مغرب کی ثقافتی یلغار اور ہمارا کردار

تہذیبوں کا تصادم

The Clash of Civilization

سیمیوئل ہنٹنگٹن کی شہرہ آفاق کتاب  نے دورِ حاضر میں بڑے بحث و مباحثے کو جنم دیا ہے۔ اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے سوویت یونین کے انہدام کے بعد مغرب کا پہلا ٹکراؤ اسلامی دنیا سے ہوگا۔اس کے بعد اگلا ٹکراؤ چین سے ہوگا۔یہ کتاب سیاسی پس منظر میں لکھی گئی ہے، اس لیے ٹکراؤ سے مراد سیاسی تصادم ہے۔اور اس میں شک نہیں کہ اس کی پیش گوئی ٹھیک ثابت ہوئی اور 9/11  کے بعد مغربی اور اسلامی دنیا کا باقاعدہ سیاسی تصادم شروع ہوچکا ہے۔

اللہ تعالی نے دماغ کو دل سے بلند مقام عطا کیا ہے۔ اس وجہ سے اپنے جذبات کو ہمیشہ عقل کے تابع رکھو۔ بقراط

    میرے نزدیک یہ سیاسی تصادم کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ مسلمان اس میں جیتیں یا ہاریں وہ یکساں طور پر نقصان میں رہیں گے۔اصل بات یہ ہے کہ مغرب سے مسلمانوں کا ٹکراؤ ایک دوسرے میدان میں ہورہا ہے، جس میں مسلمان بغیر مقابلے کے ہار رہے ہیں۔ یہ میدان تہذیب کا میدان ہے، روایات کا میدان ہے، اقدار کا میدان ہے، حیات و کائنات کے بارے میں نقطہ نظر کا میدان ہے۔ مسلمان دانشوروں اور اہل علم کی ساری توجہات اس وقت سیاست کے میدان میں ہیں۔ ان کے بہترین لوگ، سرمایہ اور دانش اسی میدان میں ضائع ہورہے ہیں۔ جبکہ تہذیب و اقدار کے میدان میں مغرب کو والک اوور مل چکا ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی ذہانتیں اور صلاحیتیں اس میدان میں مقابلے کے لیے موجود نہیں۔

    میں اپنی اس بات کو ایک واقعہ سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں پچھلے دنوں ائیرپورٹ پر ایک مہمان کو لینے گیا۔ فلائٹ کی آمد کے وقت دیگر لوگوں کا بھی رش ہوگیا تھا جو مہمانوں کو لینے آئے ہوئے تھے۔ سب لوگ لاؤنج کی طرف نظر کیے ہوئے اپنے اپنے مہمانوں کو تلاش کرنے کی کوششیں کررہے تھے۔ میں لوگوں سے ذرا پیچھے کھڑا ہوکر اسی عمل میں مشغول تھا۔ مجھ سے چند قدم آگے کچھ خواتین بھی اپنے مہمانوں کی منتظر تھیں۔ اچانک ان میں سے ایک لڑکی کا دو پٹہ بازو سے ڈھلکا اور اس نے انتہائی تیزی کے ساتھ اپنا دوپٹہ واپس بازو پر ڈال دیا۔ اپنی اس تیزی کی بنا وہ لڑکی میری توجہ کا مرکز بن گئی۔ میں نے غور کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اصل واقعہ کیا ہوا تھا۔ وہ لڑکی سلیو لیس قمیض پہنے ہوئے تھی، مگر اس نے دوپٹہ اس طرح اوڑھ رکھا تھا کہ اس کے برہنہ بازو بالکل چھپے ہوئے تھے ۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا، بلکہ اس نے یہ اہتمام باقاعدہ کررکھا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی بے خیالی میں دوپٹہ ڈھلکا، اس نے گھبرا کر تیزی سے اپنا شانہ چھپا لیا۔

    پہلے مجھے خیال آیا کہ اگر برہنہ بازو چھپانے ہی مقصود تھے تو سلیو لیس قمیض سے شوق فرمانے کا کیا فائدہ۔ پھر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ اقدار کی جنگ ہے جو اس لڑکی کے وجود میں بپا ہے، جس میں ایک طرف ماحول اور میڈیا کا دباؤ ہے اور دوسری طرف طبعی جھجک ہے۔اور یہ مغربی تہذیب کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ اس نے ایک ایسی لڑکی کو بھی یہ لباس پہننے پر مجبور کردیا جو جسم کی نمائش کو اچھی چیز نہیں سمجھتی ہے۔

    یہ واقعہ اس شکست کی ایک واضح نشانی ہے جو اقدار و روایات کے میدان میں ہمیں ہورہی ہے۔ جس تہذیب میں خواتین کا ننگے سر رہنامعیوب سمجھا جاتا ہے، اس میں اب سلیو لیس عا م ہونا شروع ہوگیا ہے۔یہ ابھی محض آغاز ہے۔ آگے آگے جو کچھ ہوگا، اس کے بعد لوگ سیاسی میدان کی ہر ناکامی بھول جائیں گے۔ ہم مغرب سے دو سو برس سے سیاسی میدان میں شکست کھارہے ہیں۔ آئندہ دو سوبرس تک بھی صورتحال کے بدلنے کا کوئی امکان نہیں۔ مگر ابھی تک ہماری تہذیب بہرحال اپنی جگہ قائم و دائم تھی، مگر اب لگتا ہے کہ اب اس شہر پناہ کی بربادی کا وقت آگیا ہے۔

    ہماری تہذیب جو خدا پرستی اور فکر آخرت کی اساس پر قائم ہے اور عفت وعصمت کے ستونوں پر کھڑی ہے، مغرب دنیا پرست اور آزاد تہذیب سے مغلوب ہونا شروع ہوگئی ہے۔چند دہائیوں کی بات ہے، اس کے بعد ممکن ہے کہ ہم قوم پرستی کے جذبے سے مغرب کے خلاف کھڑے ہوں، مگر ہم تہذیبی طور پر مغربی انداز فکر کو قبول کرچکے ہوں گے۔

شراب انسان کو مضحکہ خیزی اور ہنگامے کی طرف لے جاتی ہے۔ اسے استعمال کرنے والے عقل مند نہیں ہو سکتے۔ سیدنا سلیمان علیہ والصلوۃ والسلام)

اخلاقی انحطاط

مغرب کا یہ اندازِ فکر کیا ہے؟ یہی کہ اصل زندگی دنیا ہی کی زندگی ہے۔ ہر کامیابی دنیا کی اور ہر ناکامی دنیا ہی کی ہوتی ہے۔ یہ زندگی صرف ایک بار ملی ہے اس لیے اسے جتنا انجوائے کرنا ہے کرلو۔اہل مغرب کی خوش قسمتی ہے کہ وہاں کئی صدیوں سے بڑے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں اور ان کے معاشرے نے ان بڑے لوگوں کی بات مانی ہے۔ اس لیے وہ لذت پرستی اور دنیا پرستی کی اس دوڑ میں بھی بہرحال کچھ اصول واخلاقیات کے پابند ہیں۔

    مگر ہمارا حال یہ ہے کہ پچھلے دو سو برس سے ہم زندگی کو سیاست کی عینک سے دیکھنے کے ایسے عادی ہوئے ہیں کے اس کے پیچھے اپنے سارے تربیتی ادارے گنوا بیٹھے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہماری اخلاقی بنیادیں کھوکھلی ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ہم نہ مغربی تہذیب کی ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں اور نہ دنیا پرستی کی بین الاقوامی لہر کا سامنے کرنے کے۔

    آج معیارِ زندگی بلند کرنے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے اور دنیوی لذتوں اور تعیشات کو زندگی کا مقصد بنالینے کا جو عمل شروع ہوگیا ہے، اس کے نتائج ہمارے کھوکھلے اخلاقی وجود کے لیے تباہ کن ثابت ہورہے ہیں۔ ہم دنیا بھر سے اسلام کے نام پر لڑتے ہیں،مگر انفرادی یا اجتماعی سطح پر اپنے سیرت و کردار میں وہ مثالی نمونہ پیش نہیں کرپاتے جو صحابہ کرام یا ان کے بعد بھی مسلمانوں کا شعار تھا۔ مثالی ہونا تو دور کی بات ہے ہم معمول کا وہ اخلاقی رویہ بھی نہیں پیش کرپاتے جس کی توقع بحیثیت ایک اچھے انسان کے کی جاسکتی ہے۔

    جس معاشرے میں نہ دوا خالص ملتی ہو نہ غذا اس کی اخلاقی حیثیت پر کیا تبصرہ کیا جائے۔ جہاں ہر ناجائز کام رشوت دے کر کرانا ممکن ہو اور بغیر رشوت کے کسی جائز کام کا کرنا ناممکن ہو، اس معاشرے کی اسلامی حیثیت پر سوال پیدا ہونا لازمی ہے۔ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے اور باشعور طبقے نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ایک زمانے میں ہم دنیا کی سب سے زیادہ بدعنوان ریاست تھے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہمارے ہاں کرپشن کی صورتحال میں ابھی تک کوئی زیادہ بہتری نہیں آئی۔ کاروباری طبقہ ناجائز منافع خوری اور غیر معیاری اشیا کی فراہمی سے اپنے خزانوں میں ہر روز اضافہ کررہا ہے۔جن غریب غربا کے لیے یہ راستے بند ہیں انہوں نے جرائم کی راہ اپنالی ہے۔ صرف شہر کراچی میں پچھلے ایک سال میں چوالیس ہزار موبائل چھینے جانے کی رپورٹ پولیس میں درج ہوئی۔اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔

    خواتین کو بھی تلاشِ معاش کے لیے گھروں سے نکلنا پڑرہا ہے۔ہمارے ہاں خواتین کے احترام کی روایت اب مضبوط نہیں رہی ۔ اسی طرح لوگ بالعموم مرد و زن کے اختلاط کے آداب سے بھی واقف نہیں۔ اس لیے یہ یہ مخلوط معاشرت اپنے ساتھ نئے اخلاقی مسائل لارہی ہے۔پھر بہت سی جگہوں پر خواتین کو ان کی نسوانیت ہی کی بنا پر ملازمت ملتی ہے۔اس کے اپنے نتائج ہوتے ہیں۔میڈیا اور اشتہارات کی صنعت میں کم اور تنگ کپڑے پہننے ہی سے کافی پیسے مل جاتے ہیں۔اس لیے اچھے گھرانوں کی لڑکیاں بھی اس میدان میں اتررہی ہیں۔جو زیادہ غریب ہیں وہ دوسرے طریقے سے اپنی قیمت وصول کررہی ہیں۔

    اس کا ایک تجربہ مجھے ذاتی طور پر اس وقت ہوا جب میں پچھلے ہفتے دفتر آرہا تھا۔راستے میں واقع ایک ٹریفک سگنل پر بتی سرخ تھی۔بارش کے بعد ٹریفک کم تھا اس لیے سگنل پر تنہا کھڑا تھا۔ میں اشارے کے سبز ہونے کا منتظر تھا کہ مجھے اپنے ہاتھ پر گرفت کا احساس ہوا۔ سر گھماکر دیکھا تو میرے بالکل قریب ایک نوجوان فقیرنی کھڑی تھی۔اس کے بازوؤں میں ایک معصوم بچہ تھا جو اس کے سینے سے لگا اپنی غذائی ضرورت پوری کرتے کرتے سو گیا تھا۔اسی لمحے سگنل کھل گیا اور میں معاف کرو کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ مگر بچے کو دودھ پلانے کی آڑ میں ایک چوراہے پر اس نے جس صفائی سے اپنے سینے کو عریاں کیا تھا، میں اس سے دنگ رہ گیا۔ اس فقیرنی کے انداز سے واضح تھا کہ وہ بھیک مانگنے نہیں آئی کاروبار کرنے آئی ہے۔ اسے معلوم تھا کہ میڈیا نے لوگوں میں نہ بجھنے والی جو پیاس پیدا کردی ہے، اس کی بنا پر بہت سے لوگ ہیں جو اس براہِ راست مشاہدے کی بھاری قیمت دے سکتے ہیں۔ بلکہ زیادہ حوصلہ مند لوگ اسے دعوتِ نظارہ میں پوشیدہ دعوتِ گناہ کی بھرپور قیمت بھی دے سکتے ہیں۔

پاکستان ایک مذہبی معاشرہ ہے ؟

ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف دنیا بھر میں ہماری شہرت ایک مذہبی معاشرے کی ہے اور یہ شہرت غلط نہیں ہے۔ہماری سوسائٹی میں دینداری کے کم و بیش سارے مظاہر بغیر کسی حکومتی جبر کے موجود ہیں۔ہمارے ہاں بہت بڑے پیمانے پر مدارس و مساجد قائم ہورہے ہیں۔ نماز روزے کا اہتمام بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔حج و عمرہ کے لیے جانے والوں کی کثرت ہے۔ باپردہ خواتین اور داڑھی والے حضرات بغیر کسی جبر کے بڑی تعداد میں معاشرے میں نظر آتے ہیں۔ دینی اور تبلیغی جماعتیں فروغ پارہی ہیں۔ تبلیغ کا معاملہ ہو یا جہاد کا، بڑے پیمانے پر افرادِ کار اور مالی مدد یہاں سے ملتی ہے۔ ملی غیرت کا حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کا کوئی مسئلہ ہو سب سے زیادہ اس کی حمایت ہمارے ہاں سے کی جاتی ہے۔ مذہبی حمیت کا حال یہ ہے کہ سلمان رشدی کا معاملہ ہو یا سوئیڈش اخبار کا، مظاہرے اور احتجاج میں ہم سب سے آگے ہیں۔ ہمارے آئین میں اسلام کے حوالے سے اتنی شقیں ہیں کہ بلا خوفِ تردید ہم آئین کی حد تک ایک مکمل اسلامی ریاست ہیں۔

    ڈسکو کلب، شراب نوشی، جوا اور قحبہ گری جو دنیا بھر بشمول اسلامی ممالک معمول کی بات ہے، ہمارے ہاں علانیہ ان کا تصور نہیں ۔ خواتین کا جینز پہننا اور بغیر آستینوں کی قمیض پہننا ہمارے معاشرتی رویوں میں ابھی تک ایک نامانوس چیز ہے اور آزاد خیال خواتین بھی اس سے آگے نہیں بڑھ پاتیں۔ ہمارے ساحلِ سمندر ان خرافات سے پاک ہیں جو دنیا بھر میں عام ہیں۔ہماری فلموں کا سنسر اتنا سخت ہے کہ بوس و کنار کے وہ مناظر جو دنیا بھر کی فلموں میں معمولی بات ہیں، ابھی تک ہمارے ہاں راہ نہیں پاسکے ہیں۔ ہم اس ملک کے باسی ہیں، اس لیے ہمیں یہ چیزیں معمول کی بات لگتی ہیں، مگر باہر سے آنے والے ایک شخص کی نظر میں یہ سب مل کر پاکستان کو ایک غیر معمولی مذہبی معاشرہ بنادیتا ہے۔

اصل مسئلہ کیا ہے؟

یہ ہمارے معاشرے کے تضادات ہیں۔ایک طرف مغرب کی ثقافتی یلغارکے اثرات ہیں، دوسری طرف ہمارا اخلاقی انحطاط اور تیسری طرف یہ دینداری کی فضا۔ اسی آخری چیز نے ہمارے لیے شدید مسائل پیدا کردیے ہیں۔ کیونکہ یہی آخری چیز یعنی ظاہر ی دینداری آنکھوں کو بھلی لگتی ہے ۔ اس سے یہ اطمینان قلب بھی رہتا ہے کہ دین پھیل رہا ہے، مگر درحقیقت یہ نہ مغرب کی ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرسکتی ہے نہ جدید اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دے سکتی ہے۔ یہ نہ اخلاقی انحطاط کے سامنے کوئی رکاوٹ باندھ سکی ہے اور نہ دنیا پرستی کی لہر کا توڑ کرسکتی ہے۔

    ایسا کیوں ہے اسے سمجھنے کے لیے ہم غذا کی مثال لیتے ہیں۔غذا کے متعلق ہم سب جانتے ہیں کہ اسی پر انسانی صحت کا دارومدار ہوتا ہے۔ اچھی غذا سے انسان صحت مند رہتا ہے اور بری غذا انسان کو کمزور اور بیمار کردیتی ہے۔ تمام ڈاکٹر اس بات پر متفق ہیں کہ متوازن غذا لینا بہت ضروری ہے۔تاہم بہت سے لوگ قحط اورغربت کی بنا پر اچھی خوراک نہیں لے پاتے۔اسی طرح کچھ لوگ غذا کے نام پر بہت سی چیزوں سے پیٹ تو بھر لیتے ہیں، مگراس خوراک میں غذائیت نہیں ہوتی۔ کیونکہ غذائیت ہر کھانے والی چیز میں نہیں ہوتی بلکہ متوازن غذا میں ہوتی ہے۔ بہرحال سبب غربت ہو یا متوازن غذا کا نہ لینا دونوں وجوہات سے صحت خراب ہوجاتی ہے۔ غذا کی بنیاد پر صحت خراب ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ بہت سے لوگوں میںبعض نفسیاتی کیفیات اور بیماریوں کی بنا پر بھوک لگنی بند ہوجاتی ہے۔ وہ ہر طرح کی نعمتیں دستیاب ہونے کے باوجود بھوک نہ ہونے کی بنا پرٹھیک طرح کھانا نہیں کھاپاتے۔ چنانچہ وہ اسی طرح لاغر اور کمزور ہوجاتے ہیں جس طرح ایک مفلوک الحال یا قحط کا مارا شخص ہوتا ہے۔

    دین کا صحیح تصور اور صحیح علم ایک انسان کے روحانی اور اخلاقی وجود کے لیے غذا کی مانند ہے۔ یہ اگر انسان کو مل جائے اور اس کی بنیاد پر انسان کی تربیت ہو تو اس کے نتیجے میں لازمی طور پر ایک اعلیٰ اخلاقی وجود جنم لے گا۔اور اگر یہ نہ ملے یا اس میں ملاوٹ ہوجائے تو پھر اخلاقی روح فنا ہوجاتی ہے یا مسخ ہوجاتی ہے۔ کسی معاشرے میں جب یہ صورتحال پیدا ہوجائے تو پھر اس میں وہ اخلاقی انحطاط پیدا ہوجاتا ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا۔اور ایسے میں مغربی تہذیب جیسی کوئی طاقتور فکر حملہ کردے تو جس طرح ایک کمزور جسم وائرس کا حملہ نہیں سہہ سکتا، اسی طرح ایسا معاشرہ ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔چاہے اس میں ظاہری دینداری کی کتنی ہی دھوم ہو اور اس کا آئین کتنا ہی اسلامی کیوں نہ ہو۔

    ہمارے ہاں معاشرے کے تمام طبقات کسی نہ کسی حوالے سے اس صورتحال سے متاثر ہوکر کمزور پڑچکے ہیں۔ہمارے معاشرے کے ایک طبقے تک دین کا صحیح علم پہنچا ہی نہیں ہے ۔ ان کے ہاں قحط کی کیفیت ہے۔ دوسرا گروہ ان مریضوں کی طرح ہے جن کی بھوک ختم ہوچکی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن میں دین کی طلب نہیں اور نہ انہیں اس سے کوئی دلچسپی ہے۔ تیسرا گروہ وہ ہے جن تک دینی علم کے نام پر وہ کچھ پہنچایا جاتا ہے جو معیاری دینی علم کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ ایسے میں ان تینوں کا اخلاقی انحطاط سے متاثر ہونا ایک لازمی امر ہے۔آئیے اپنے معاشرے کے ان تینوں گروہوں کا تفصیلی تجزیہ کرلیتے ہیں۔

پہلا طبقہ

مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد وہ ہے جو محض پیدائشی طور پر مسلمان ہے۔ان کے اردگرد اول تو دین موجود نہیں ہوتا۔ اور اگر ہو بھی تو وہ کچھ رسوم و عادات اور سنے سنائے توہمات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس طرح کے دین کی دو بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس دین کے بالعموم کوئی اخلاقی مطالبات نہیں ہوتے۔کچھ رسوم و عادات اور تہوار منانے اور ان پر پیسہ خرچ کرنے سے ہی سارے دینی مطالبات پورے ہوجاتے ہیں۔

    دوسرا یہ کہ اس طرح کا دین کسی غور و فکر کا مطالبہ نہیں کرتا، بلکہ سنی سنائی باتو ں اور توہمات اور قصے کہانیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔یہ چیزیں ذہن کو بند کردیتی ہیں۔ چنانچہ دین کبھی ان کی ذاتی دریافت یا تجربہ نہیں بنتا۔یہ ان کی سوچ اور فکر کا محور نہیں بنتا۔خدا پرستی اور آخرت کی تیاری ان کا مسئلہ نہیں ہوتی۔ان کی جتنی کچھ بھی دینداری ہوتی ہے وہ تہوار منالینے اور رسمی اعمال ادا کرنے سے پوری ہوجاتی ہے۔چنانچہ ایسے لوگوں کا نصب العین دنیا کمانا بن جاتا ہے ۔ وہ ساری زندگی دنیا کمانے کی جدو جہد میں لگے رہتے ہیں اور اس راہ میں ہر حد کو پامال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

    ان کے دل پر جوکچھ بوجھ ان حرکتوں کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے، اسے اتارنے کے لیے وہ دینداروں کو چندے دیدیتے ہیں، مساجد بنوادیتے ہیں، عرس و میلاد کا انعقاد کرتے ہیں ،محرم اور شب برات پر نیاز دیتے ہیں۔ یہ ہمارے عوام الناس کا طبقہ ہے۔

دوسرا طبقہ

دوسرا طبقہ وہ ہے جس میں دین کا کبھی ذکر ہوتا ہے اور نہ اس کی خواہش ہی رہ جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں دین کی طلب بالکل ختم ہوچکی ہے۔ یہ بس اس حد تک مسلمان ہوتے ہیں کہ مرتے وقت ان کا جنازہ پڑھا جاتا ہے اور ان کے مرنے والوں کی چتا جلانے کے بجائے انہیں دفنایا جاتا ہے۔ شادی کے وقت یہ آگ کے گرد پھیرے نہیں لگاتے، بلکہ ان کا نکاح پڑھایا جاتا ہے۔

    باقی دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ عام زندگی میں دینی شعار کی توہین کرنا یا کم از کم ان کی خلاف ورزی کرنا ان کے لیے معمول کی بات ہوتی ہے۔مذہبی لوگوں پر اعتراض کرنا اور دین کو ماضی کا ایک معاملہ سمجھنا ان کے شعور یا لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔دین سے بے تعلق ہوکر پہلے گروہ کی طرح ان لوگوں کی زندگی کا نصب العین بھی دنیا کمانا ہوتا ہے ۔ اوراخلاقی حدود کی پامالی میں ان کا رویہ بھی پہلے گروہ سے کوئی مختلف نہیں ہوتا۔ صرف اس فرق کے ساتھ کے یہ ہوس زر کی دوڑ میں دوسروں سے بہت آگے ہوتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو سب سے بڑھ کر مغرب کی ثقافتی یلغار کے اسیر ہوئے ہیں۔ اپنے لباس و آداب، رہن سہن، رنگ ڈھنگ اور طور طریقوں میں یہ سب سے بڑھ کر مغربی تہذیب کے دلدادہ ثابت ہوتے ہیں۔

    ایسے لوگوں کے سامنے اللہ رسول کی بات کیجیے۔ توحید و آخرت کا ذکر کیجیے۔ قرآن و سنت کا تذکرہ کیجیے۔عمل صالح اور اخلاق عالیہ کی دعوت دیجیے، تو آپ دیکھیں گے کہ گویا وہ بہرے ہیں جو سن نہیں سکتے۔ اندھے ہیں جو دیکھ نہیں سکتے۔جو شخص ان کے سامنے یہ باتیں کرتا ہے، وہ ان کی محفلوں کے لیے اجنبی ہوجاتا ہے ۔وہ صرف فیشن، سیر وتفریح، فلموں ڈراموں، بنگلہ، گاڑی اور انہی جیسی دیگر دنیوی چیزوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

    انہیں اپنے اطمینان قلب کے لیے ان رسمی اعمال کے کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی جو پہلے گروہ کا معمول ہے، بلکہ اکثر وہ اس توہم پرستی کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔تاہم زندگی میں ان کی گوٹ کہیں پھنس جائے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سخت آزمائش آ جائے تو ان کی دبی ہوئی مذہبی حس بیدار ہوتی ہے، مگر اپنی تسکین کے لیے پھر یہ بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو پہلے گروہ کا معمول ہوتا ہے۔ یہ طبقہ بالعموم ہماری اشرافیہ میں شامل ہے۔

تیسرا طبقہ

یہ تیسرا طبقہ ہمارا دینی طبقہ ہے اورزیادہ تر اس کا تعلق ہماری مڈل کلاس سے ہوتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی فطرت کی خوبی انہیں ان کے حالات سے اوپر اٹھاتی ہے اور توفیق الہی سے ان میں دین کا کچھ ذوق و شوق پیدا ہوجاتا ہے۔مگر اس کے بعد جو دینی علم ان تک پہنچتا ہے وہ ملاوٹ والی غذا کی طرح ہوتا ہے۔ یعنی دین کے نام پر وہ غذا دی جاتی ہے جو حقیقی دینی غذا نہیں۔اس غذامیں ایمانیات کے ساتھ توہمات بھی ہوتے ہیں۔ اعمال صالح کے ساتھ ظاہر پرستی کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔عبادات کے ساتھ بدعات اور خود ساختہ رسومات کی چاشنی بھی ہوتی ہے۔ اللہ اور رسول کی محبت کے ساتھ سیاسی انقلاب اور قومی مفادات کا تڑکہ بھی لگا ہوتا ہے۔

    یہ غذا ظاہر ہے کہ ویسے ہی دیندار پیدا کرتی ہے جیسے دیندار اس وقت نظر آتے ہیں۔اور وہی دینداری پیدا ہوتی ہے جس کا نقشہ ہم اوپر کھینچ آئے ہیں۔اسی طرح یہ لوگ مغرب کے سیاسی غلبے اورچند ظاہری اثرات کی تو مخالفت کرسکتے ہیں، مگر دنیا پرستی کی جو فکر مغرب کی اساس ہے یہ نہ اس کے اثرات سے اپنے لوگوں کو بچاسکتے ہیں اور نہ اخلاقی انحطاط ہی کے آگے کوئی بند باندھ سکتے ہیں۔

موجودہ دور کی بین الاقوامی سیاست میں کیا عوامل کار فرما ہیں؟
عصر حاضر کی اسلامی تحریک کو امریکی دانشور کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں؟ اسلام اور مغرب کے مابین موجودہ تصادم کی حرکیات کیا ہیں؟ اسلامی جماعتیں کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟ ان سوالات کا جواب مشہور امریکی مصنف جان ایل ایسپوزیٹو نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہ مضمون ان کی کتاب کے تعارف پر مشتمل ہے۔ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔

اصل کام

غذا والی مثال اگر ذہن میں ہے تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اصل مسئلہ ان تینوں طبقات کے رویوں میں نہیں بلکہ اس دینی فکر میں ہے جو اس وقت معاشرے میں موجود ہے۔ ان طبقات میں سے پہلے کو لے لیجیے تو اس کا مسئلہ اس تک اصل دین کا نہ پہنچنا ہے۔جبکہ دوسرے طبقہ کو دین سے اس لیے چڑ ہے کہ وہ اسے توہمات پر مبنی ایک غیر عقلی معاملہ سمجھتے ہیں جو موجودہ دور میںOut of Date ہوچکاہے اور زمانے کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ جبکہ تیسرا طبقہ سب سے زیادہ مظلوم ہے کہ وہ پوری رغبت اور اخلاص کے ساتھ جس چیز کو دین سمجھ کر اختیار کرتا اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتا ہے وہ اکثر ملاوٹ زدہ دین ہوتا ہے۔

    دین میں یہ ملاوٹ لوگوں نے جان بوجھ کر نہیں کی بلکہ یہ بعض علمی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ مجھے طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تومیں ان کی بھی تفصیل بیان کردیتا ۔اس لیے ان کے بیان کو تو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ اہم تر بات یہ ہے کہ الحمد للہ ہمارا دین محفوظ ہے۔قرآن و سنت کی شکل میں اسلام کے عقائد وعبادات،اس کے قوانین اور تعلیمات، اس کی دعوت اور پیغام سب کچھ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ دورِ جدید میں اس دین پر اعلیٰ درجہ کا علمی اور تحقیقی کام ہوگیا ہے۔ جس سے بہت سے علمی اور فکری مغالطے دور ہوگئے ہیں۔

    اصل کام یہ ہے کہ اس دین کو لوگوں تک پہنچایا جائے اور اس کے درست شعور کے ساتھ پہنچایا جائے۔اس کی اس تعلیم کے ساتھ پہنچایا جائے کہ دین رب کے رنگ میں رنگ جانے، اس کے اخلاق کو اختیار کرلینے، اس کی جنت کو اپنا مقصد بنالینے کا نام ہے۔ اسی کے نتیجے میں ہم نہ صرف مغربی تہذیب کے غلبے کا راستہ روک سکتے ہیں بلکہ اپنے اخلاقی انحطاط کو بھی کسی نہ کسی درجے میں کم کرسکتے ہیں۔

    شروع میں سلیو لیس لڑکی کا جو واقعہ میں نے بیان کیا تھا میں پھر قارئین کو اسے یاد دلانا چاہتا ہوں۔ اُس لڑکی کی گھبراہٹ یہ بتاتی ہے کہ ابھی تک ہمارے پاس کام کرنے کے بہت مواقع ہیں۔جن لوگوں نے مغربی تہذیب کے راستے پر قدم رکھا ہے یا اخلاقی انحطاط کا شکار ہوئے ہیں ان کی تعداد کم بھی ہے اور ان کا حوصلہ ابھی پست ہے۔ اگر آج بھی بھرپور طریقے سے دعوتی کام شروع کیا جائے اور دین کے اس پیغام کو عام کیا جائے، جس میں ایمان و اخلاق کی دعوت ہی سب کچھ ہے تو ابھی بھی ہم آنے والی تباہی سے بچ سکتے ہیں۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اپنے خیالات اور تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ مغرب کی تہذیبی یلغار کی کون سی صورتیں ہمیں درپیش ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ مصنف نے جن تین طبقوں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ہر ایک کی خصوصیات کی فہرست تیار کیجیے۔

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

مغرب کی ثقافتی یلغار اور ہمارا کردار
Scroll to top