جنت کی شہریت

میرے ایک دوست پاکستان سے باہر ایک مغربی ملک تشریف لے گئے۔ وہاں کا ماحول حسب توقع مادی رعنائیوں اور جنسی آزادی سے آراستہ تھا۔ وہ صاحب چونکہ مضبوط مذہبی پس منظر رکھتے تھے لہٰذا ان خرافات سے بچے رہے۔ ایک دن دوستوں کے اصرار پر وہ ایک عام سے ہوٹل میں چلے گئے جہاں شراب کے ساتھ ساتھ شباب بھی محو رقص تھا۔ وہ ابھی آکر بیٹھے ہی تھے کہ اسٹیج پر بو س و کنار کے گھٹیا مناظر شروع ہوگئے۔ ان کی طبیعت گھبرانے لگی اور یوں محسوس ہوا کہ الٹی ہوجائے گی۔ جب وحشت ناقابل برداشت ہوگئی تو وہ اس محفل پر تبرا بھیج کر باہر نکل آئے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ عام لوگ تو ہر روز اس قسم کے واہیات مناظر دیکھتے ان مناظر سے حظ اٹھاتے اور انکی تاک میں رہتے ہیں، لیکن انہیں کوئی طبیعت کی گرانی نہیں ہوتی۔ پھر ان صاحب کے ساتھ کیا مسئلہ تھا؟۔اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ان صاحب نے اپنا تزکیہ نفس کیا ہوا  تھا اور پاک حالت میں ناپاکی کا معمولی سا چھینٹا بھی برا لگتا ہے۔

تزکیہ  نفس کا مطلب  نفس کوپاک کرنا اور پھر نشونما دینا اور پروا ن چڑھانا ہے۔ اس عمل کو ایک مثال سے سمجھئے ۔ ایک پلاٹ جھاڑیوں سے پٹا ہوا تھا ، لوگ وہاں کچراڈالتے ،جانور لوٹا کرتے اور غلاظت پھیلاتے تھے۔ ایک دن مالک کو خیا ل آیا کہ اس پلاٹ پر عمارت تعمیر کی جائے۔ پہلے مرحلے میں اس نے جانوروں کو بے دخل کیا،تمام جھاڑیوں کا صفایا کروایا،غلاظت دور کی اور زمین کو تعمیر کے لئے ہموار کردیا۔ اگلے مرحلے میں اس نے بنیادیں کھدوائیں، ڈھانچہ کھڑا کیا، پلاسٹر اور رنگ و روغن کروایا اور پھر اعلیٰ درجے کی آرائش و زیبائش سے ایک شاندار بنگلے کی تعمیر مکمل کی۔حفاظت ، صفائی اور ستھرائی کے لئے تربیت یافتہ خدام بھرتی کئے گئے اورگردو غبار سے بچانے کے لئے دروازے اور کھڑکیوں کو مضبوط پیکنگ سے بند کیا گیا۔ یہ وہی زمین تھی جس پر کتے پیشاب کیا کرتے تھے مگر آج اس شفاف سطح پر چڑیا کی بیٹ بھی گورا نہ تھی ۔

تزکیہ نفس بھی تزکیہ پلاٹ سے ملتاجلتا عمل ہے۔تزکیہ نفس کی ابتدا بھی علم و عمل کی تطہیر سے ہوتی ہے۔ابتدا میں   شر ک اور انکارآخرت کی جھاڑیوں کو صاف کیا جاتا، شہوت کے وحشی جانورکو نکیل ڈالی جاتی،اور شخصیت کی  اخلاقی غلاظتوں کو دھویا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں نماز ، زکوٰۃ،روزہ اور حج سے ایک نئی شخصیت کی بنیادیں قائم کی جاتی ہیں۔ان عبادات کے ستونوں پر اخلاقیات کا ڈھانچہ تعمیر ہوتا ہے ، اور اس ڈھانچے پر نوافل کا پلاسٹر اور احسان کا رنگ و روغن کیا جاتا ہے۔ آنکھ، کان ، منہ اور لمس کے کھڑکی دروازے بند کرکے ہر حرام گردو غبار کا داخلہ روک دیا جاتا ہے ۔حفاظت کے لئے تقوٰی کا چوکیدار کھڑا کیا جاتا جبکہ روز مرہ کی صفائی کا کام توبہ کے سپر کردیا جاتا ہے۔یوں ایک ربانی انسان کی شخصیت تعمیر ہوگئی۔یہ وہی شخصیت ہے جو شیطان کے وسوسوں کی آماجگاہ تھی اور نفس کے ہر ناجائز تقاضوں پر لبیک کہا کرتی تھی۔ لیکن آج یہ شخصیت خدا کے نور سے معمور، اسکی یادوں سے مسحور اور اسکی جنت کے نشے سے مخمور ہے جس میں کسی گناہ یا معصیت کی کوئی مستقل گنجائش نہیں۔چنانچہ اب اسے بوس و کنار کے مناظر تنگ کرتے، فحش کلام وحشت پیدا کرتا ،ناجائز لمس تکلیف دیتا اور نفس کو آلودہ کرنے والی غذا زہر معلوم ہوتی ہے۔ اب یہ  شخصیت رب کی نافرمانی کے تصور سے بھی کانپ جاتی ہے۔

رمضان کا مہینہ شخصیت کی اسی پاکیزگی اور ارتقاء کے حصول کا مہینہ ہے۔ جو نفس اس ٹریننگ  سے نہیں سدھر پایا تو پھر  اس کا تزکیہ مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔  کیا ممکن ہے کہ ایک صاف ستھرے محل میں کچرااڑتا پھرے ،گدھالید کر جائے، کتے دندناتے پھریں اور جھاڑیاں اگنے لگیں ؟ اگر نہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک پاک صاف نفس شرک، دنیا پرستی، حرام خوری، ایذا رسانی اور خدا کی نافرمانیوں کی آماجگاہ بن جائے؟آئیے، اپنے نفس کو پاک کریں اور اسے پروان چڑھا کر جنت کی شہریت کے قابل بنادیں۔

(پروفیسر محمد عقیل، aqilkhans.wordpress.com, aqilkhans@gmail.com )

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں  کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ پلاٹ والی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی شخصیت کے تزکیہ کا پلان تیار کیجیے۔

۔۔۔۔۔۔ جب آپ گناہ کی کوئی محفل دیکھتے ہیں تو آپ کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ اس کا تجزیہ کیجیے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

جنت کی شہریت
Scroll to top