ہمارے ہاں ایک المیہ یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد میں فرق کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جو بچہ زیادہ خوبصورت، ذہین، فرمانبردار اور محنتی ہو، وہ اس سے زیادہ محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس شکل و صورت میں ذرا کم نظر آنے والے، کم ذہین، سوال کرنے والے اور اطاعت نہ کرنے والے بچوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہی بچے عدم توجہی کا شکار ہو کر برائی کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔
بے وقوف شخص وہ ہے جو سوئے ہوئے فتنے کو جگا دے۔ جو معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا سکتا ہو اسے لڑائی جھگڑے تک پہنچا دے۔ سقراط |
والدین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کی اولاد ان کے لئے برابر ہے۔ اگر وہ اولاد کے معاملے میں عدل سے کام نہیں لیں گے تو اللہ تعالی کے ہاں ان کی بازپرس ہوگی۔ اولاد میں عدل کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی پہلو سے کمزور بچے کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔ انسان فطری طور پر اچھے بچوں کو زیادہ محبت دیتا ہے۔ جب وہ شعوری طور پر کمزور بچے کی طرف زیادہ توجہ دے گا تو اس کے نتیجے میں اس کی محبت اور توجہ خود بخود بیلنس ہو جائے گی۔
جسمانی اعتبار سے معذور بچے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ والدین کو ان پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ ان کے لئے خصوصی کھیلوں اور خصوصی تعلیم کا انتظام کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔
اولاد کے بالغ ہونے کے بعد والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی تعلیم و تربیت، شادیوں اور کاروبار پر رقم اس انداز میں خرچ کریں کہ اولاد کو یہ احساس نہ ہو کہ والد نے مجھے کم اور بھائی یا بہن کو زیادہ دے دیا۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ اگر ایک بیٹے یا بیٹی کو باقی پر ترجیح دی جائے تو اسی بیٹے یا بیٹی کی شخصیت پر کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ اولاد میں انصاف نہ کرنے کے دنیاوی و اخروی نتائج بیان کیجیے۔
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز