[رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے تعلق اور محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ کے دین کو بعینہ اسی حالت میں قبول کیا جائے جیسا کہ آپ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی، کمی یا اضافہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے خلاف ہے۔ ایسا کرنے والا بزبان حال یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ حضور کا دین کامل (پرفیکٹ) نہیں ہے۔ اس مضمون میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ دین میں تحریف اور اس میں بدعات کے دخول کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔]
جو صاحبِ سیاست کبری، اللہ تعالی کی طرف سے ایسا دین لے کر آیا ہو جو تمام ادیان کا ناسخ ہو، اس کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ اپنے دین کو فتنہ تحریف کی دست برد سے محفوظ کر دے کیونکہ اس کی عام اور ہمہ گیر دعوت مختلف استعداد، مختلف مزاج اور مختلف اغراض و مقاصد رکھنے والی جماعتوں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرتی ہے۔
بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوا کرتی ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم |
ایسا ہوا کرتا ہے کہ لوگ اپنی ہوا پرستی یا اپنے پہلے مذہب کی محبت کی وجہ سے مصالح شریعت کا کامل احاطہ نہ کرنے والی فہم نارسا کے اشارہ پر بہت سی منصوص [یعنی دین میں واضح طور پر بیان کردہ] تعلیمات شرع کو پس پشت ڈال دیتی ہے اور کبھی اس میں غیر شرعی تخیلات اور تعلیمات ٹھونس دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سارا دین مسخ اور درہم برہم ہو جاتا ہے جیسا کہ بہت سے قدیم مذاہب کی تاریخ گواہ ہے۔
لیکن چونکہ اس فتنہ کے دروازے بے شمار اور ان کی تعداد غیر متعین ہے اور سب کا استقصا ممکن نہیں، لہذا شارع [اللہ اور اس کا رسول] کے لئے ضروری ہے کہ امت کو اجمالاً اسباب تحریف سے ڈرا کر متنبہ کر دے اور اس کے لئے چند ایسے اصولی مسائل کو مخصوص کر لے جن کے بارے میں قیاس کہتا ہے کہ عموماً تہاون اور تحریف کے فتنے بنی نوع انسان میں انہی راستوں سے گھسا کرتے ہیں، اور ان راستوں کو اچھی طرح بند کر دے۔
اس تہدید و انداز کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی شریعت میں ایسی چیزوں کو داخل کرے جو مسخ شدہ اور باطل مذاہب کے اصولی اور مشہور ترین رسوم و شعائر کے بالکل مختلف ہوں مثلاً نماز وغیرہ تاکہ کوئی ظاہری تشابہ [یعنی مشابہت] باقی نہ رہ جائے اور کسی پرانے مذاہب کے شعائر سے مداہنت [یعنی خلط ملط] کا امکان باقی نہ رہے۔ [تحریف کے اہم اسباب یہ ہیں:]
علوم الحدیث کی صورت میں قدیم دور کے مسلمانوں نے ایسے فنون ایجاد کیے جن کی مثال اس سے پہلے اور بعد کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جرمن ماہر اسپرنگر نے اس کارنامے پر مسلمانوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ علوم کیا ہیں؟ تفصیل کے لئے “علوم الحدیث: ایک تعارف” کا مطالعہ فرمائیے۔ |
تہاون
تحریف کے اسباب میں سے ایک تہاون ہے یعنی احکام شرع سے بے پروائی۔ تہاون کی حقیقت یہ ہے کہ رسول کے تربیت یافتہ حواریوں کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہونے لگیں جو نماز کو ضائع کر کے شہوات کی پیروی میں غرق ہوں، علم و عمل اور تعلیم و تعلم کے ذریعہ دین کی اشاعت کا اہتمام چھوڑ دیں اور امر بالمعروف اور انہی عن المنکر کے فریضہ سے کنارہ کش ہو جائیں۔ اور اس طرح چند روز بعد مخالف دین رسوم پیدا ہو جائیں اور بحیثیت مجموعی عام طبائع انسانی کا رجحان مزاج شریعت کے خلاف ہو جائے۔
پھر ایسے دوسرے خلف [بعد کے لوگ] آئیں جو شریعت سے بے اعتنائی کے اس جرم میں اور زیادہ آگے بڑھ جائیں یہاں تک کہ علم دین کا اکثر حصہ نسیاً منسیاً (مکمل طور پر بھولا ہوا) ہو کر رہ جائے۔ یوں تو امت کے ہر طبقہ کا تہاون خطرناک اور مضرت رساں ہے مگر جب اس کا صدور رؤسا و اکابر قوم سے ہو تو پھر اس کی مضرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اسی سبب سے حضرت نوح و ابراہیم علیہما السلام کی شریعتیں برباد ہو گئیں اور آج اس کے اصلی خدوخال کا سراغ لگانا قریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ تہاون کے چند اسباب و ذرائع ہیں:
· پہلا سرچشمہ تہاون کا صاحب شریعت کی روایات کو محفوظ نہ رکھنا اور ان کے مطابق عمل نہ کرنا ہے۔ مندرجہ ذیل ارشاد نبوی اسی فتنہ سے باخبر کر رہا ہے:
دیکھو عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب طعام، شراب سے ایک بدمست انسان اپنے تخت پر بیٹھ کر کہے گا کہ تم قرآن کو مضبوط پکڑ لو اور اس میں جس چیز کو حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو اور جس شے کو حلال پاؤ، اسی کو حلال سمجھو، حالانکہ خدا کے رسول کی حرام کی ہوئی چیز بھی ویسی ہی قطعی الحرمت ہے جیسی خود اللہ کی حرام کی ہوئی۔
اسی بات کو دوسری جگہ فرمایا۔
اللہ تعالی لوگوں کے سینوں سے علم نہیں اٹھائے گا بلکہ علماء کو اٹھا لے گا اور ان کے اٹھ جانے سے علم اٹھ جائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہ جائے گا، اس وقت لوگ جاہلوں کو امام بنا کر ان کی طرف رجوع کرنے لگیں گے۔ ان سے مسئلہ پوچھا جائے گا اور وہ بغیر کسی علم و بصیرت کے فتوی دیں گے۔ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہی کے جہنم میں ڈالیں گے۔
دوسرا سبب ایسی اغراض فاسدہ ہیں جو من گھڑت تاویلات پر آمادہ کرتی ہیں مثلاً نفس پرست امرا و ملوک کی طلب و رضا جس کی وجہ سے انسان ان کی ہوا پرستیوں کے لیے کلام الہی کی غلط تاویلیں کر کے سند جواز مہیا کرتا ہے۔ آیت ذیل ایسے ہی ایمان فروشوں کو مخاطب کرتی ہے:
جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے احکام کو چھپاتے ہیں اور اس کے عوض تھوڑا سا معاوضہ حاصل کرتے ہیں، وہ اور تو کچھ نہیں مگر اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔ (البقرہ 2:174)
تہاون کا تیسرا منبع منکرات اور فاحشات کا امت میں پھیل جانا اور علماء کا ان پر خاموشی اختیار کر لینا ہے۔ اسی حالت کے متعلق قرآن کہتا ہے۔
تم سے پہلے گزرنے والی اقوام میں ایسے ارباب خیر کیوں نہ ہوئے جو لوگوں کو ارض الہی میں فساد برپا کرنے سے روکتے۔ (ہاں ایسے لوگ تھے تو سہی) مگر بہت کم تھے جنہیں ہم نے عذاب سے بچا لیا۔ رہے ظالم و نافرمان لوگ تو وہ اسی لذت دنیوی سے سرشار رہے جو انہیں دی گئی تھی اور یہ لوگ کچھ تھے ہی بدکردار۔ (ہود 11:116)
بنی اسرائیل کی معصیت پرستی پر تبصرہ کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
ان کے علماء نے انہیں برائیوں سے روکا لیکن وہ نہ رکے۔ پھر علماء ان سے قطع تعلق کرنے کی بجائے ان کی مجلسوں میں اٹھنے بیٹھنے اور ان کے ساتھ کھانے پینے لگے۔ آخرکار اللہ تعالی نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا (یعنی سب کو معصیت کی سیاہی میں رنگ دیا) اور داؤد و عیسی ابن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی۔ کیونکہ وہ خدا کی نافرمانی کرتے اور حد سے بڑھ گئے تھے۔
تعمق
تحریف کا دوسرا سبب تعمق تھا یعنی خواہ مخواہ بال کی کھال نکالنا۔ اس کی متعدد صورتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ جب شارع کسی چیز کا حکم دے یا کسی کام سے روکے تو اس کے حکم کو سن کر کوئی شخص اپنے ذہن کے مطابق خود ایک معنی متعین کرے، پھر وہی حکم اپنی طرف سے کسی ایسی دوسری چیز پر عائد کر دے جو بعض وجوہ سے پہلی شے کے مشابہ ہو، یا دونوں میں کسی پہلو سے اشتراک علت نظر آئے۔
یا ایک شے کے حکم کو اس کے تمام اشکال اور مظنات اور اجزا پر علیحدہ علیحدہ جاری کر دے یا جب کبھی روایات کے تعارض کی وجہ سے اصل حکم اور اس کے صحیح محل و موقع کی تمیز نہ کر سکے تو تمام صورتوں میں سے سخت ترین صورت کو اختیار کر کے اسے واجب سمجھ لے۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ہر فعل کو عبادت پر محمول کرے (حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے بہت سے افعال محض عادت کے طور پر کیے ہیں، عبادت سے ان کا کوئی تعلق نہیں) اور یہ خیال کر کے یہ تمام امور شریعت کی حیثیت رکھتے ہیں اور امر و نہی کے ذیل میں آتے ہیں، حکم لگا دے کہ خدا نے ان کاموں سے روکا ہے اور ان کاموں کا حکم دیا ہے۔
یہ تمام صورتیں تعمق فی الدین کی ہیں۔ مثال کے طور پر روزہ کے احکام کو لے لو۔ شارع نے جب نفس حیوانی کو مغلوب کرنے کے لئے روزہ رکھنے کا حکم دیا اور اس میں مباشرت سے منع فرمایا تو بعض لوگوں نے سمجھا کہ سحری کھانا بھی خلاف شرع ہے کیونکہ اس سے روزہ کا مقصد (یعنی نفس کشی) فوت ہو جاتا ہے۔ نیز روزہ دار کے لئے بیوی کا بوسہ لینا بھی ناجائز ہے کیونکہ وہ مباشرت کا داعیہ ہے بلکہ قضائے شہوت میں ایک طرح مباشرت کے مشابہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو جب ان خیالات کی اطالع پہنچی تو آپ نے ان کی غلطیوں کو واضح کر کے فرمایا کہ اس قسم کا قیاس تحریف دین ہے۔
تشدد
تحریف و بدعت کا تیسرا دروازہ تشدد ہے، یعنی ایسی سخت اور شاق عبادتوں کا اختیار کرنا جن کا شارع نے حکم نہیں دیا۔ مثلاً مسلسل روزے رکھنا، ہر وقت نماز و مراقبہ میں مصروف رہنا، تجرد اختیار کرنا [یعنی شادی سے پرہیز کرنا]، سنن و آداب کا واجب اور فرض کی طرح التزام و اہتمام کرنا وغیرہ۔ چنانچہ جب حضرت عبداللہ بن عمر اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہما نے ایسی ہی سخت ریاضتوں کا ارادہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کرتے ہوئے فرمایا کہ، “جب کوئی شخص دین کے ساتھ سختی برتے گا (اور اپنے نفس کو ناقابل برداشت عبادتوں میں مبتلا کرے گا) تو وہ دین کی پیروی سے عاجز ہو جائے گا۔”
اس تعمق یا تشدد کو اختیار کنے والا جب کسی گروہ کا امام اور معلم بن جاتا ہے تو اس کے مقلد یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ سارے امور جنہیں ان کا امام بطور عبادت کے سرانجام دے رہا ہے، شرعی احکام ہیں۔ اس طرح یہ تمام چیزیں جزو دین خیال کی جانے لگتی ہیں۔ یہود اور عیسائی راہبوں کی یہی وہ خطرناک روش تھی جس نے دین کو تباہ کر کے رکھ دیا۔
استحسان
چوتھا سبب استحسان ہے یعنی جاہلانہ قیاس آرائی۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص شارع کے طریق تشریع پر نگاہ ڈال کر دیکھتا ہے کہ وہ ہر مصلحت اور حکمت کے لئے ایک مناسب مظنہ مقرر کرتا اور ہر ایک مقصد کے حصول کے لئے ایک موزوں قالب معین کرتا ہے لیکن چونکہ یہ شخص نگاہ نبوت کی حقیقت شناسی اور وسعت سے قدرتاً محروم ہوتا ہے اور اسرار تشریع کے تمام پہلوؤں کو نہیں دیکھ سکتا، اس لئے وہ ایک آدھ مصلحت کو اچک کر اپنی فہم کے مطابق شریعت کی دفعات بتانے لگتا ہے۔
یہود کی مثال تمہارے سامنے ہے۔ انہوں نے خیال کیا کہ شارع نے معاصی [یعنی گناہوں] سے روکنے کے لئے حدود کا حکم محض اس لیے دیا تھا کہ دنیا میں امن قائم ہو اور معاملات درست رہیں۔ پھر انہیں یہ نظر آیا کہ زانی کے لئے جو سزائے رجم شارع نے مقرر کی رکھی ہے، اس سے آج کل اختلاف اور جدل و قتال پیدا ہوتا ہے جو بدترین فساد ہے۔ یہ سوچ کر انہوں نے رجم کی سزا کو مجرم کا منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کی سزا سے بدل دینا بہتر سمجھا اور ایسا کیا بھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے اس فعل کو تحریف اور ترک احکام الہی قرار دیا۔ ابن سیرین سے روایت ہے کہ
سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا۔ چاند اور سورج کی پرستش محض قیاس نے کرائی۔
امام حسن رضی اللہ عنہ آیت “خلقتنی من نار و خلقتہ من طین” [یعنی تو نے مجھے آگ اور آدم کو مٹی سے بنایا] پڑھ کر فرمایا، “ابلیس نے قیاس کیا اور وہ سب سے پہلا قیاس کرنے والا ہے۔ امام شعبی سے منقول ہے کہ۔۔۔۔
قسم خدا کی اگر تم نے قیاس سے کام لیا تو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر کے رہو گے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ۔۔۔۔۔
تین چیزیں قصر اسلام کو ڈھا دیں گی، ایک عالم کی لغزش، دوسری منافق کا قرآن سے استدلال اور تیسری گمراہ ائمہ کے احکام۔
یہ تمام باتیں اس قیاس کے متعلق ہیں جن کا سررشتہ کتاب و سنت سے نہ ہو بلکہ محض وہمی اور عقلی ہو۔۔۔۔
تقلید
پانچواں سرچشمہ جہاں سے تحریف دین کا سیلاب پھوٹتا ہے کسی غیر معصوم (غیر نبی) انسان کی کورانہ تقلید ہے۔ یعنی کوئی عالم دین کسی مسئلہ میں اجتہاد کرے اور اس کے مقلدین بغیر دلیل و حجت محض حسن ظن کی بنا پر یہ خیال کر لیں کہ امام کا اجتہاد قطعاً یا غالباً صحیح ہے۔ پھر اس خیال کے ماتحت کسی صحیح حدیث کو اس کے اجتہاد سے رد کر دیں۔
یہ تقلید وہ تقلید نہیں ہے جس کے جواز پر امت مرحومہ کا اتفاق ہے۔ امت نے مجتہدین کی تقلید کے جواز پر جو اتفاق کیا ہے، وہ چند قیود کے ساتھ ہے۔ اولاً آدمی کو یہ علم و اعتقاد رکھنا چاہیے کہ مجتہد معصوم نہیں ہے۔ اس کا اجتہاد صحیح بھی ہوتا ہے اور غلط بھی۔ ثانیاً اسے ہمہ وقت ارشاد نبوی کی تلاش میں اس عزم کے ساتھ لگا رہنا چاہیے کہ جب کبھی کوئی صحیح حدیث اجتہاد امام کے ساتھ مل جائے تو وہ امام کی تقلید اس مسئلہ میں ترک کر دے گا۔
اتخذوا احبارھم و رھبانہم اربابا من دون اللہ کے متعلق [رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد] فرمایا کہ یہود اپنے علماء و مشائخ کی پرستش نہیں کرتے تھے بلکہ کرتے یہ تھے کہ جس چیز کو یہ لوگ حلال کہہ دیتے، اسے وہ بغیر کسی حجت شرعی کے حلال سمجھ لیتے تھے اور جسے یہ حرام کہہ دیتے اسے حرام سمجھ لیتے تھے۔
خلط مذہب
دین کے اندر فتنہ تحریف کے گھسنے کا چھٹا راستہ مختلف مذاہب اور شرائع کا باہم اس طرح خلط ملط کر دینا ہے کہ ایک دوسرے سے متمیز [یعنی واضح طور پر الگ] نہ ہو سکے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی پہلے کسی اور مذہب کا پیرو رہتا ہے اور اس کے دل و دماغ پر اپنی سابق مذہبی سوسائٹی کے علوم و نظریات پوری طرح حاوی ہوتے ہیں۔ پھر وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے لیکن قلب میں ان پرانے نقوش کا اثر باقی رہتا ہے۔ انجام کار یہاں بھی ان علوم و نظریات کی توقیر و قبولیت چاہتا ہے خواہ وہ بجائے خود کیسے ہی بے جان اور بے اصل ہوں۔ حتی کہ بسا اوقات وہ اس کے لئے روایتیں گھڑنے پر اتر آتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ “بنی اسرائیل برابر راہ اعتدال پر قائم رہے یہاں تک کہ ان میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو خالص اسرائیلی نہ تھے، (باپ اسرائیلی تھا) اور ماں دوسری قوم سے، یعنی لونڈی زادے تھے۔ ان لوگوں نے دین میں رائے کو دخل دیا نتیجہ یہ ہوا کہ خود گمراہ ہوئے اور اوروں کو بھی گمراہ کر دیا۔”
چنانچہ خود ہمارے دین میں بھی آج بے شمار علوم اسی نوع کے داخل ہو چکے ہیں مثلاً اسرائیلی علوم، خطباء جاہلیت کے اقوال، یونان کا فلسفہ، ایران کی تاریخ، علم نجوم، رمل اور علم کلام وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حضور میں جب تورات پڑھی گئی تو آپ بہت خفا ہوئے، اس خفگی میں یہی راز تھا۔ نیز کتاب دانیال علیہ السلام کے طالب کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وجہ سے سزا دی تھی۔ (ماخوذ از حجۃ اللہ البالغۃ)
(مصنف: سید ابو الاعلی مودودی، تفہیمات سے انتخاب)
آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔ دین میں تحریف کے جو اسباب مصنف نے بیان کیے ہیں، ان کی ایک فہرست تیار کیجیے۔
۔۔۔۔۔ تشدد اور تقلید کے نتیجے میں کس طرح سے دین میں اضافے کیے جاتے ہیں؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز