ہے۔

    نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام ہر سیاسی اور فوجی حکومت سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ سن ستتر تک عوامی تحریک کی مدد سے اور اس کے بعد عوام کی خاموش رضامندی کے ساتھ ہر حکومت بدل جاتی ہے۔ لیکن حکومتی تبدیلی چونکہ عوامی انقلاب کے مترادف نہیں ہوتی اس لیے وہ ایک دفعہ پھر نئے آنے والے پر اپنی توپوں کے دہانے کھول دیتے ہیں۔

    ان مفکرین اور دانشوروں کو یہ نہیں معلوم کہ لوگوں کے ذہنوں میں منفی سوچ کا جو بیج انہوں نے لگایا تھا، وہ اب برگ وبار لانے لگا ہے۔ انقلاب آگیا ہے۔ مگر یہ ایک بہت برا انقلاب ہے۔ لوگوں نے اپنے معاملا ت خود ٹھیک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مگر اس کا طریقہ یہ نہیں کہ استحصالی طبقات کے خلاف وہ اٹھیں، بلکہ وہ خود استحصالی طبقات میں شامل ہوگئے ہیں۔ ملازمت پیشہ لوگوں نے رشوت اور بدعنوانی کے ذریعے سے جبکہ تاجروں نے ملاوٹ اور گرانی کے ذریعے سے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔ مڈل کلاس کے ان دو نمایاں طبقات کے بعدجو غریب غربا رہ گئے تھے، انہوں نے اسٹریٹ کرائم کو اپنے ہر مسئلے کا حل بنا لیا ہے۔ سوسائٹی کے باقی لوگوں کے پاس سوائے صبر اورخود کشی کے کوئی اور چارہ نہیں بچا۔ سو سارے مفکرین اور دانشوروں کو مبارک ہو، انقلاب آگیا ہے۔

    مگر یہ راستہ تباہی کا راستہ ہے۔ ہم اس راستے کے ہر موڑ اور ہر راہ گذر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو یہ بتائیں گے کہ یہ غلط راستہ ہے۔ نفرت نہیں بلکہ محبت، بدلہ نہیں بلکہ درگزر، برائی نہیں بلکہ بھلائی، یہی طریقہ ہے جو قوم کی نجات کا راستہ ہے۔ ساری دنیا میں اگر برائی پھیل جائے تب بھی ہمیں نیکی کرنی ہوگی اس لیے کہ ہمیں اپنا بدلہ اپنے رب سے لینا ہے، انسانوں سے نہیں۔ ہمیں آخرت چاہیے ،دنیا نہیں۔ ہمیں حبیب خدا کے راستے پر چلنا ہے، کمیونسٹوں کے طریقے پر نہیں۔ اسی سے اصل انقلاب آئے گا۔ اسی سے اصل خیر پھوٹے گی۔ اسی سے صبح طلوع ہوگی۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اپنے اندر جھانکیے۔ انسان کے اندر ہی سے نیکی کا سرچشمہ پھوٹتا ہے۔ اگر ہم اس چشمے کو کھودنا بند نہ کریں تو یہ بہنا کبھی بند نہیں کرتا۔ مارکوس آرلیوس

یاد رکھیے کہ کسی بھی مثبت انقلاب کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ ہم انقلاب کے شارٹ کٹ کی تلاش میں کتنی ہی ٹکریں مار لیں، ہم اسے نہیں پا سکتے۔ منفی اور تخریبی انقلابات کے بہت سے شارٹ کٹ ہوا کرتے ہیں مگر تعمیری انقلاب کے لئے ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ کسی بھی عمارت کو چند سیکنڈ میں بم مار کر تباہ کیا جا سکتا ہے مگر اس کی تعمیر کے لئے کئی مہینے بلکہ کئی سال درکار ہوا کرتے ہیں۔ یہی قانون پوری کائنات میں قابل عمل ہے۔

    ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہم ایسا کر سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے یہ زیادہ اہم ہے کہ ہم دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے بن جائیں۔ اس مقصد کے لئے ہمیں اپنی شخصیت کو رائٹ اورئنٹڈ کی بجائے ڈیوٹی اورئنٹڈ بنانا ہوگا۔ ہماری رائے میں، ایک مثبت انقلاب کے لئے ہمیں دو میدانوں میں جدوجہد کرنا ہوگی:

۔۔۔۔۔ ہمیں اپنے لوگوں کے اخلاقی کردار، سیرت اور شخصیت کی تعمیر کرنا ہوگی۔

۔۔۔۔۔ ہمیں جہالت اور غربت کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔

اگر ہم صرف ایک شخص کے کردار اور شخصیت کو تعمیر کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور اسے علم حاصل کرنے اور غربت کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے درکار وسائل فراہم کر دیں تو کم از کم ایک خاندان کی حد تک ہم انقلاب لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یقین کیجیے کہ یہ معمولی کامیابی نہیں ہے۔ اس کا اصل اجر ہمیں اللہ تعالی کے حضور ایک ناقابل یقین جنت کی صورت میں ملے گا۔ اس دنیا میں بھی ایک خاندان کی زندگی میں مثبت انقلاب برپا کرنا کوئی گھٹیا درجے کا کام نہیں ہے۔ یہ ایک عظیم، عظیم اور عظیم کامیابی ہے۔

    اگر پورے ملک کا انقلاب ہمارے بس میں نہیں تو چلیے ایک خاندان کا انقلاب تو ہمارے بس میں ہے۔ تو چلیے اللہ کا نام لے کر ہمت باندھتے ہیں!!! محمد مبشر نذیر

    پیسہ کمانا اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا اس وقت ہمارے معاشرے کے ایک عام آدمی کی زندگی کا نصب العین بن چکا ہے۔ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جتنا زیادہ پیسہ پاس ہوگا اتنا ہی دنیا و آخرت کی بھلائی کا سبب بن جاتا ہے۔ سر دست میں دنیا کی بھلائی پر تو کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا البتہ انسان کی آخرت پر پیسہ جس طرح اثر ڈالتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آج اس پر کچھ گفتگو کر لوں۔اس لیے کہ مجھے یقین ہے کہ قارئین کی ایک بڑی تعداد خوشی یا مجبوری سے دولتمند بننے کی اس ریس میں ضرور شامل ہے یا ہونا چاہتی ہے، جو اس وقت معاشرے میں لگی ہوئی ہے۔

دوسرے لوگ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لئے آپ کے منتظر ہیں۔  آپ کے سوالات، تاثرات اور مثبت تنقید اس تحریر کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ ای میل بھیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ ہمارے منفی طرز فکر کی پانچ وجوہات بیان کیجیے۔

۔۔۔۔۔۔ کسی ایک فرد کی مثبت شخصیت کی تعمیر ایک بہت بڑا انقلاب ہے! اگر آپ اس بات سے متفق ہیں تو مثبت شخصیت کی تعمیر کے نفسیاتی، سماجی، اخلاقی اور سیاسی پہلوؤں کو بیان کیجیے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

لیجیے انقلاب آ گیا
Scroll to top