پیدائش کے فوراً بعد ہر جاندار مخلوق کا نومولود اپنی ماں کی طرف کشش رکھتا ہے، چاہے اس کا انڈوں سے ظہور ہو یا رحم مادر سے۔ دودھ پلانے والے جانداروں میں مشاہدات کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بچہ اپنی ماں کو اور ماں اپنے بچے کو، ایک دوسرے کی بو سے پہچانتے ہیں۔
ان لوگوں کو رائے دیجیے جو بہرے نہیں ہیں ورنہ آپ کا مشورہ ضائع جائے گا۔ شیکسپیئر |
قدرت نے نوزائیدہ شیر خوار بچے کی ساری کائنات ماں کی گود اور ماں کے دودھ سے وابستہ کر دی ہے۔ بچے کو شروع سے ہی ماں کا قرب نصیب ہونا چاہیے۔ آج کل بچے کو ہسپتالوں میں ماں سے دور نرسری میں رکھا جاتا ہے جس سے ماں اور بچہ ایک دوسرے کی مخصوص بو اور تعلق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ماں کو دو سال تک دودھ پلانے کی ہدایت کی ہے۔ یہی دو سال کا عرصہ بچے میں تعلیم حاصل کرنے کی قوت اور ذہنی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے ماں اپنا دودھ نہ پلا رہی ہو تو فیڈر سے دودھ پلانے کے لئے بھی ماں اپنے بچے کو گود میں لے کر سینے سے لگا کر پلائے۔ اللہ تعالی نے دودھ پلانے والی ماں کو خصوصی اجر سے نوازا ہے۔
ہمارے لئے قابل تقلید بزرگوں کی مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ کانوں میں کوئی بہترین پیغام اور آیات الہی، لوری کی صورت میں سناتی تھیں۔۔۔۔ بعض لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کو چالیس دن کے اندر اندر قرآن پاک کی تلاوت سنا دی جائے تو اس کے بہت سے مثبت اثرات سامنے آتے ہیں۔۔۔۔ بچہ بولنے کی کوشش کرنے لگے تو سب سے پہلے اللہ کا نام سکھایا جائے۔ اذان کی آواز پر متوجہ کیا جائے۔ کلمہ طیبہ، بسم اللہ، الحمد للہ، السلام علیکم جیسے بابرکت کلمات سے بچے کی زبان کو تر کیا جائے۔
پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ صرف موروثی اثرات ہی مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر اب سائنس دان یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ بچپن کا ماحول بھی بچہ کے مزاج کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور عصبیاتی تحقیقات (نیورولوجیکل سٹڈیز) کی روشنی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈیویلپمنٹ کے اسٹیفن سومی نے ثابت کیا ہے کہ نوزائیدہ بچے کے دماغ کے خلیات میں سائنافسز شروع کے چند ماہ میں بیس گنا بڑھ جاتا ہے اور دو سال کی عمر کے ایک بچے میں ایک بڑے آدمی کے مقابلے میں یہ سائنافسز دگنے ہو جاتے ہیں۔
قوم ثمود کا انجام کیا ہوا؟ آج بھی قوم ثمود کے تراشے ہوئے گھر سعودی عرب کے تاریخی مقام مدائن صالح میں موجود ہیں۔ اس مقام کا سفرنامہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔ |
بچے کا والدین سے تعلق، اس کے دماغ کے ان حصوں کی بناوٹ پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر شروع کے دو تین سال بچے کو والدین، خصوصاً ماں کی بھرپور توجہ، شفقت نہ ملے اور خصوصی باہمی تعلق پیدا نہ ہو تو ساری زندگی غیر معمولی جارحانہ پن، منفی انداز فکر، ذہنی پراگندگی پیدا ہو سکتی ہے۔ ماں اور بچے کے درمیان ہر عمر میں قربت قائم رہنی چاہیے۔
بچہ چند دن کا ہو، چند سال کا یا جوان، حتی کہ جوانی کی حد سے نکل جانے والے بچے بھی ماؤں کی گود میں سر رکھ کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ماں کی قربت میں ایک انمول کشش رکھ دی ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ جو مائیں اپنی سستی، کوتاہی یا کسی مجبوری کی بنا پر ہی سہی، اپنے بچوں کے ساتھ ایسا تعلق پیدا نہیں کر سکتیں، ان کے بچے ساری عمر ماں کی محبت میں کمی اور تشنگی کو محسوس کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔ مثبت اور خوشگوار مشاہدات، جذبات و احساسات کا حامل بچہ اپنے لاشعور سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں قوت اعتماد، قوت فیصلہ اور سمجھ بوجھ زیادہ پائی جاتی ہے۔
دماغ کے ماڈل کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کے پہلے حصے شروع کے تین سال کی عمر میں مکمل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ نو سے گیارہ سال کی عمر میں دماغ میں تبدیلی آتی ہے۔ دماغ کوئی پتھر کا ٹکڑا نہیں ہے، بلکہ اس میں مستقل تبدیلی آتی رہتی ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت، ماحول، جذبات و احساسات، تجربات و مشاہدات اس کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغ کے پہلے سے بہتر مطالبات ہوتے ہیں۔ گویا انسانی مشینری ہمہ وقت اور بھرپور توجہ کی متقاضی ہے۔ یہ کوئی جامد چیز نہیں ہے کہ بس ایک لگے بندھے طریقے سے چلتی رہے گی۔
دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچے کو اچھا انسان اور بہترین مسلمان بننے کے لئے، بہترین ماحول چاہیے۔ شخصیت کی صحت مندانہ نشوونما کے لئے ایک صحت مند تصور ذات اسے والدین اور اہل خانہ ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر والدین بچے کی عزت نفس اور اس کی شخصیت کی نفی کا رویہ اختیار کریں گے، تو اس کے ذہن میں یہی نقوش ثبت ہو جائیں گے اور وہ کبھی اپنے والدین یا اہل خانہ کے بارے میں مثبت انداز فکر نہیں اپنا سکے گا، الا یہ کہ اس کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں اس منفی رویہ کو خود بدل لیا جائے۔
بہرحال جو اثرات ایک مرتبہ قائم ہو جائیں وہ ختم تو نہیں ہوتے، البتہ بعد کے حالات اس میں تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں۔۔۔۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ ایک پانی کا چشمہ اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ فطری راستے پر بہہ رہا ہو۔ اگر اس راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے تو پانی فطری راستے کی بجائے مختلف اطراف میں بہنا شروع کر دے گا۔
بچے کے ذہن میں مثبت طرز فکر پہنچاتے رہنا چاہیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا سا بچہ شاید ہماری بات نہیں سمجھ رہا، مگر وہ اس کے ذہن میں ریکارڈ ہوتی جاتی ہے اور جب، جہاں جس طرح وہ بات کارآمد ہو، ذہن وہاں منتقل کر دیتا ہے۔
(مصنفہ: بشری تسنیم، بشکریہ www.quranurdu.com )
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
مصنفہ نے شیر خوار بچے کی تربیت سے متعلق جو نکات پیش کیے ہیں، انہیں ترتیب وار بیان کیجیے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز