مجھے بار بار اس کا تجربہ ہوا ہے کہ جب کبھی میں نے لوگوں کے سامنے آخرت کی دعوت رکھی، ایک بڑی تعداد نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ کچھ احباب نے تو صاف کہا کہ قیامت اور جنت جہنم کی باتیں گھسی پٹی ہیں، جنہیں سن سن کر کان پک جاتے ہیں۔اور کچھ لوگوں نے یہ کہہ کر اعلان برات کیا کہ ہم آپ کے رسالے کے ابتدائی دو تین صفحات نہیں پڑھتے (جن میں فکر آخرت پر بات کی جاتی ہے۔) بعض لوگوں نے کہا کہ آپ کے صرف وہی مضامین زوردار ہوتے ہیں جن میں سیاسی یا معاشرتی تجزیہ ہو، باقی رہی توحید وآخرت اس کو تو سب مانتے ہیں۔
تجربہ ایک اچھا استاد ہے مگر اس کی فیس بہت زیادہ ہے۔ اس لئے دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بنجمن فرینکلن |
میرے نزدیک اس رویے کا سبب صرف ایک ہی ہے۔ قرآن پاک کو ہماری دینی فکر میں بنیادی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ قرآن کی بنیادی دعوت توحید و آخرت کی دعوت ہے۔ وہ اسی کو عقلی دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہے، اسی کو لوگوں سے منوانے کی کوشش کرتا ہے، جو لوگ مان لیں وہ ا ن کے دلوں میں اسی دعوت کو راسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
قرآن کے نزدیک آخرت اور توحید علمی نوعیت کی چیزیں نہیں جنہیں مان کر کہیں عقائد کے خانے میں ڈال دیا جائے بلکہ درحقیقت تعمیرِ سیرت کی وہ اساسات ہیں، جن کے بغیر ایک سچی ایمانی زندگی کبھی وجود میں نہیں آسکتی۔
صحابہ کرام کی زندگی قرآن کریم کی اسی دعوت کا چلتا پھرتا زندہ نمونہ تھی۔ خدا ان کی زندگی کا بنیادی مرکزی خیال اور اس کے حضور پیشی میں کامیاب ہونا ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔ وہ لمحہ لمحہ خدا کی یاد میں جیتے تھے۔ جہنم کا اندیشہ اور جنت کی امید ان کی زندگی کے ہر فیصلے کی بنیاد تھی۔ قرآن جس اخلاقی نوعیت کی دینداری کا مطالبہ کرتا ہے، وہ اس فکر کے بغیر کبھی وجود میں نہیں آسکتی۔
علوم الحدیث کی صورت میں قدیم دور کے مسلمانوں نے ایسے فنون ایجاد کیے جن کی مثال اس سے پہلے اور بعد کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جرمن ماہر اسپرنگر نے اس کارنامے پر مسلمانوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ علوم کیا ہیں؟ تفصیل کے لئے علوم الحدیث: ایک تعارف کا مطالعہ فرمائیے۔ |
ہمارے ہاں دین کے نام پر بہت سے لوگ اٹھے اور وہ بہت کچھ کررہے ہیں، مگرتوحید و آخرت کو زندگی بنالینے کی سوچ جو ہر نبی اور ہر رسول کی دعوت تھی، ہمارے ہاں کبھی بھی کسی داعی کی دلچسپی کی چیز نہیں رہی۔ ان کی دلچسپی سیاست کے ہنگامے، لوگوں کی شکل و صورت کی تبدیلی، مناظرہ بازی، گمراہی و تکفیر کے فتووں تک محدود رہتی ہے۔ ہماری دینی فکر میں اگر کہیں آخرت کی بات ہوتی ہے تو فضائل کے اُس اسلوب میں، جس میں چند ظاہری اعمال ادا کرلینے کے بعد بندہ مومن اس جنت میں جانے کا مستحق ہوجاتا ہے، جہاں ہر چیز ستر ہزار کی تعداد میں ہوتی ہے۔ اگر کہیں خدا کی بات ہوتی ہے تو صرف اس لیے کہ کچھ لوگوں کو ’’مشرک‘‘ قراردے دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا معاملہ
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ ہمارے ہاں آخرت بالعموم ٹھیک مقام سے زیر بحث نہیں آتی، اسی طرح خدا کا تصور بھی درست مقام سے گفتگو کا موضوع نہیں بنتا۔ اس حوالے سے ہمارے ہاں بحث انتہائی غلط جگہ سے اٹھائی جاتی ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ معاشرے میں اللہ تعالیٰ صرف دو حوالوں سے زیر بحث آتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی سیاسی حاکمیت بالجبر دنیا پر قائم کی جائے اور دوسرے یہ کہ غیر اللہ کو پکارنے والا ہر آدمی مشرک ہے۔ سیاسی معاملے کو تو میں کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں البتہ مختصراً لوگوں کو ’’مشرک‘‘ قرار دینے والے معاملے پر آج کچھ بات کرلیتے ہیں۔
ہمارے ہاں لوگوں کو مشرک قرار دینے کی جو روایت عام ہوگئی ہے اس کا ایک زبردست ردعمل سامنے آیا ہے۔اس لیے کہ مشرک ایک بہت بڑی گالی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ قرآن میں دو مقامات پر نقل ہوا ہے کہ وہ ہر چیز کو معاف کردیں گے ،مگر شرک کو کسی صورت میں معاف نہیں کریں گے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہمارے ہاں غیر اللہ سے مدد مانگنے کا عمل نہیں ہوتا۔ مگر اصلاح کے لیے نفرت کی جو زبان استعال کی جاتی ہے وہ انتہائی غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو بہت نرمی اور محبت کے ساتھ سمجھایا جانا چاہیے۔ فتویٰ اور تکفیر کی زبان کبھی موثر نہیں ہوتی۔یہ اصلاح کم کرتی ہے اور تعصب زیادہ پیدا کردیتی ہے۔
خدا زندگی کا مرکزی خیال ہے
قرآن کریم اور سیرت انبیا کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ خدا ہر نبی اور رسول کی زندگی کا مرکزی خیال رہا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ایمان لانے والے سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں (بقرہ65:2) اور کبھی کوئی داعی حق یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ (آل عمران79:3)۔ قرآن کی اس ہدایت پر سب سے بڑھ کر حضرات انبیا نے عمل کیا ہے۔ غیر اللہ کو پکارنا کبھی کسی نبی اور رسول کا طریقہ نہیں رہا۔ وہ ا چھے برے ہر طرح کے حالات میں اسی کے سامنے گڑگڑائے ہیں، اسی کے سامنے روئے ہیں، اسی سے مدد مانگی ہے اور اسی کی رحمت اور توجہ کے طلبگار ہوئے ہیں۔ اگر غیر اللہ کو پکارنا دینی اعتبار سے کوئی اچھا عمل ہوتا تو کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑ سکتے تھے؟
اس معاملے میں غلط فہمی یہ پیدا ہوتی ہے کہ کسی غیر اللہ سے مانگنے سے دل کی مراد پوری ہونے کا زیادہ امکان ہے مگر قرآن تو اس بات کی تردید سے بھرا ہوا ہے۔ وہ تو کہتا ہے کہ اے نبی جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھتے ہیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے بہت قریب ہوں، میں ہر پکارنے والے کی بات کا فوراً جواب دیتا ہوں (بقرہ186:2)۔ قرآن تو واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ نہ صرف عبادت بلکہ مدد مانگنے کا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ قرآن کی سورہ فاتحہ جو نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے، اس میں یہ آیت بھی شامل ہے کہ اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔
یہ سب باتیں اتنی زیادہ واضح ہیں کہ کوئی صاحب علم اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ غیر اللہ کی طرف رجوع کرنا جائز ہے۔ بس ان کا فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں حرج کیا ہے۔ وہ اس کے جواز کے لیے بعض دلیلیں بھی دیتے ہیں۔مثلاً یہ کہ ہم دنیا میں بہت سے لوگوں کے پاس مدد کے لیے جاتے ہیں۔جیسے ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں۔ اس کی دوا کھاتے ہیں۔ پھر ہم ٹھیک ہوکر کہتے ہیں کہ فلاں ڈاکٹر کی فلاں دوا سے ہمیں شفا مل گئی تو کیا یہ شرک ہے؟ ہر گز نہیں کیونکہ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ شفا اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور ڈاکٹر تو بس ایک ذریعہ ہے ۔جب یہ شرک نہیں ہے تو غیر اللہ کو پکارنا بھی شرک نہیں ہے۔
مگر یہ دلیل بھی ایک غلط فہمی ہے۔ کوئی انسان اگر زندہ ہے تو آپ شوق سے اس سے مدد مانگیں۔ یہ تو قانون قدرت ہے، اس سے کس نے روکا ہے۔ اس لیے کہ اس طرح کی مدد کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ یہ اسباب کے دائرے میں رہ کر ہی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کی مدد تو اللہ کے رسول بھی مانگتے رہے ہیں۔ مثلاً قرآن میں ہے کہ حضرت عیسی نے اللہ کے راستے میں لوگوں سے مدد مانگی ہے (الصف14:61)۔ اس طرح کی مدد مانگنے کا غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر جب ایک انسان دنیا سے گزرجاتا ہے اور پھر اس سے مدد مانگی جاتی ہے یہ بات لازمی ہے کہ اسے اسباب سے بلند ہوکر مدد پر قادر سمجھا جارہا ہے۔ قرآن و حدیث نہ صرف ہر ایسے تصور سے خالی ہیں، بلکہ ان کے خلاف کھڑے ہیں۔
تاہم ہماری ان ساری باتوں کو کوئی نہ بھی مانے اور کوئی نہ کوئی تاویل کرلے تب بھی اسے یہ بہرحال ماننا ہوگا کہ غیر اللہ سے مانگنے کے بعد آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہٹ جاتا ہے۔ کیونکہ آپ نے ساری زندگی یہ کام نہیں کیا۔ سو جسے یہ خواہش ہے کہ وہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہ اٹھایا جائے، وہ یہ کام شوق سے کرے۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
اپنے خیالات اور تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
ہمارے دینی رویے کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ دین کی طرف بلانے کا نبوی طریقہ کیا ہے؟
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز