معروف امریکی میگزین فارچون نے مارچ 2007 کی اپنی اشاعت میں ابو ظہبی کو دنیا کا امیر ترین ملک قرار دیا ہے۔ ابو ظہبی متحدہ عرب عمارات کی سات ریاستوں میں سے سب سے بڑی ریاست اور ملک کا دارالحکومت ہے۔ اس کی آبادی تقریباً دس لاکھ ہے جس میں سے صرف دو لاکھ مقامی ہیں جبکہ باقی لوگ تیل کی دولت نکلنے کے بعد روزگار کی تلاش میں یہاں آبسے ہیں۔ اس جریدے کے مطابق دنیا میں تیل کے کل ذخیرے کا دس فیصد حصہ متحدہ عرب عمارات میں پایا جاتا ہے اور اس میں سے 94 فیصد ابوظہبی میں ہے۔ تیل سے جو دولت حاصل ہورہی ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابوظہبی انوسٹمنٹ اتھارٹی نے ایک ہزار ارب ڈالر کی خطیر رقم دنیا بھر میں انویسٹ کررکھی ہے۔
اے مذہبی راہنماؤ! تم پر افسوس کہ تم مریدوں کی تلاش میں خشکی اور سمندر کا سفر کر لیتے ہو اور جب کوئی تمہارے جال میں پھنس جاتا ہے تو اسے اپنی نسبت دوگنا جہنمی بنا دیتے ہو۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام |
یہ رقم یقینا بہت زیادہ ہے۔ اس کو انویسٹ کرنے والے اس سے مزید منافع کمانا چاہ رہے ہیں۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پیسہ سے مزید پیسہ کما کر کیا کیا جائے گا کیونکہ اسی جریدے کے مطابق متحدہ عرب عمارات کی کل دولت اتنی ہے کہ ہر شہری کے حصے میں 17ملین ڈالر کی رقم آتی ہے۔ یعنی پاکستانی حساب سے ایک ارب روپے سے زائد رقم ہر آدمی کے حصے میں آتی ہے۔ جب اتنی دولت پہلے سے موجود ہے، جو زندگی کی ہر بنیادی اور اضافی ضرورت کے لیے کافی ہے تو مزید دولت سے سوائے ایک احساسِ دولتمندی کے ،اور کیا حاصل ہوگا۔
آج سے کچھ عرصہ قبل تک یہ لوگ صحراؤں میں گلہ بانی کرتے، اونٹ چراتے اور کھجوریں اگاتے تھے۔ ان کے امیر ترین لوگوں کی بساط مٹی کے گھروں تک تھی مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اس خطے کے باشندوں پر دولت کے دروازے کھول دیے۔ بدوؤں کے قدموں سے سیال سونا بہہ نکلا۔ دولت کے انبار لگ گئے۔ ننگے پاؤں بکریاں چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنانے لگے۔ دنیا کا ہر سامان تعیش اس خطے میں ملنے لگا اور عیش و عشرت کی ہر جگہ پر عرب نظر آنے لگے۔
اس دولت کے اثرات عربوں کے ساتھ ساتھ دیگر مسلم ممالک پر بھی پڑے۔ مثلاً ستر کی دہائی سے لے کر آج تک لاکھوں پاکستانیوں نے خلیجی ممالک میں روزگار حاصل کیا اور بلا مبالغہ کھربوں روپے کما کر پاکستان بھیجے جس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ ساٹھ کی دہائی میں 22 خاندانوں والا پاکستان اب وہ جگہ ہے جہاں ہزاروں، بلکہ لاکھوں ارب پتی پائے جاتے ہیں۔
اسلام میں جسمانی و نظریاتی غلامی کے انسداد کی تاریخ کیا اسلام نے غلامی کے خاتمے کے لئے کچھ اقدامات کیے یا اسلام غلامی کی حمایت کرتا ہے؟ موجودہ دور میں غلامی کی تحریک مغربی دنیا سے شروع کیوں ہوئی؟ مسلم دنیا میں غلامی کا خاتمہ کیسے اور کیوں ہوا؟ مسلم اور مغربی دنیاؤں میں موجود غلامی میں کیا فرق تھا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دنیا میں غلامی کے خاتمے سے متعلق کیا کردار ادا کیا؟ |
تیل سے حاصل ہونے والی یہ دولت مسلمانوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔اس کو دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ مسلمانوں میں لاکھوں ارب پتی پیدا کیے جائیں اور وہ اس پیسے سے عیش و عشرت کے سامان اکٹھے کریں۔ بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ قیامت کے آنے سے قبل اسلام کا پیغام دنیا بھر میں پھیلنے لگے۔ یہ کام اب کسی نبی نے نہیں کرنا بلکہ امت مسلمہ ہی کے ذریعے سے سرانجام پانا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے سامراجی طاقتوں کے شکنجے سے تمام مسلم دنیا کو آزاد کرایا اور پھر مسلمانوں کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگادیے تاکہ وہ دور جدید میں دوسری اقوام کا مقابلہ کرسکیں۔
مسلمان اگر اللہ تعالیٰ کے اس منصوبے کو سمجھتے تو وہ ہزار ارب ڈالر مغربی ممالک میں انویسٹ کرنے کے بجائے اسے مسلمانوں کی جہالت اور غربت دور کرنے پر خرچ کرتے۔ یہ ہزار ارب ڈالر کی رقم اتنی زیادہ ہے کہ پاکستان جیسے 50ملکوں کا سالانہ بجٹ اس میں بن سکتا ہے۔ اس رقم سے جب لوگوں کو تعلیم ملتی، بنیادی ضروریاتِ زندگی حاصل ہوتیں، روزگار ملتا تو ان میں اتنا شعور بھی پیدا ہوجاتا کہ دین کے حوالے سے دنیا میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں۔ جہالت ختم ہونے سے تعصبات ختم ہوتے۔ قرآن کا اصل پیغام عام ہوتا۔ تحمل اور برداشت پیدا ہوجاتی۔
آج بھی اس معاملے میں دیر نہیں ہوئی ہے۔ عرب نہ سہی اگر پاکستان کے امیر افراد کی ایک قابل ذکر تعداد یہ طے کرلے کہ اسے اپنی اضافی دولت خدا کے دین اور امت کی بہبود کے لیے وقف کرنی ہے تو صرف ایک نسل کے بعد سب کچھ تبدیل ہوجائے گا۔ لیکن لوگ اگر اپنی دولت سے مزید دولت کے انبار جمع کرنے کی روش پر قائم رہے تو بلا شک و شبہ ایک دفعہ پھر مسلمانوں پر وہی ذلت و رسوائی اور غلامی و بے کسی مسلط ہوجائے گی جس کا وہ پچھلی صدی کے آغاز پر شکار تھے۔
مسلمانوں اور عربوں کے پاس اس آنے والی ذلت سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ ہزار ارب ڈالر کی رقم کو اللہ تعالیٰ کے لیے انویسٹ کردیں۔ اس کے نتیجے میں دولت کے ساتھ انہیں دنیا کااقتدار اور عزت بھی مل جائے گی، وگرنہ جو کچھ ہے، جلد ہی وہ اس سے بھی ہاتھ دھولیں گے۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
اپنے خیالات اور تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی نے ہمیں جو دولت عطا کی ہے، کیا ہم اس کا کچھ حصہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کی غربت اور جہالت کے خاتمے کے لئے استعمال کرتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ دنیا کے کسی بھی انوسٹمنٹ فنڈ کی شرح منافع کا تقابل آخرت کے انوسٹمنٹ فنڈ کے ریٹ آف ریٹرن سے کیجیے۔
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز