کیا آپ تیار ہیں؟

یہ گاڑی کتنی شاندار ہے۔ یہ لڑکی تو بہت خوبصورت ہے۔ اُس کا بنگلہ تو زبردست ہے۔ آج کل یہ فیشن اِن ہے۔ میں تو گرمیو ں کی چھٹیاں ملک سے باہر ہی گزارتا ہوں۔ یہ اور ان جیسے جملوں کے درمیان آج کے انسان کی زندگی گزررہی ہے۔ یہ جملے بتاتے ہیں کہ آج کے انسان نے اپنے لیے جینے کی وہ سطح متعین کرلی ہے جو جانوروں کی سطح ہے۔

ایڈورٹائزنگ کا اخلاقی پہلو سے ایک جائزہ
 ایڈورٹائزنگ تخلیقی ذہنوں کا میدان ہے۔ کیا اس میدان کو بھی اخلاقی آلائشوں سے پاک کیا جانا ضروری ہے؟ موجودہ دور کی ایڈورٹائزنگ اور پروموشن اسکیموں میں کیا خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ مارکیٹنگ کے طالب علموں کے لئے ایک مفید تحریر۔

جانور اپنی پوری زندگی خواہشات کے پیچھے گزارتے ہیں۔ مگر ان کے لیے یہ کوئی عیب کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل کی نعمت نہیں دی ہے۔ وہ صرف بھوک اور جنس کی بنیادی جبلت کے تحت ہی اپنی زندگی گزارتے ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ انہیں اس دنیا میں جینا ہے اور یہیں ختم ہوجانا ہے۔

    اس کے برعکس انسان ایک ہمیشہ رہنے والی مخلوق ہے۔اس کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ باقی ہیں، اس وقت تک وہ ان کے ساتھ رہے گا۔ وہ اللہ کی عبادت کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو ایسی نعمتیں عطا کریں گے جو اس کی آنکھیں ٹھنڈی کردیں گی۔اس جنت میں جانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ انسان اس دنیا میں رہ کر خدا کی معرفت حاصل کرلے۔ اس دنیا میں خدا مادی آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ایسے میں انسان کا مشن پردہ غیب میں چھپے رب کو پانے اور اس کی عظمت کے سامنے جھک جانے کا نام ہے۔

    اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے انسان کو عقل دی ہے۔ غور و فکر کی صلاحیت دی ہے۔ دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان دیے ہیں۔یہ سب اس لیے دیے گئے ہیں کہ انسان چاند و سورج کی روشنی میں خدا کے نور کو دیکھے۔ سبزے کی ہریالی میں خدا کی ربوبیت کا اندازہ کرے۔ آسمان کی بلندی میں اس کی عظمت کو پہچانے۔ ستاروں کی چمک میں وہ اس کی قدرت کے جلوے دیکھے۔ساون کی برسات میں رب کی رحمت کو دیکھے۔ وہ کائنات میں پھیلی نشانیوں کو دیکھے اور رو رو کر اپنے رب کو پکارے۔ اس کی جنت کا طلبگار بنے اور اور اس کے عذاب سے پناہ مانگے۔

سست ہاتھ انسان کو مفلس بنا دیتے ہیں جبکہ محنتی ہاتھ اسے دولت مند بنا دیتے ہیں۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام

مگر انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اپنی عقل اور بصیرت کو خواہش کے اندھے کنویں میں پھینک دیتا ہے۔ پیٹ، جنس اور انا کے بتوں کو معبود بناکر ساری زندگی ان کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ موت آجاتی ہے۔ابدی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔ مگر اب ا س کے پاس سوائے ندامت کے کچھ نہیں رہتا۔

    یہ وقت بہت لوگوں پر آچکا ہے ۔ آ پ پر آنے والا ہے۔ سو کیاآپ خود کو بدلنے کے لیے تیار ہیں؟ آپ اپنی عقل و بصیرت کو تسکینِ خواہش کے بجائے معرفتِ رب کا مشن دینے کے لیے تیار ہیں؟

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا محض اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کرنا؟ اگر ایسا ہی ہے تو انسان اور جانور میں کیا فرق ہے؟

۔۔۔۔۔۔ کیا ہماری زندگی کا کوئی اعلی مقصد بھی ہے؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا آپ تیار ہیں؟
Scroll to top