اپروچ کا فرق

وہ سولہ برس سے امریکہ میں مقیم تھا۔ ایک دن اس کے ‘باس ‘کی خاتون سیکرٹری نے چائے کے وقفے  میں یہ بحث شروع کر دی کہ اسلام عورتوں کو کم تر درجہ دیتا ہے اور مسلمان انہیں دوسرے درجے کی مخلوق سمجھتے ہیں۔دفتر کے کچھ دیگر حضرات بھی ذوق و شوق سے اس بحث میں حصہ لینے لگے۔ وہ خاموشی سے سب کے دلائل سنتا رہا اور جب اسے محسوس ہوا کہ ان کی بات پوری ہو چکی تو اس نے خاتون سے اجازت چاہی کہ اب اسے موقع دیا جائے کہ وہ اپنی بات بیان کرے۔ اس نے اپنی بات کا آغاز اس طرح کیا کہ خاتو ن ِ محترم، اس وقت باہر کا درجہ حرارت منفی دس ڈگری سینٹی گریڈ ہے مگر اس شدید سردی میں بھی تم اپنی ٹانگوں کو عریاں کر کے دفتر آئی ہو، محض اس لیے کہ تمہارا باس تم سے خوش رہے ۔دفتر آنے کے لیے تم نے یقیناصبح سویرے بستر کوچھوڑا ہو گا ، جلدی جلدی ناشتا کر کے دفتری لباس زیب تن کیا ہو گا اور پھربرفانی ہوا میں کھڑے ہو کر بس کا انتظار کیا ہو گا ، پھر ایک گھنٹہ بس میں سفر کر کے تم دفتر پہنچی ہو گی اور یہاں سارا دن تم نہ صرف مشین کی طرح کام کرو گی بلکہ اس بات کا بھی خیال رکھو گی کہ تمہارا سراپا ہردم باس کی نظروں کو طمانیت کا ساماں فراہم کرتا رہے۔ پھر اسی طرح تم شام کو تھکی ہاری بس سٹاپ پر انتظا رکی زحمت برداشت کرو گی اور پھر ایک گھنٹہ کے سفر کے بعدجب تم گھر پہنچو گی تو وہاں تمہیں خوش آمدید کہنے والا ، خدمت کرنے والا اور ‘چائے پانی’ کا پوچھنے والا کوئی بھی نہ ہو گا۔ تمہیں اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کا انتظام بھی خود ہی کرنا ہو گا ۔ رات گئے تک جب تم اس سے فارغ ہو گی تو تمہارے پاس بس اتنا ہی وقت ہو گا کہ اگلی صبح کی فکر لیے تم چند گھنٹے سو سکو ۔دوسرے دن کا سورج تمہارے لیے پھر یہی ساری ‘روٹین ‘لے کر آئے گا اور تم ہفتہ بھر اسی طرح مشین بنی رہو گی۔

پھر اس نے کہا: ذرا غور کرو! تمہارے بالمقابل ایک میری بیوی ہے جو اس وقت گرم کمرے میں لحاف اوڑھے آرام کر رہی ہو گی یا ٹی وی سے دل بہلا رہی ہو گی۔ اسے کسی ‘باس’ کی فکر نہیں ، اسے کسی کام کی فکر نہیں ، اسے کہیں جانے کی فکر نہیں۔ سردی ہو، برف باری ہویا بارش، اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ اسے صرف آرام کرنا ہے ۔ میں گھر جاؤں گا تو وہ میرا استقبال کرے گی۔ اس کے بعد اگر اس کا دل چاہا تو چائے بنا دے گی ورنہ میں خود بنا لوں گا او رہم دونوں مل کر نہ صرف چائے نوش کریں گے بلکہ خوش گپیوں سے دل بھی بہلائیں گے۔ رات کواگر اس نے چاہاتو کھانا بنا لے گی ورنہ ہم کسی ہوٹل سے کھا لیں گے ۔ اس کے ذمے بس یہ ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کر ے اورگھر کی ملکہ بن کر خاوند کے ساتھ تعاون کو قائم رکھے ۔

اس بات سے آغازکرکے اس نے بین السطور تفصیل کے ساتھ وہ سارے حقوق بیان کر دیے جو اسلام بیوی کو عطا کرتا ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ خاتون محترم، مجھے تم سے اتفاق نہیں۔ اسلام ہر گز یہ نہیں کہتا کہ عورت مرد سے کمتر ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ عورت مرد سے مختلف ہے اور جہاں تک مقام و مرتبہ کاتعلق ہے تو ماں کے روپ میں تو مرد عورت سے کہیں پیچھے رہ جاتاہے اور عورت کہیں آگے نکل جاتی ہے، اتنا آگے کہ بچوں کو اپنی جنت ماں کے قدموں میں ڈھونڈنی پڑتی ہے۔وہ ابھی عورت کی باقی حیثیتوں پہ بات کرنے ہی والاتھا کہ بحث کرنے والی خاتون بے ساختہ پکار اٹھی: مسٹر خان ، بس کیجیے میں سمجھ گئی۔ مجھے بتائیے  یعنی خان صاحب کیا آپ کو دوسری بیوی کی ضرورت ہے (اگر ضرورت ہے تو میں آپ کی دوسری بیوی بننے کے لیے تیا رہوں)۔ مطلب صاف واضح تھا کہ اگر اسلام عورت کو بحیثیت بیوی یہ مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے تو وہ ماں ، بہن اور بیٹی کوتواس سے بھی بڑھ کر عطا کرتا ہوگا۔

وہ امریکہ کے ایک ہسپتال کے کمرہ انتظار میں بیٹھا تھا ۔ اس کے ساتھ اور بھی بہت سے مقامی مرد و خواتین جمع تھے اور سب ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ انتظا ر کے لمحات کو گزارنے کے لیے ان کے مابین معاشرتی مسائل پر بحث شروع ہو گئی۔معاشرے کی افراتفری،خود غرضی ، بے سکونی اور بے چینی موضوع بحث تھے ۔ اور وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسا حل ڈھونڈا جائے جس سے یہ سارے معاشرتی مسائل حل ہو جائیں۔ سب حسب توفیق اپنی اپنی آرا پیش کر رہے تھے ۔ اس نے کہا اجازت ہو تو میں بھی کچھ کہوں۔لوگ متوجہ ہوئے تو اس نے کہا آپ کے معاشرے میں بے چینی اور افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے معاشرے سے ‘ماں’کو چھین لیا ہے ۔ معاشرے کو ‘ماں’واپس کر دو ، معاشرہ پرسکون اور پرامن ہو جائے گا۔اس کا کہنا ہے کہ جوں ہی میں نے یہ حل پیش کیا تمام خواتین نے نہ صرف اس سے بھر پور اتفاق کیا بلکہ ایک معمر خاتون تو فرط جذبات سے اتنی مغلوب ہوئی کہ اس نے بے اختیار میرا ماتھاچوم لیا۔اس نے کہا جس معاشرے کی عورت بحیثیت ماں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کو تیار نہ ہو، جلد یا بدیر بے سکونی ،بے چینی ، خود غرضی ، خود فریبی، افراتفری اور بالآخرتباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ اس نے کہا آپ کے معاشرے میں عورت ماں بننے کو تیار نہیں۔جس معاشرے میں ‘ماں’ نہیں ہو گی وہاں خاندان مستحکم نہیں ہو گااور خاندان مستحکم نہیں ہوگاتو معاشرہ بے سکون ،کھوکھلااور ڈانواں ڈول رہے گا۔

یہ دو مثالیں بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بات کو اگر ڈھنگ سے بیان کیا جائے توہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام کا پیغام اک اثر رکھتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس پیغام نہیں ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ ابدی پیغام دوسروں تک پہنچانے کا ڈھنگ نہیں آتا۔ وہ میدان جس میں ہم مغرب کا بڑے اعتماد سے مقابلہ کر سکتے ہیں وہ یہی دعوت کا میدان ہے ۔ مگر دعوت کے لیے جس درد اور جس ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے اس سے ہم خالی ہیں۔ اور جو خود خالی ہوں وہ خالی جگہ بھلاکب پرکر سکتے ہیں!

(محمد صدیق بخاری، www.suayharam.org )

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں  کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

دعوت دین کے لیے کیا اپروچ اختیار کرنی چاہیے؟  اور کن کن امور سے اجتناب کرنا چاہیے؟

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

اپروچ کا فرق
Scroll to top