ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا رسالہ مہینے کے آغاز پر قارئین کے ہاتھ میں پہنچ جائے۔ تاہم اس دفعہ مجھے اندیشہ ہے کہ رسالے کی اشاعت میں کچھ تاخیر ہوجائے گی۔ اس کا سبب میری اہلیہ کا ناگہاں آپریشن ہے۔ اس حادثے کی وجہ سے میرا پورا رمضان ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی نظر ہوگیا۔یہ تحریر بھی میں ہسپتال میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ حسرت موہانی نے جیل میں اپنا یہ مشہور شعر کہا تھا۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبعیت بھی
میرے لیے لکھنا مشق سخن نہیں، درد دل ہے۔ یہ درد ہسپتال کی جیل میں آ کر بڑھا ہے، کم نہیں ہوا۔ آئیے آج کی ملاقات ہسپتال کے درد بھرے ماحول میں کرتے ہیں۔
بیماری کوئی بھی ہو، بڑی تکلیف دہ ہوا کرتی ہے، مگر نوبت ہسپتال اور آپریشن کی آجائے اور زندگی اور موت کا مسئلہ پیدا ہوجائے تو صورتحال بڑی سنگین ہوجاتی ہے۔ تاہم میں اس طرح کی سخت صورتحال میں ایک بڑا خیر کا پہلو دیکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب انسان پر جان و مال کی کوئی بھی آزمائش آئے تو اسے یہ سوچ کر خوش ہونا چاہیے کہ اسے حضرت ایوب علیہ السلام کی معیت کا شرف حاصل ہورہا ہے۔ کسی پیغمبر کی معیت کا شرف کوئی معمولی شرف نہیں۔ اور اگر یہ پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام ہوں تو کیا کہنے۔ اس لیے کہ ان کا واقعہ کئی اعتبار سے ایسا ہے کہ انسان اسے سنے اور جھوم اٹھے۔ چلیے ان کی داستان کو مختصراً تازہ کرلیتے ہیں۔
رب کا نام مبارک ہو
حضرت ایوب کا زمانہ کیا تھا اس کے بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے، مگر زیادہ امکان یہ ہے کہ آپ کا زمانہ حضرت موسیٰ کے بعد اور حضرت داؤد علیہما الصلوۃ والسلام سے پہلے کا ہے۔آپ حضرت اسحاق علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے عیسو کی اولاد میں سے تھے۔ آپ نبی ہونے کے ساتھ ایک صاحبِ مال و دولت سردار تھے۔ ہر طرح کی نعمتیں، کثرتِ اولاد، مال و مویشی، عزت و شرف وغیرہ کی شکل میں آپ کو دی گئی تھیں۔ بائبل کے مطابق مشرق میں آپ سے بڑا کوئی آدمی نہ تھا۔ مگر آپ بے حد شکر گزار اور عابد و زاہد تھے۔ ساتھ ہی آپ اپنی قوم کو اچھی باتوں کی تلقین کرتے اور برائیوں سے روکتے۔
شیطان نے آپ کے دعوتی کام میں رخنہ ڈالنے کے لیے لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ایوب کو تو اتنی نعمتیں دی گئی ہیں کہ اسے بہرحال شکر گزار بننا ہی چاہیے اور نیکی کی باتیں کرنی چاہییں۔اس میں ان کا کیا کمال۔ بات تو تب ہے کہ مصیبت میں بھی یہ انہی باتوں پر قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر حجت پوری کرنے کے لیے اپنے نبی کو ان کے سامنے ایک نمونہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ ان پر مصائب و آلام آنے شروع ہوئے۔ پہلے مال و مویشی تلف ہوگیا۔ پھر ایک ایک کرکے اولاد مرگئی۔ آخر میں خود اپنے وجود پر آفت آئی اور ایک انتہائی موذی مرض کا شکار ہو گئے۔ اس صورتحال میں سب لوگ ساتھ چھوڑ گئے۔ یہاں تک کہ ایک وفادار بیوی کے سوا اور کوئی پاس میں نہیں رہا۔ مگر صبر و استقامت کے اس پہاڑ کا حال یہ تھا کہ جب کبھی کوئی مصیبت آتی تو زبان سے ایک ہی جملہ نکلتا۔
رب نے دیا ،رب نے لیا، رب کا نام مبارک ہو
ایک قول کے مطابق آپ تیرہ برس تک اس آزمائش میں رہے۔ کہنا اور سننا آسان ہے، مگر دکھوں کے وہ شب و روز جن میں انسان کو ایک ایک پل صدیوں کے برابر لگتا ہے،آپ پر اس طرح آئے کہ تقریباً 4700 دن اور رات آپ اس حال میں رہے مگر آپ کے صبر وشکر کی کیفیات میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ البتہ جب آزمائش بڑھتی چلی گئی تو تڑپ کر رب کو اس طرح پکارا کہ پروردگار مجھے سخت دکھ پہنچا ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
ارحم الراحمین
یہ دعا اتنے کمال کی ہے کہ اس پر صفحات لکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں مختصراً بس اس دعا کا یہ پہلو بیان کرنا چاہوں گا کہ وہ بے پناہ تکلیف میں تھے، مگر جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے تحت انہیں آزما رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے صبر کا ایک نمونہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ اپنے منصب کی بنا پر وہ براہ راست یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ پروردگار تکلیف کو دور کردے کیوں کہ یہ کہنا اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف دعا کرنے کے مترادف ہوتا۔ مگر کیا بات ہے ان حضرات انبیا کی، جو خدا کے سب سے بڑے عارف ہوتے ہیں۔ جب خدا کو پکارا تو اپنا مسئلہ بیان کرکے فقط اتنا کہا کہ تو ارحم الراحمین ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اس دعا میں پوشیدہ ہے اور جس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔
اللہ کا تعارف ایک شخصیت کے طور پر یہ ہے کہ وہ تنہا ہے اور اس جیسا کوئی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعارف ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی صفات بے شمار ہیں۔ جب وہ مخلوقات کے ساتھ معاملہ کرتا ہے تو اپنی انہی صفات کے اعتبار سے کرتا ہے۔ وہ اپنی ہر ہر صفت کے ساتھ انسانوں کی زندگی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ تاہم اس کی صفات میں صفتِ رحمت سب سے بڑھ کر ہے۔ بلکہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی صفت اگر ایسی ہے جو اس کی ہر صفت پر غالب آ کر توحید کی طرح اس کی شخصیت کا مستقل حصہ ہے تووہ صفتِ رحمت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں الرحمن کو اپنی صفت کے طور پر بھی استعمال کیا ہے اور اپنے ذاتی نام کے طور پر بھی۔
یہی وہ چیز تھی جس سے حضرت ایوب علیہ الصلوۃ والسلام واقف تھے۔ اس لیے جب تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ سے صرف اتنا کہا کہ میں دکھ میں ہوں اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ مطلب اس جملے کا یہ تھا کہ پروردگار تیری حکمت اپنی جگہ، میں تیری رضا کے خلاف جانا بھی نہیں چاہتا لیکن میں اس حکمت کے ظہور کو سہہ نہیں سکتا۔ جب کہ تیرے بارے میں حقیقت بھی یہی ہے کہ تو حکیم سہی، لیکن اصلاً تو رحمن و رحیم ہے۔ سو مجھے دیکھ کہ میں دکھی ہوں اور خود کو دیکھ کہ تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ کسی انسان پر تکالیف بہت سی وجوہات سے آسکتی ہیں۔ امتحان، سزا، درجات کی بلندی، کھوٹ کی دوری، اور دیگر مصالحِ رب وغیرہ۔ یہ تکالیف اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا ظہور ہوتی ہیں۔ مگر جب اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت رحمت کے ساتھ تڑپ کر پکارا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت جو اس کی صفات میں سب سے زیادہ اس پر غالب ہے، حرکت میں آتی ہے اور ہر دوسری صفت کو مغلوب کرکے اپنا ظہور کرتی ہے۔ یہ صفتِ رحمت ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کی شخصیت پر غالب رہتی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت اور توحید کا انکارکردیا جائے۔ ایسا کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ابدی طور پر محروم ہوجاتے ہیں۔اس بات کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ صرف شرک ہی کے گناہ کو معاف نہیں کریں گے، باقی جس کو چاہیں گے معاف کردیں گے۔
چنانچہ جیسے ہی حضرت ایوب علیہ الصلوۃ والسلام نے تڑپ کر رب کو اس کی رحمت کے ساتھ پکارا تو سارے معاملات ٹھیک کردیے گئے۔ان کی صحت، اولاد، مال نہ صرف لوٹا دیے گئے بلکہ زیادہ دے دیے گئے اور قرآن میں ابد تک کے لیے ان کے لیے یہ شاندار الفاظ نقل کردیے گئے کہ ہم نے اسے صابر پایا۔ وہ کیا ہی اچھا بندہ تھا۔ بیشک وہ رجوع کرنے والا تھا۔
دلوں کو فتح کرنے کے لئے تلوار کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ولیم شیکسپیئر |
رب نے [گویا] گود میں اٹھالیا
میں بھی ایک تکلیف دہ عرصہ سے گزررہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایوب علیہ السلام کی طرح کی تکلیف نہیں ہے جس میں کسی بندے کو نمونہ بنایا جارہا ہو۔ نہ یہ آزمائش ہی کی نوعیت کی کوئی چیز ہے۔ ہمارے جیسے گناہ گاروں کے لیے یہ تکلیف و بیماریاں گناہ کی بخشش کا سبب بن جائیں تو اللہ کا بڑا کرم و احسان ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی عنایت ہے کہ ایک بڑا ور مشکل مرحلہ اتنی آسانی سے گزرگیا کہ اب تو سب خواب لگتا ہے۔ان تکالیف و مشکلات کا بیان تویہاں غیر ضروری ہے، مگرمیری اس وقت جو کیفیت ہے، اس کے بیان کے لیے شاید ایک تمثیل کام آئے۔
ایک شخص تھا جو ہر روز ساحلِ سمندر پر ٹہلتا تھا۔ اس دوران میں وہ خدا سے باتیں کرتا جاتا اور خدا سے اپنا حال دل کہتا جاتا۔ اس کی نعمتوں کو یاد کرتا اور ان کا شکر ادا کرتاجاتا۔ اس عمل میں وہ دیکھتا کہ ساحل کی ریت پر اس کے قدموں کے ساتھ ایک اور قدموں کے نشان ابھر رہے ہیں۔ ان نشانوں سے اسے اندازہ ہوتا کہ خدا اس کے ساتھ ہے۔ ایک روز اس پر بہت بڑی تکلیف آئی۔ اس نے خدا کو پکارنا شروع کیا۔ مگر اس روز اس نے کیا دیکھا کہ ساحل پر اس کے پیچھے قدموں کا صرف ایک نشان بن رہا ہے۔ اس پروہ بہت آزردہ ہوا اور کہنے لگا کہ پروردگار جب تک میں آسانی میں تھا تو تو ہمیشہ میرے ساتھ تھا۔ آج میں تکلیف میں ہوں تو تو نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ تیرے قدموں کے نشان آج میرے ساتھ نہیں ہیں۔آواز آئی کہ تم نے غور نہیں کیا، ساحل پر قدموں کے جو نشان ہیں وہ تھمارے نہیں ہیں میرے ہیں، تمھیں تو میں نے گود میں اٹھا رکھا ہے۔
یہ بات سمجھانے کے لیے محض ایک تمثیل ہے وگرنہ خدا ہر تشبیہ و تمثیل سے پاک ہے۔ اصل بات جو اس تمثیل میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب انسان خدا پر بھروسہ کرتا ہے اور زندگی کے آسان لمحوں میں اسے نہیں بھولتا تو وہ ہمیشہ دیکھے گا کہ آسانی میں ساتھ چلنے والا خدا مشکل میں انسان کو ماں کی طرح گود میں اٹھالیتا ہے۔ باقی جہاں تک ضرر و نقصان کا تعلق ہے تو حضرت ایوب نے اس معاملے میں ہم گناہ گاروں کے لیے بہت اعلیٰ نمونہ قائم کردیا ہے۔وہ کہتے تھے کہ میں ماں کے پیٹ سے ننگا پیدا ہوا تھا اور ننگا ہی زمین کے پیٹ میں جاؤں گا۔ پھر اس پر ان کا وہ جملہ جو اوپر نقل ہوا کہ’’ رب نے دیا، رب نے لیا، رب کا نام مبارک ہو‘‘ آسمان و زمین پر بھاری ہے، مگر اسے زبان سے نکالنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ تاہم زندگی کے ایسے ہی حادثات ہوتے ہیں جب اس سنت ایوبی کی پیروی کا موقعہ بھی مل جاتا ہے۔
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں اس تحریر میں مصنف نے دور حاضر میں وقوع پذیر ہونے والی نفسیاتی، عمرانی، ثقافتی، سیاسی، معاشی اور تکنیکی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اسلام کے نقطہ نظر سے ان پر بحث کی ہے۔ ان قارئین کے لئے جو دنیا کے مستقبل سے دلچسپی رکھتے ہوں۔ |
انسانوں کے دو چہرے
اس بیماری میں ایک تجربہ وہی ہے جو برادرم منظور الحسن کو ہوا۔ انہو ں نے اپنی بیماری میں مجھ سے کہا تھا کہ میں نے اس بیماری میں انسانوں کا بہت خوبصورت چہرہ دیکھا ہے۔ میں نے بھی اپنی اہلیہ کی اس بیماری میں اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کا بڑا خوبصورت چہرہ دیکھا ہے۔ دعا اور محبت، ہمدردری اور غمگساری سے لے کر عملی معاملات تک ہر معاملے میں ان لوگوں نے میرا اور میری اہلیہ کا بڑا ساتھ دیا ہے۔ میں ان سارے لوگوں کے لیے رب کریم سے دعاگو ہوں۔
مگر اس کے ساتھ مجھے انسانوں کا ایک بہت بھیانک چہرہ قریب سے دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ یہ چہرہ اب ہماری قوم کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔یعنی اجتماعی اخلاقیات کے معاملے میں بے حسی کا رویہ۔ ایک بیمار شخص جب ہسپتال میں داخل ہوتا ہے تو اس کے اور اس کے خاندان کے لیے یہ ایک بہت تکلیف دہ وقت ہوتا ہے، مگر ہمارے ہاں ہسپتالوں میں جو اسٹاف اور ڈاکٹرز مقرر ہوتے ہیں، وہ اس تکلیف کو بڑی حد تک کم کرسکتے ہیں۔ اچھے الفاظ بول کر، محبت سے بات کر کے، تسلی کا لہجہ اختیار کر کے، چیزوں اور معاملات کو اچھی طرح واضح کرکے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں جو لوگ یہ کام کرسکتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر لوگ مریض اوراس کے متعلقین کی پریشانی اور دکھ کم کرنے کی بجائے اسے بڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
اپنی ذمہ داریوں کو بوجھ سمجھ کر ادا کرنے اور ان سے جان چھڑانے کی روش یوں تو ہمارے قومی مزاج کا ایک حصہ بن گئی ہے اور اس کا نتیجہ ہم عام طور پر بھگتتے بھی رہتے ہیں، مگر جب ہم یہ رویہ ہسپتال میں اختیار کرتے ہیں تو ایک زندہ انسان کے قتل کی نوبت تک آسکتی ہے۔ میری اہلیہ کی جان پر صرف اس لیے بن آئی کہ الٹرا ساؤنڈ کرنے والی خاتون نے اپنا کام پوری توجہ سے نہیں کیا تھا۔ جو مرض ابتدائی درجہ میں موجود تھا، اس کی نشان دہی رپورٹ میں نہیں کی گئی، جس کی بنا پر نوبت یہاں تک پہنچ گئی۔ پھرفرض ناشناسی کے ساتھ انسان بیزاری کی روش بیمار لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور ان کو ذہنی اذیت پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔ یہ رویہ کسی سرکاری یا خیراتی ہسپتال میں ہو تو شاید کچھ صبر آجائے مگر پرائیوٹ اور انتہائی مہنگے ہسپتالوں میں بھی مختلف رویہ نظر نہیں آتا۔ اس کا سبب شائد یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے مریض اور ان کے احوال ایک معمول کی بات ہیں۔ اس لیے روز روز یہ معاملات دیکھ کر ان پر بے حسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
دراصل ہمارے ہاں برسہا برس سے لوگوں کی تربیت کے ادارے ختم ہوچکے ہیں۔ مثبت تربیت تو دور کی بات ہے ہمارے ہاں ہر اعتبار سے لوگوں کی منفی تربیت کی جارہی ہے۔ ایک طرف میڈیا ہے جہاں سے انسان صرف مادیت کی خوراک لیتا ہے۔ یہ خوراک صرف اور صرف مفاد پرستی کے برگ و بار لاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ نام نہاد رہنما ہیں جو لوگوں میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنے کے بجائے دن رات حقوق کا راگ الاپتے ہیں۔ قوم کی تعمیر کا کام کرنے کے بجائے ذہنوں کی تخریب کا کام کرتے ہیں۔ اپنے ہاں کی ہر خرابی سے توجہ ہٹا کر اغیار کی سازشوں کو ہر مسئلہ کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ اس کا ایک مختصر نمونہ بھی اس موقع پر سماعت فرمالیں۔
مغرب کے مفت علاج کا نقصان
میں ایک دفعہ ایک اسپیشلسٹ کے ہاں گیا۔ وہاں ایک جاننے والے صاحب ملے۔ باتوں باتو ں میں میں نے ان سے کہا کہ ہمارے ہاں علاج اتنا مہنگا ہے کہ ایک مڈل کلاس آدمی اگر بیمار ہوجائے تو وہ بچے یا مرے، اس کے لواحقین دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف مغرب کے بعض ممالک میں تو علاج بالکل مفت ہے۔ آپ دل تھام کر اب ذرا ان صاحب کاجواب سنیے۔فرمانے لگے کہ مغرب کے اس مفت علاج کا یہ نقصان بھی تو ہے کہ وہاں لوگ مرتے ہی نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
یہ وہ ذہنیت ہے جو ہمارے ہاں پیدا کردی گئی ہے کہ ہمیں مغرب سے اتنی نفرت ہوچکی ہے کہ ان کے ہاں کی خوبیاں بھی اب ہمیں خامیاں لگتی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات، جو ہر مہذب ملک میں مفت ملتی ہیں، پرائیویٹائز ہو کر اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ ایک غریب آدمی کے لیے اب جینا اور مرنا دونوں بہت دشوار ہوگئے ہیں۔ مگر لوگوں کی توجہ ان حقیقی مسائل سے ہٹا کر صرف ان مصنوعی مسائل کی طرف لگادی جاتی ہے جن میں صرف لیڈروں کا بھلاہوتا ہے۔
قدرت کا قانون
اقوام کے بارے میں قدرت کا یہ اٹل قانون ہے کہ جب اس طرح کے رویے عام ہوجائیں، امرا اپنی دولت کے نشے میں مگن ہوجائیں، اجتماعی فلاح کو بھول کر صرف دولت بڑھانے اور اسے خرچ کرنے کے منصوبے بناتے رہیں، لیڈر اپنی دکان چمکانے کے لیے عوام کو بیوقوف بناتے رہیں، ان کے جذبات بھڑ کا کر اپنے مفادات کا کاروبار کرتے رہیں، عوام اخلاقی اقدار سے بے نیاز ہوکر تعصبات اور خواہشات کی وادیوں میں بھٹکتے پھریں، اصول کے بجائے جذبات اور مفادات پر زندگی بسر کرنے کارویہ اختیار کرلیں تو پھر ایسی اقوام صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دی جاتی ہیں۔ تباہی و بربادی مقدر ہوجاتی ہے۔ جان، مال اور آبرو کا تحفظ ختم ہوجاتا ہے۔ آزادی سلب ہوجاتی ہے۔ عزت و وقار ختم ہوجاتا ہے۔ باہمی نفرت اور فرقہ واریت کی تلواریں لوگوں کو کاٹ ڈالتی ہیں۔ سماجی ناہمواری اور معاشی اونچ نیچ تیزاب کی طرح قوم کے جسد کو جھلسا دیتی ہے۔ یہ وہ سارے امراض ہیں جن کے آثار و علامات مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں جگہ جگہ نمودار ہورہے ہیں۔
اسی کا ایک نمونہ ہمارے سامنے داخل ہونے والی وہ لڑکی ہے جس کا آج ہی آپریشن ہوا ہے۔ اس کا موبائل چھیننے کی کوشش کی گئی۔ جس پر اس نے مزاحمت کی اور نتیجے کے طور پر اسے گولی ماردی گئی۔ یہ تنہا اس ایک لڑکی کا مسئلہ نہیں بلکہ اس وقت ہمارے معاشرے سے جان و مال کی امان اٹھ چکی ہے۔گاڑی اور موبائل چھینے جانے سے لے کر چوری ڈکیتی زندگی کے معمولات میں شامل ہوچکے ہیں۔ یہ سب چھوٹی چھوٹی علامات ہیں، جو بتاتی ہیں کہ جسم بیمار ہورہا ہے۔ اگر علاج نہیں کیا گیا تو یہ علامات بڑھیں گی اور پھر مرض اس طرح پورے جسم میں پھیلے گا کہ بہت بڑے آپریشن کی نوبت آجائے گی۔ آپریشن کے تجربے سے میں حال ہی میں گزرا ہوں اور جانتا ہوں کہ یہ بہت تکلیف دہ شے ہوتی ہے۔
آئیے مرض کو روک دیں
آج ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم اپنی قوم پر آنے والی اس تباہی کو روک دیں۔ ابھی صرف علامات ظاہر ہورہی ہیں۔ مرض ایک حد تک ہے۔ اس کا علاج آپریشن کے بجائے دوا سے کیا جاسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور انہیں پورا کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کی اخلاقی تربیت کی جائے۔ اخلاقی اقدار کو ان کا بنیادی مسئلہ بنادیا جائے۔ اس سلسلے میں ہم اپنی سی کوشش کررہے ہیں اور اللہ نے چاہا تو اب وہ وقت دور نہیںجب ہم اس کوشش کو ایک تحریک میں بدل دیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے قارئین اس کوشش اور تحریک میں ہمارا ساتھ دیں گے۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ اذیت پسندی کی عادت کو کس طرح سے ختم کیا جا سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔ اذیت پسندی کی کون کون سی صورتیں ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں؟ ان کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز