حیا ایمان کا حصہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے اندر حیا باقی نہ رہے تو پھر جو چاہے کرتے پھرو۔ سب سے پہلے تو والدین کو خود اس لفظ کا معنوی و حقیقی، اخلاقی و مذہبی لحاظ سے شعور ہونا چاہیے۔ شرم و حیا سے عاری گفتگو، انداز و اطوار، حرکات و سکنات اور لب و لہجہ باقی تمام محاسن پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اگر اس باب میں احتیاط اور شائستگی نہیں اختیار کی جاتی تو پھر بڑی دین داری اور عبادت گزاری کا بھی بچے پر کوئی تاثر نہیں جم سکتا۔۔۔۔۔
تمہاری خدمت کرنے والا شخص تم میں سب سے عظیم انسان ہے۔ خود کو دوسروں سے اعلی و ارفع سمجھنے والے کو جھکا دیا جائے گا اور عجز و انکسار والے کو باعزت بنا دیا جائے گا۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام |
لڑکے اور لڑکیوں کو عمر کے ساتھ ساتھ لباس کا احساس دلایا جائے۔ اگرچہ سالگرہ منانا اسلامی تہذیب کا رواج نہیں ہے، تاہم سالگرہ کا دن بچے میں خود احتسابی کے تصور کے ساتھ متعارف کروا دیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ چھوٹے بچے کو سالگرہ کے دن اخلاقی نصاب کا کوئی ایک قرینہ سکھایا جائے۔ یہ نصاب کتاب و سنت نے مقرر کر دیا ہے۔ ہمارے معاشروں نے مغرب کی تقلید میں سالگرہ منانے کا رواج تو اپنا لیا، لیکن اب اس کو اپنے انداز فکر سے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔
اس کے ذریعے بچے میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جا سکتا ہے کہ عمر کا ایک سال بڑھا نہیں، بلکہ کم ہو گیا ہے۔ اچھے کام کرنے کی مدت اور تھوڑی رہ گئی ہے۔ قد بڑا ہو گیا ہے، لباس پہلے سے زیادہ بڑا آنے لگا ہے تو اس کے ساتھ اچھی باتوں میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ بتدریج ساتر لباس کی طرف ذہن راسخ کیا جائے۔
حیا ایمان کا حصہ ہے۔ جہاں پر گفتگو سے لے کر اعمال تک میں حیا نہ ہو، وہاں پر بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں شرم و حیا کا تصور کیسے جڑ پکڑ سکتا ہے؟ جس معاشرے میں بچے، جوان اور بوڑھے ایک ہی جیسے فحش و عریاں ماحول میں سانس لیں اور حیا سے عاری ہو جائیں تو انہیں ذلت و رسوائی سے کون بچا سکتا ہے؟
محرم اور غیر محرم کا وہ شعور جو قرآن و سنت میں بتایا گیا ہے اس کو بتدریج اجاگر کیا جائے۔ بیماری کا خطرہ جس قدر بڑھ جاتا ہے، پرہیز اتنا ہی زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ عریانی، فحاشی، مرد و زن کا اختلاط، حیا سے عاری گفتگو، ستر سے بے نیاز لباس، بدکاری کو فیشن کے طور پر اپنانا ایسی بیماریوں کا ایک طومار ہے جس کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ ان بیماریوں کے خلاف جہاد کرنے کے لئے اپنے بچوں کو ایک اسلامی اسپرٹ کے ساتھ پرورش کرنا ہوگا۔ اس کو ایک مہم کے طور پر جاری رکھنا پڑے گا۔ معاشرہ ان برائیوں کا عادی ہوتا چلا جائے تو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔
کسی دینی مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک طالب علم کو عملی زندگی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ جدید ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے والا کوئی شخص اگر دین کی طرف مائل ہو جائے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ دین دار افراد کو اپنے معاشی مسائل کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔ |
گھروں میں نوعمری کے دوران ہی لڑکے لڑکیوں کی نشست و برخاست کا انتظام علیحدہ ہونا چاہیے۔ نرسری اور پرائمری اسکول عام طور پر مخلوط ہی ہوتے ہیں۔ انتہائی چھوٹی عمر میں بھی مخلوط تعلیم کے رواج کو ختم کیا جائے یا وہاں پر بچوں کو نہ بھیجا جائے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اسی عمر میں بچوں کو مخلوط اداروں میں بھیجنے سے پہلے یہ شعور دیا جائے کہ آنکھ اور دل کے بارے میں سخت حساب لیا جائے گا اور بدکاری کے سب کھلے اور چھپے کام اللہ تعالی نے حرام قرار دیے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی نے بدی کی شروعات کو بھی بدکاری ہی قرار دیا ہے۔
وہ بچے جن کو ابتدا ہی سے عمر کے ساتھ ساتھ فرائض کی پابندی کا سبق ملتا رہا ہو، ان کے لئے یہ پابندیاں بالکل دشوار نہیں ہوتیں۔ بچی کو تین سال کی عمر سے ساتر لباس اور پھر گھر میں اور گھر سے باہر محرم اور غیر محرم کی تمیز سکھائی جاتی رہے تو چودہ پندرہ سال کی عمر میں وہ گاؤن، اسکارف یا پردہ و حجاب کی کسی بھی شکل کو اپنی عمر کا تقاضا سمجھ کر قبول کر لے گی۔
(مصنفہ: بشری تسنیم، بشکریہ www.quranurdu.com )
موجودہ دور میں اس ضمن میں میڈیا کا مناسب استعمال نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے ہاں میڈیا کی جو صورتیں موجود ہیں، وہ تواتر سے بچوں اور بڑوں کو بے حیائی کا درس دے رہی ہیں۔ اس میڈیا کو مسلسل دیکھتے رہنے کے نتیجے میں جو نسل پروان چڑھ رہی ہے وہ عفت و عصمت کے تصور سے ناآشنا ہے۔ میڈیا کے استعمال سے متعلق چند دوستوں کے تجربات شاید قارئین کے لئے مفید ثابت ہوں۔
· ایک صاحب نے ٹی وی چینلز کے تمام پروگرامز کا جائزہ لے کر اچھے پروگرامز کی ایک فہرست تیار کر لی ہے جسے وہ ہر مہینے اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ تمام چینلز کو پاس ورڈ کے ذریعے کنٹرول کرنا ان کی اہلیہ کی ذمہ داری ہے۔ وہ اس فہرست کے مطابق بچوں کو ٹی وی لگا کر دیتی ہیں۔ اس طریقے سے بچے اپنی مرضی کے اچھے پروگرام دیکھ لیتے ہیں اور برے پروگرامز سے محفوظ بھی رہتے ہیں۔
· ایک صاحب نے گھر میں ٹی وی نہیں رکھا بلکہ وہ چن چن کر بچوں اور بڑوں کے اچھے پروگرام سی ڈی کی شکل میں لے آتے ہیں اور اسے کمپیوٹر کے ذریعے اپنے اہل خانہ کو دکھاتے ہیں۔
· ایک صاحب نے میڈیا کا مثبت استعمال کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی کہانیوں، ڈراموں اور فلموں کا انتخاب کرتے ہیں جن میں عفت و عصمت اور مثبت طرز فکر کا درس ملتا ہو۔ ان ڈراموں اور فلموں کو وہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں اور اس کے بعد نتائج کو ڈسکس کرتے ہیں۔
ٹی وی اور کمپیوٹر کی گھر میں جگہ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر انہیں کسی کھلی جگہ جہاں والدین کا آنا جانا ہو، رکھ دیا جائے تو ان کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں سے مکالمے کو فروغ دینا چاہیے اور ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کو سختی سے دبا دینے کی بجائے ان پر کھل کر بحث کرنی چاہیے۔
انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ کمپیوٹر کو گھر میں مناسب جگہ پر رکھا جائے۔ انٹرنیٹ پر بچوں کے لئے بہت سے مثبت ویب سائٹس موجود ہیں، بچوں کو ان ویب سائٹس کی ترغیب دلائی جانی چاہیے۔
بچوں پر سختی سے ہر حال میں پرہیز کرنا چاہیے۔ اس سختی کے نتیجے میں بچے یا تو بغاوت پر اتر آتے ہیں، یا وہ منافقت کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یا پھر والدین کی مرضی کے مطابق خود کو ڈھال تو لیتے ہیں لیکن ان کی اپنی شخصیت اور تخلیقی قوتیں مسخ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ بعض مخصوص حالات میں معمولی سختی کے کچھ فوائد ہوتے ہیں لیکن اس کا استعمال نہایت ہی احتیاط سے کرنا چاہیے۔
(محمد مبشر نذیر)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ میڈیا کے منفی اثرات سے اپنے بچوں کو بچانے کے لئے اگر آپ کے ذہن میں کوئی اور تجویز ہے تو وہ بھی پیش کیجیے۔
۔۔۔۔۔۔ بچوں میں شرم و حیاء کے جذبات پیدا کرتے ہوئے لڑکیوں پر تو فوکس کیا جاتا ہے مگر لڑکوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے کیا اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ تبصرہ کیجیے۔
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز