(جوان ہوتے) بچوں سے اپنا قلبی و ذہنی تعلق مضبوط کرنے کے لئے گھر میں قرآن و سنت کی ہفتہ وار مجلس رکھی جائے۔ ضروری نہیں کہ اس میں خشک اور یبوست زدہ ماحول ہی ہو۔ خوشگوار ماحول کے ساتھ علمی و ادبی گفتگو اور مسائل پر تبادلہ خیال ہو۔ بچوں کے آپس کے تنازعات پہ افہام و تفہیم ہو۔
عہد توڑنے والے کے لئے روز قیامت ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی کا نشان ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم |
بچوں کو دوسروں کی طرف سے صرف اپنی تعریف سننے کا عادی نہ بنایا جائے۔ وہ بچہ جو صرف اپنی تعریف سننا چاہتا ہو، تنقید، محاسبہ یا نصیحت سننا گوارا نہ کرتا ہو اور دوسروں کی اخلاقی برتری برداشت نہ کرتا ہو، وہ کبھی اپنے کردار کو خوب سے خوب تر نہیں بنا سکتا۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی باعث تکلیف و آزار بن جاتی ہے۔ بچوں میں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ غلطی کی سزا ملنا عدل ہے اور حوصلہ افزائی کے لئے اچھے کام پر انعام دینا بچوں کا حق ہے۔
والدین بچوں کی بہت سے عادات کو کھیل کود کی عمر کہہ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں، مگر بالغ ہو جانے پر ایک دم ان کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو غلط رخ پر جا رہے ہیں۔ پھر وہ راتوں رات ان کو ہر لحاظ سے معیاری درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں، یہی ناسمجھی کی بات ہے۔ بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت ہر سال، ہر دن اور ہر لحظہ کی ختم نہ ہونے والی منصبی ذمہ داری ہے۔ مغربی تہذیب میں بلوغت کی عمر کے بعد (اور اب پہلے بھی) بچوں کو توجہ کے قابل تو کیا، گھروں میں رکھنے کے قابل تک نہیں سمجھا جاتا۔ اس غلطی کا خمیازہ وہ تہذیب بھگت رہی ہے۔ اسلام نے اولاد اور والدین کا تعلق دنیا سے لے کر آخرت تک قائم رکھا ہے۔ وہ دونوں جہانوں میں ایک دوسرے کا قرب پا کر ہی تکمیل پائیں گے۔
خود مختاری، اظہار رائے کی آزادی، معاشی طور پر خود کفیل ہونا، سماجی طور پر اپنا مقام بنانا، اپنے شریک زندگی کے بارے میں اپنی رائے رکھنے جیسے انفرادی حقوق اسلام نے عطا کئے ہیں، مگر اجتماعیت کا جو تصور اسلام نے دیا ہے، اس میں حسن بھی ہے، تکمیل بھی اور اعتدال بھی۔ حقیقت میں کسی بھی کام اور چیز میں اعتدال ہی اس کا حقیقی حسن ہے۔ 14 سے 16 اور 18 سے 22 سال تک کی عمر نئی جہتیں سامنے لاتی ہے۔ اس عمر میں والدین کی اپنے بچوں کے ساتھ دل وابستگی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
جس طرح زمین کے اندر بیج ہر قسم کے موسم اور مصائب و آلام سے گزر کر ایک پھل دار درخت بنتا ہے، اس درخت کو پہلے سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ثمرات کو سمیٹنا اور آئندہ کی منصوبہ بندی کرنا ہی عقل مندی کی نشانی ہے، اسی طرح جوان اولاد، والدین کے لئے پھل دار باغ ہے۔ اس کو ضائع کرنا، اس سے لاپرواہ ہونا، غیروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دینا، ساری محنت اکارت کر دینے کے مترادف ہے۔
نفسیاتی، ذہنی، جسمانی و صنفی تبدیلیاں بچوں کو ایک نئے موڑ پہ لا کھڑا کرتی ہیں۔ اس وقت والدین کی شفقت، اعتماد اور گھر کے ماحول میں بچوں کی اہمیت انہیں سکون مہیا کرتی ہے۔ اس دور کے ذہنی، جسمانی اور ارتقائی مراحل، قابل اعتماد رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لڑکے کے لئے باپ کی بھرپور توجہ، رہنمائی اور محبت، بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنا، اس عمر کا ایک فطری مسئلہ ہے۔
اسلام میں جسمانی و نظریاتی غلامی کے انسداد کی تاریخ غلامی کا آغاز کیسے ہوا؟ دنیا کے قدیم معاشروں میں غلامی کیسے پائی جاتی تھی؟ اسلام نے غلامی سے متعلق کیا اصلاحات کیں اور ان کے کیا اثرات دنیا پر مرتب ہوئے؟ موجودہ دور میں غلامی کا خاتمہ کیسے ہوا۔ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔ |
الل ٹپ پرورش پانے والے بچے غلط انداز فکر میں کھو کر اپنا بہت کچھ ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے نوجوانوں کو انتہائی گھٹیا اور پست سوچ کا حامل بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، بلکہ بچے اور بوڑھے بھی اسی پستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ صنفی جذبات میں اکساہٹ پیدا کرنے والے عوامل پیش کرنا شیطانی کام ہے۔ وہ سب لوگ جو فواحش کو پھیلاتے ہیں، لعنت کے مستحق ہیں۔
معاشرے میں جس بے راہ روی کو فروغ دیا جا رہا ہے، وہ ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو راہ راست پر لانے کے لئے خصوصی منصوبہ بندی اور فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اس کے متبادل چیزیں لا کر دینے میں دیر کرنا بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
عموماً محرم رشتے دار، جوان اولاد کے بہت سے مسائل حل کرنے کے لئے باہم اعتماد کی فضا قائم نہیں کر پاتے۔ بے وجہ کی جھجک بڑی گہری دوریاں پیدا کرتی ہے جس سے شخصیت میں ایک خلا رہ جاتا ہے۔ محصنات اور محصن شخصیت پورے خاندان کی بھرپور توجہ، محبت، شفقت، نگہبانی و اعتماد کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ یہی “خاندانی” لوگ اخلاقی اقدار کی ایک محفوظ پناہ گاہ میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر وہ مددگار و معاون اور مخلص رشتے بے جا گریز کی بند کوٹھڑیوں میں دبکے اور گونگے بنے رہیں تو پھر نوجوان بچوں کی زندگی میں ایک خوفناک خلا پیدا ہوتا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے ناقابل اعتماد اور اپنے جیسے کچے ذہنوں کی مشاورت انہیں بڑی غلط راہوں پہ لے جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عمر میں بچوں کو گھر کے ماحول سے سکون و طمانیت ملے۔ ننھیال، ددھیال میں ان کی شخصیت کو مانا اور تسلیم کیا جائے۔ لڑکے کو گھر کی خواتین والدہ، بہنیں، خالائیں، پھپھیاں غرض محرم خواتین شفقت و محبت دیں۔ والد اسے اپنا دست و بازو گردانے تو اس کی ایک پراعتماد شخصیت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح لڑکی کو گھر کے مرد، والد، بھائی، ماموں، چچا اپنے دست شفقت سے نوازیں اور والدہ اور دیگر رشتہ دار خواتین اس کی شخصیت کو تسلیم کریں تو شائستہ اطور اور زیادہ نکھر کر سامنے آئیں گے۔
(مصنفہ: بشری تسنیم، بشکریہ www.quranurdu.com )
اس ضمن میں چند تجاویز پیش خدمت ہیں جو انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ والدین اور دیگر رشتے داروں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ہمیشہ شرمندگی سے بچائیں۔ بعض والدین بچوں کی نافرمانیوں سے تنگ آ کر انہیں ہر مہمان کے سامنے رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا کہ بچے اور والدین میں فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بچوں کو تنہائی میں مناسب تنبیہ کیجیے اور ان کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیے۔
۔۔۔۔۔۔ والدین اور دیگر رشتہ داروں کا تعلق بچے سے اعتماد کا ہونا چاہیے۔ اگر بچہ کبھی کوئی غلطی کر بیٹھے تو وہ محض بڑوں کی مار یا ڈانٹ سے بچنے کے لئے اسے چھپانے کی کوشش نہ کرے۔ اگر بچہ خود اپنی غلطی کا اعتراف کر رہا ہو تو والدین کو چاہیے کہ وہ اسے کھلے ظرف کے ساتھ معاف کر دیں۔ اس سے باہمی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔ والدین اور دیگر بزرگوں کو چاہیے کہ وہ سیکس سے متعلق موضوعات پر جوان ہوتے بچوں سے گفتگو کرتے ہوئے کبھی نہ ہچکچائیں بلکہ ان کے ہر سوال کا معقول اور تسلی بخش جواب دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ بچہ دوستوں یا انٹرنیٹ سے غلط سلط معلومات لے کر گمراہ ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔ بہت سے والدین اور اساتذہ زیادہ سوالات اٹھانے والے بچوں کو پسند نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذہن پر جواب دینے کی مشقت لادنا نہیں چاہ رہے ہوتے۔ یاد رکھیے کہ زیادہ سوال وہی بچہ کرتا ہے جو ذہین ہوتا ہے۔ زیادہ سوالات اٹھانے پر بچوں کی حوصلہ افزائی ان کی تخلیقی قوتوں کو جلا بخشتی ہے۔
(محمد مبشر نذیر)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ اگر ایک بیٹے یا بیٹی کو باقی پر ترجیح دی جائے تو اسی بیٹے یا بیٹی کی شخصیت پر کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ اولاد میں انصاف نہ کرنے کے دنیاوی و اخروی نتائج بیان کیجیے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز