اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانوں کے متعلق جو منصوبہ بنایا ہے اور اس حوالے سے جو مطالبات انسانوں سے مطلوب ہیں، ان کی طرف انسانوں کی رہنمائی کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ (الیل 12:92)
جس نے کسی خاتون پر بری نظر ڈالی، وہ اپنے دل میں اس سے بدکاری کر چکا۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام |
اس ہدایت کی ایک سطح وہ ہے جس کے لیے فطری ہدایت موزوں ہے کیونکہ یہ ہدایت ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کردی گئی ہے۔ اس فطری ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان خالق اور مخلوق کے بنیادی حقوق جان لے اور ان کے معاملے میں درست رویہ اختیار کرلے۔ قرآن نے اس فطری ہدایت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ توحید کا تصور روز ازل ہی سے انسانی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے۔ (اعراف 7:172)
اسی طرح ہر نفس انسانی میں یہ بات ودیعت کردی گئی ہے کہ کن چیزوں کو خیر سمجھ کر اسے اختیار کرنا ہے اور کون سے امور کو شر ہونے کی بنا پر ترک کرنا ہے۔ (الشمس91:2-7 ) اسی ہدایت کا نتیجہ ہے کہ ہر زمانے کے انسان تمام تر انحرافات کے باجود ایک برتر ہستی کا اعتراف کرتے اور کسی نہ کسی اخلاقیات کی پیروی ضرور کرتے ہیں۔
لیکن فطرت کی یہ پکار چونکہ خاموش ہوتی ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے انسانوں کی ہدایت کے لیے ایک زیادہ محکم اور واضح اہتمام بھی کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بعض انسانوں کو منصب نبوت پر فائز کر کے ان پر وحی نازل فرماتے ہیں اور یہ انبیا اللہ تعالیٰ کا پیغام انسانیت تک پہنچاتے ہیں۔ اس ہدایت میں نہ صرف اللہ تعالیٰ کے مطالبات صراحت کے ساتھ بیان کردیے جاتے ہیں بلکہ یہ بھی واضح کردیا جاتا ہے کہ ایک روز سب لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس جمع کیے جائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ دیکھیں گے کہ لوگوں نے کیسے اعمال کیے۔ جو اچھے اعمال والے ہوں گے ان کو جنت کی عزت اور فردوس کی بادشاہت سے نوازا جائے گا اور برے اعمال والوں کا ٹھکانہ جہنم کی ذلت اور عذاب کی شکل میں ہوگا۔
موجودہ دور کی بین الاقوامی سیاست میں کیا عوامل کار فرما ہیں؟ عصر حاضر کی اسلامی تحریک کو امریکی دانشور کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں؟ اسلام اور مغرب کے مابین موجودہ تصادم کی حرکیات کیا ہیں؟ اسلامی جماعتیں کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟ ان سوالات کا جواب مشہور امریکی مصنف جان ایل ایسپوزیٹو نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہ مضمون ان کی کتاب کے تعارف پر مشتمل ہے۔ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔ |
اس سلسلے کا آخری اہتمام رسالت کا سلسلہ ہے۔ ہر رسول ایک نبی بھی ہوتا ہے جس میں وہ ٹھیک وہی پیغام بندوں تک پہنچاتا ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ البتہ رسول نبی سے ایک قدم آگے بڑھ کر خدا کی دعوت کی سچائی اس طرح لوگوں پر واضح کر دیتا ہے کہ اس کی حقانیت میں کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا ۔ وہ اس طرح کہ رسول کی دعوت کو نہ ماننے کے نتائج اسی دنیا میں ظاہر ہوجاتے ہیں۔ یعنی جن اقوام نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی، وہ دنیا ہی میں تباہ کردی گئیں۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ ان اقوام کا تذکرہ ہے۔ ان میں قوم نوح، عاد، ثمود، قوم شعیب، قوم لوط اور آل فرعون وغیرہ کا نام بہت نمایاں ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ سلم کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے آخری درجہ میں اپنی ہدایت کے سچا ہونے کا ثبوت پیش کردیا۔ آپ نبی ہونے کے ساتھ رسول بھی تھے اور اس حیثیت میں آپ کی قوم کے ساتھ وہی ہوا جو دیگر رسولوں کی اقوام کے ساتھ ہوا تھا۔ مگر آپ چونکہ خاتم الانبیا و المرسلین بھی تھے اس لیے آپ کے ذریعے سے رونما ہونے والے اس واقعہ کو آپ کی اپنی لائی ہوئی کتاب یعنی قرآن اور تایخ کے صفحات دونوں میں قیامت تک کے لیے رقم کردیاگیا۔
آپ انسانی تاریخ کی واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نبی اور رسول کے طور پر پیش کیا اور تاریخی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ حضور نے دنیا کے سامنے توحید و آخرت کی دعوت پیش کی اور اس دنیا سے رخصت ہونے سے قبل جزیرہ نما عرب میں عملاً توحید کو غالب اور ایک قیامت صغریٰ قائم کرکے یہ بتادیا کہ آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ آپ کے ذریعے سے توحید اس طرح غالب ہوئی کہ عرب میں توحید کے سوا کوئی دین باقی نہ رہا اورقیامت کا ایک نمونہ اس طرح قائم ہوا کہ آپ کے ماننے والے حکمران بن گئے اور منکرین کے پاس موت اور ذلت کے سوا کوئی راستہ نہ بچا۔ یہ بات مسلمانوں کا عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہ تاریخی واقعہ آپ کی رسالت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
ختم نبوت کے بعد اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم آپ کی سچائی کے ثبوت کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ یہی اجتماعی طور پر ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ رسولوں کی مخاطب قوموں کو آخرت کے علاوہ اس دنیا میں بھی سزا کیوں دی جاتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔ منصب رسالت کے حوالے سے ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز