سینٹ سائمن اپنی ابتدائی زندگی میں شام کے ملک میں رہنے والے ایک چرواہے تھے۔ انہوں نے چرچ میں گائے جانے والے چند گیت سنے اور اس کے نتیجے میں ایک خانقاہ کی طرف چل دیے۔ یہاں وہ کئی دن بغیر کچھ کھائے پئے دہلیز پر پڑے رہے اور خود کو اس خانقاہ کا حقیر ترین خادم بنا لینے کی فریاد کرتے رہے۔ انہوں نے خود کو ہفتے میں صرف ایک دن اتوار کو کھانا کھانے کا عادی بنا لیا ۔اپنے چلّے کے دوران انہوں نے چالیس دن گرم ترین علاقے میں بغیر کسی خوراک کے بسر کئے۔ اس کوشش کے نتیجے میں وہ موت سے ہمکنار ہوتے ہوتے بچے لیکن انہوں نے (خدا سے کئے ہوئے )اپنے وعدے کی پاسداری کی۔
ہر طرح کی محنت سے انسان کو دولت ملتی ہے لیکن محض باتیں کرنے سے غربت ہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام |
جب تھیوڈورٹ ان سے ملنے آیا تو وہ بغیر خوراک کے 26 چلّے لگا کر (اپنے تئیں) موسیٰ، الیاس اور عیسیٰ (علیھم الصلوۃ والسلام) سے بھی آگے بڑھ چکے تھے جنہوں نے اپنی زندگیوں میں صرف ایک ایک مرتبہ چالیس دن کا روزہ رکھا۔
ان کی ایک اور غیر معمولی کوشش یہ تھی کہ انہوں نے اپنے جسم کو اتنی سختی سے رسیوں سے باندھ لیا تھا کہ وہ ہڈیوں میں چبھتی تھیں اور شدید تکلیف پہنچائے بغیر انہیں کاٹا بھی نہ جاسکتا تھا۔ بعد ازاں انہیں خانقاہ سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد وہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر چلے گئے جہاں انہوں نے اپنے پاؤں کو ایک وزنی لوہے کی زنجیر سے باندھ لیا۔
جب انہیں اس سے بھی اطمینان حاصل نہ ہوا تو وہ انطاکیہ کے مشرق میں دو دن مسافت کے مقام پرموجود ایک چالیس ہاتھ اونچے تنگ سے ستون پر چڑھ گئے ۔ یہاں وہ اپنی وفات تک موجود رہے۔ اس جگہ وہ نہ تو لیٹ سکتے تھے اور نہ ہی بیٹھ سکتے تھے بلکہ بڑی مشکل سے صرف جھک سکتے تھے چنانچہ انہوں نے خدا کے سامنے جھکنا شروع کردیا۔ کسی نے خدا کے سامنے ان کے رکوع کرنے کو گننا شروع کیا تو صرف ایک دن میں ان کے 1244 رکوع شمار ہوئے۔ انہوں نے جانوروں کی کھالیں پہن رکھی تھیں اور ان کی گردن کے گرد ایک موٹی زنجیر تھی۔ یہاں سینٹ سائمن ہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں تک کڑکتی دھوپ، طوفانی بارشوں اورشدید برفباری میں کھڑے رہے اور روزانہ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔
(History of Christian Church, www.ccel.org)
یہ رہبانیت کی تاریخ کی ایک مثال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: و رھبانیۃ ن ابتدعوھا۔ ما کتبنٰھا علیھم الّا ابتغاء رضوان اللّٰہ فما رعوھا حق رعایتھا۔ (الحدید57:27) ’’رہبانیت تو انہوں نے خود ہی ایجاد کر لی تھی۔ ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا۔ انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (اسے ایجاد تو کرلیا ) مگر اس کی رعایت نہ رکھ سکے۔‘‘
اس رہبانیت کی ایجاد کی وجہ یہ تھی کہ جب انسان دین کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی نظر میں دنیا کی وقعت کچھ نہیں رہتی۔ اسی بنا پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی رہبانیت اختیار کرنے کی کوشش کی اور یہ ارادہ کیا کہ وہ رات بھر نمازیں پڑھا کریں گے، ہمیشہ روزہ رکھیں گے اور ہمیشہ اپنی بیویوں سے دور رہیں گے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم! میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں اور اس کے حدود کا پاس رکھنے والا ہوں، لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بیاہ بھی کرتا ہوں۔ جس نے میرے طریقے سے انحراف کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘ (بخاری، کتاب النکاح)
کسی دینی مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک طالب علم کو عملی زندگی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ جدید ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے والا کوئی شخص اگر دین کی طرف مائل ہو جائے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ دین دار افراد کو اپنے معاشی مسائل کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔ |
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے: ’’ دین کے معاملے میں خود پر سختی نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ بھی تم پر سختی کرے۔ ایک گروہ نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ یہ انہی کی باقیات ہیں جنہیں تم گرجوں اور خانقاہوں میں دیکھتے ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت رہبانیت تلاوت فرمائی۔‘‘ (ابوداؤد، کتاب الادب)
موجودہ دور کے بہت سے دین دار افراد میں بھی یہی جذبہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر میرے کئی جاننے والوں نے اپنی تعلیم کو اس لئے خیرباد کہا کہ وہ اپنا وقت تعلیم کی بجائے اپنی دینی جماعت کی سرگرمیوں میں لگانا چاہتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد انہیں اپنی جماعت سے نظریاتی اختلافات پیدا ہوگئے جس کے نتیجے میں انہیں اس سے علیحدہ ہونا پڑا۔ اب وہ صورتحال سامنے آئی کہ ’نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے‘ ۔
اسی طرح میں کچھ ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو دین کی تبلیغ کے لئے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر کئی کئی ماہ کے لئے چلے جاتے ہیں اور ان کے خاندان کا خرچ ان کے رشتہ داروں کو بادل نخواستہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ وہ رشتہ دار ان کا خرچ اٹھانے پر جس طرح کی طعن و تشنیع کرتے ہیں اور اس سے ان کی بیوی اور بچوں کی عزت نفس جس بری طرح سے مجروح ہوتی ہے اس کا حال وہی جانتے ہیں یا پھر خدا جانتا ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر تو عمل کر رہے ہیں لیکن دوسرے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ اپنے فرائض کو انجام دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے دین کی خدمت ہی دین کا اصل تقاضا ہے۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ دینی جذبہ رکھنے والے لوگ رہبانیت کی طرف مائل کیوں ہوتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ دین اور دنیا میں توازن برقرار رکھنا ہی دین کا تقاضا ہے۔ یہ توازن کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز