ہماری مذہبیت

پروگرام ختم ہوا۔ ایک عالم دین اسٹیج سے اترے تو ایک آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک مذہبی رسالہ تھا ۔ وہ اس کو عالم صاحب کی طرف بڑھا کر پرجوش لہجے میں کہنے لگا ۔ ’’دیکھیے جناب! فلاں مفتی نے کیا لکھا ہے، قرآن کریم کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ ‘‘ عالم دین نے ایک نظر اس شخص کو دیکھا، مگر اس کے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے وہ رسالہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ وہ یہ حتمی جواب دیتے ہوئے آگے بڑھ گئے،’مولانا ایسا نہیں کہہ سکتے۔ ‘

اپنے لئے زمین پر مال جمع نہ کرو، جہاں کیڑا اور زنگ لگ جاتا ہے اور چور نقب لگا کر چرا لیتے ہیں۔ اپنے مال کو (اللہ کی راہ میں خرچ کر کے) آسمان پر جمع کرو جہاں نہ تو کیڑا اور زنگ لگتا ہے اور نہ ہی چور نقب لگا کر چرا سکتے ہیں۔ جہاں تمہارا مال ہو گا وہیں تمہارا دل بھی ہو گا۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام

    یہ واقعہ جیو ٹی وی کے ریکارڈنگ روم میں پیش آیا جہاں میں ان عالم کے ساتھ موجود تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مذکورہ مفتی صاحب کے خلاف ایک زوردار مہم چل رہی تھی۔ یہ مہم صرف الزامات پر مبنی نہ تھی بلکہ مفتی صاحب کی تحریروں سے باقاعدہ ’ثبوت‘ مہیا کیے جارہے تھے۔ مگر اس روز ان عالم دین نے جس طرح ان صاحب کی تردید کی تھی ، مجھے یہ احساس ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کھڑے ہونے والے ایک عالم کو اخلاقی طور پر کس مقام پر رہ کر معاملہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ سورہ نور میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت والے واقعے میں اہل ایمان سے حسن ظن رکھنے اور بغیر علم کے چیزوں کو آگے بڑھانے سے منع کیا گیا ہے۔

    اسی کا تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب ایک بڑے اور ممتاز بزرگ کے خلاف انہی عالم دین کے پاس شکایت لائی گئی۔ یہ شکایت کیا ہے، اس کا ذکر جانے دیجیے۔ اس لیے کہ اخلاقی دنیا میں اس سے زیادہ مکروہ جرم کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور دین کے نام پر کھڑے ہوئے کسی شخص کے حوالے سے اس کا ذکر کرنے سے بھی قلم لرزتا ہے۔ یہ عالم دین اگر چاہتے تو مبینہ ثبوت کی بنیاد پر مذکورہ بزرگ کو بدنام کرنے کی مہم چلاسکتے تھے۔ مگر انہوں نے وہ کیا جو اسلام کی نمائندگی کرنے والے ایک عالم کو زیب دیتا ہے۔ یعنی پردہ پوشی اور خاموشی۔ حالانکہ یہ وہ بزرگ ہیں جن کی زندگی کا ایک بڑا مقصد صرف یہ ہے کہ انہی عالم دین کو ایک ’فتنہ‘قرار دے کر اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔

قوم ثمود کا انجام کیا ہوا؟ آج بھی قوم ثمود کے تراشے ہوئے گھر سعودی عرب کے تاریخی مقام مدائن صالح میں موجود ہیں۔ اس مقام کا سفرنامہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔

    مگر آج جب لوگ میر ے پاس آ کر پوچھتے ہیں کہ کیا ان عالم دین نے ایک فلم کا اسکرپٹ لکھا ہے؟ کیا انہوں نے اپنی طرف سے کوئی قرآن گھڑا ہے؟ ان کو حکومت سے پیسے ملتے ہیں؟ وہ جہاد کے خلاف ہیں؟ ان کے نزدیک قرآن کے بجائے بائبل دین کا ماخذ ہے؟ یہ اور ان جیسے ان گنت سوالات جب مجھ سے پوچھے جاتے ہیں تو میں صرف یہ دریافت کرتا ہوں کہ یہ بات کس نے کہی ہے۔ لوگ جواب میں کسی مذہبی رسالے، مذہبی آدمی یا عالم دین کا نام لیتے ہیں۔ اس پر بے اختیار میرے منہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکل جاتی ہے۔ میں دل میں سوچتا ہوں کہ یہ ہیں وہ لوگ جوآج دین کے نمائندے بنے ہوئے ہیں۔

    لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ امریکہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ فحاشی کا پھیلنا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اخلاقیات سے بے بہرہ مذہبیت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس مذہبیت میں دوسروں پر تو اسلام کے نفاذ کے لیے جہاد ہوتا ہے ، مگر اپنے بدترین اخلاقی جرائم نظر نہیں آتے۔ اس مذہبیت میں یہودو نصاریٰ کی سازشیں تو اندھیرے میں بھی نظر آجاتی ہیں، مگر اپنے نفس کے فریب اور شیطان کی دغا بازی قرآن اور سیرت کی روشنی کے باجود نظر نہیں آتی۔ اس مذہبیت میں ہاتھ میں کلاشنکوف اور زبان پر نعرے ہوتے ہیں مگر دل میں خدا کا خوف اور عمل میں سیرت حبیب کا ذرا سا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔

    میں یہ سوچتا ہوں کہ خدا کا قہر اگر آج مسلمانوں کی طرف متوجہ ہے تو یہ کچھ اور نہیں اللہ تعالیٰ کے عدل کا ظہور ہے۔ مذہب کے نام پر اگر اس اخلاقی حیثیت کے لوگ کھڑے ہیں اور لوگ جوق در جوق ان کی پیروی پر راضی ہیں تو خد ابھی مسلمانوں کی بربادی پر راضی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کی کسی قوم سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔ وہ اصول پر معاملہ کرتا ہے۔ اگر اسلام کے نام لیوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی کرنے والے اسی اخلاق و کردار کے لوگ ہیں تو مبارک ہو، مسلمانوں کی پستی ابھی ختم نہیں ہوگی۔ جب تک مسلمانوں اور ان کی مذہبی لیڈر شپ کے اخلاقی رویے نہیں بدلیں گے، مسلمانوں کا حال اور ان کا مستقبل بھی نہیں بدلے گا۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ ہمارے مذہبی لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟

۔۔۔۔۔۔ مذہبی افراد میں اخلاقی کمزوری کے بڑے اسباب بیان کیجیے۔

اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

ہماری مذہبیت
Scroll to top