بعث و نشر

اس دنیا میں جو چیز بھی پیدا ہوئی ہے، بالعموم زوجین کی صورت میں پیدا ہوئی ہے۔ تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو ہر شے درحقیقت ایک ہی وجود ہے جسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یہ مرد و عورت کیا ہیں؟ ایک ہی وجود کے دو حصے ہیں جن کے بارے میں ہر عاقل بادنی تامل اس حقیقت کو مانتا ہے کہ ان کا اتمام ایک دوسرے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ مرد کی نفسیات، اس کی جسمانی ساخت، اس کے جذبات و احساسات، غرض یہ کہ اس کی پوری شخصیت صاف بتاتی ہے کہ وہ ایک ہستی ناتمام ہے، جس کی تکمیل اگر ہو سکتی ہے تو عورت ہی سے ہو سکتی ہے۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔ وہ بھی ایک نامکمل وجود ہے جس کا اتمام مرد ہی سے ہوتا ہے۔

علوم الحدیث کیا ہیں؟ ان میں کن مباحث کی تعلیم دی جاتی ہے؟ صحیح و ضعیف حدیث میں کیا فرق ہے؟ صحیح اور من گھڑت احادیث میں فرق کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کی تفصیل کے لئے علوم الحدیث: ایک تعارف کا مطالعہ فرمائیے۔

    یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنی غایت کو پہنچتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک کو مان کر دوسرے کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ اس دنیا میں اگر مرد ہے تو عورت بھی لامحالہ ہونی چاہیے اور عورت ہے تو مرد کا وجود بھی ضروری ہے۔ یہ وہ خاموش حقیقت ہے جس کا بیان اس عالم میں ہر چیز کو جوڑوں کی صورت میں پیدا کر کے اس کے وجود پر ثبت کر دیا گیا ہے۔ یہاں اب کوئی عاقل پانی کو مان کر پیاس کو مان کر پانی کا انکار نہیں کر سکتا۔

    لیکن یہ بات کی یہیں تک رہتی ہے؟ اس کی روشنی میں ذرا اپنی اس دنیا کا جائزہ لیجیے۔ ہم میں سے ہر شخص کی خواہش ہے کہ وہ ابد تک زندہ رہے۔ موت اس زمین پر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کو حل کر لینے سے پوری طرح مایوس ہو جانے کے بعد ہی ہم نے اسے قبول کیا ہے۔ روز و شب میں تلخی نہ ہو اور زمانہ ہمیں بڑھاپے کی ارذل حالتوں تک نہ پہنچائے تو ہم میں سے کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم یہاں ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتے۔

    ہماری خواہش ہے کہ ہمارے وجود کی رسائی وہاں تک ہو، جہاں تک اب ہمارے خیال کی پہنچ ہے۔ ہم آسمان کی وسعتوں، زمین کی پہنائیوں اور خود اپنے وجود کے باطن میں اتر جانا چاہتے ہیں۔ اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہم نے آفتاب کو آغوش میں لینے اور ذروں کا دل چیرنے کی کوشش کی ہے۔ ہماری اس جدوجہد کی داستان اب تاریخ کے اوراق میں ثبت ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان پچھلی تین صدیوں میں بہت سے کامیابیاں ہمیں حاصل ہوئی ہیں، لیکن اس جدوجہد ہی نے یہ حقیقت بھی ہم پر واضح کر دی ہے کہ ہمارے خیال کی وسعت اور ہمارے وجود کی صلاحیت میں کوئی نسبت قائم ہی نہیں کی جا سکتی۔

    اس دنیا میں جو زندگی ہم گزارتے ہیں، وہ کیا ہے؟ اس کو اگر دو لفظوں میں بیان کیجیے تو ماضی کے پچھتاووں اور مستقبل کے اندیشوں کا ایک المیہ ہے جو ہم میں سے ہر شخص صفحہ عالم پر رقم کرتا اور پھر مٹی میں دفن ہو جاتا ہے۔ “اے کاش، یہ ہو جاتا” اور “کہیں ایسا نہ ہو جائے” ، ہماری داستان حیات یہاں سے شروع ہوتی اور یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن ہماری تمناؤں کی دنیا بھی کیا یہی ہے؟ اس عالم میں ہر شخص اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں دے گا۔ ہم میں سے کوئی شخص اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ ہماری تمناؤں کی دنیا اگر ہو سکتی ہے تو وہی ہو سکتی ہے، جس میں ماضی کا کوئی پچھتاوا ہو اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔

    ہماری آرزو ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ عدل پر قائم رہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے حاصل کرنے کے لئے ہم نے سب سے زیادہ جدوجہد کی ہے۔ ہم نے اس کے لئے اپنی آزادی سے دست برداری اختیار کی؛ ایک نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کی پابندی قبول کی؛ اپنے اوپر اپنے جیسے انسانوں کو حکومت کرنے کا حق دیا؛ اس کے لئے بارہا جان و مال کی قربانی پیش کی، لیکن یہ نعمت عظمی اپنی آخری صورت میں کیا اس دنیا میں ہمیں کبھی حاصل بھی ہو سکی؟ وہ شخص جس نے چودہ سو سال پہلے حجاز کی سرزمین پر اعلان کیا کہ: “دجلہ کے کنارے بھوکوں مرنے والے کتے کی ذمہ داری بھی مجھ پر عائد ہوتی ہے۔” اور جس نے زمین کو بھونچال سے کانپتے دیکھا تو اس کی پیٹھ پر درہ لگایا اور کہا: “میری حکومت میں کانپ رہی ہو، کیا میں نے تم پر عدل نہیں کیا؟”

    اس میں شبہ نہیں کہ ایک ایک انسان کی حیثیت سے جو کچھ کر سکتا تھا، کر گیا۔ لیکن وہ کتے جو دجلہ کے کنارے بھوکوں مر گئے اور اس کو ان کی خبر ہی نہیں ہوئی اور وہ مجرم جو اس کی گرفت میں آ ہی نہیں سکے، اور وہ جو گرفت میں آئے، مگر ان کے جرم کی قرار واقعی سزا نہیں دینا کسی طرح ممکن نہیں ہوا، ان کے لئے یہ دنیا کہاں جائے؟

    ہزاروں عورتوں کو بیوہ اور لاکھوں بچوں کو یتیم کر دینے والے کتنے وحشی ہیں جو بڑے اطمینان کے ساتھ موت کی آغوش میں چلے گئے اور دنیا کی کوئی عدالت انہیں سزا دینا تو ایک طرف اپنے سامنے پکڑ لانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔

بیماریوں میں سب سے بری بیماری دل کی بیماری ہے اور دل کی بیماریوں میں سب سے بری بیماری دل آزاری ہے۔ بو علی سینا

    اس دنیا کے یہ خلا ہیں جن سے یہ حقیقت بالبداہت ثابت ہوتی ہے کہ یہ بھی ہر لحظہ اپنے جوڑے کی تلاش میں ہے۔ اس حقیقت کا انکار کوئی شخص اگر کرتا ہے تو وہ درحقیقت عورت کے لئے مرد اور پیاس کے لئے پانی کی ضرورت کا انکار کرتا ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز اسی لئے جوڑے جوڑے پیدا کی گئی ہے کہ آدم کے بیٹے اس حقیقت کو سمجھیں کہ خود اس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے جس کے ساتھ مل کر اس کے سارے خلا بھر جائیں اور یہ اپنی غایت کو پہنچ جائے۔

اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم (اس حقیقت کی) یاد دہانی حاصل کرو (کہ اس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے۔) (الذاریات 51:49)

قرآن کے نزدیک اس دنیا کا وہ جوڑا آخرت ہے۔ یہ دنیا اس کو مان لینے ہی سے اپنے اتمام کو پہنچتی ہے۔ اسے نہ مانیے تو پھر یہ رام کی لیلا اور نیرو کی تماشاہ گاہ تو ہو سکتی ہے، اسے کسی صاحب حکمت خداوند کی تخلیق نہیں مانا جا سکتا:

کیا تم نے یہی سمجھا کہ ہم نے تم کو یونہی بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے۔ (المومنون 23:115)

(مصنف: جاوید احمد غامدی)

آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ انسان کے شعور میں وہ کیا چیز ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے اور ہم اس کے سامنے جواب دہ ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ لوگ چند روزہ زندگی کے لئے آخرت کی اصل اور لامحدود زندگی کو تباہ کیوں کر دیتے ہیں؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن سے متعلق تعمیر شخصیت لیکچرز

بعث و نشر
Scroll to top