دین دار افراد کے لئے معاش اور روزگار کے مسائل پر تبصرہ

ڈئیر مبشر نذیر صاحب

آپ نے اپنی ایک تحریر میں یہ جملہ لکھا ہے، اس پر میرا تبصرہ یہ ہے۔

انسان کو ایسے دینی حلقوں سے وابستگی اختیار کرنی چاہئے جن کے بارے میں معاشرے میں اچھا تاثر پایا جاتا ہو۔

انسان کو ایسے دینی حلقوں سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے جو قران اور سنت پر قائم ہوں – بیشک معاشرے میں ان کے بارے میں منفی رائے رکھی جاتی ہو – اگر آپ کے اصول کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کے ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کری جب پوری قوم کی اور ان کے دینی حلقوں کی مخالفت کری اور اس عقیدے سے چمٹے رہے جس کی پوری قوم مزمت کرتی تھی – محترم زیادہ لوگوں یا معاشرے کے پیچھے چلنے سے تو آپ نے خود اپنے ایک مضمون میں منع فرمایا تھا جو ابھی ابھی میں نے اتفاقا پڑھا ہے – پھر تو یہ بھی ذہنی غلامی ہی ہوئی کے میں معاشرے کی ان قدروں پر چلوں جن کا نہ اللہ نے حکم دیا نہ رسول نے اور نہ ہی کبھی میرے ننھے منے سے بھیجے نے۔

 معاشرۃ / سوسائٹی / جمہوریت بھی نئے دور کے بت ہی ہیں جو تلتے نہیں ہیں بس گنے جاتے ہیں-  اور ذہنی پسماندگی کی بدترین مثال ہیں – یہ کیا بات ہوئی کے اگر میرے پڑوس میں دس گدھے رہتے ہوں جو ڈھینچون ڈھینچوں کو اچھا سمجھتے ہوں تو میں بھی کیا ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگوں – صرف اس لیے کے گدھوں کے معاشرے میں میرے اچھا تاثر قائم ہو جاَے ؟ اور یہ کیا بات ہوئی کے امتحان کے پرچے میں پورے نمبر لینے کیلئے میں یہ لکھوں کے شروع میں ہم بندر ہوتے تھے آہستہ آہستہ انسان بن گئے اور اب آہستہ آہستہ پھر بندر بنتے جارہے ہیں جب کے یہ بات میرے مذہب کے بھی مخالف ہے اور میری عقل کے بھی

ہوسکتا ہے کہ ابراہیم اکیلا ہو مگر ہو حق پر – اور موسی اور ہارون ہوں مگر ہوں حق پر – اور شاید کوئی ‘دہشتگرد’ ہو مگر ہو حق پر – کیا نہیں ہوسکتا ؟

ذیشان ضیا

مسقط، عمان

مئی 2010

ڈئیر ذیشان بھائی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وربرکاتہ

آپ کی ای میل کا بہت بہت شکریہ۔ آپ نے جس جملے کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے، اس میں واقعی کچھ ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ میری تحریر کی خامی تھی۔ آپ نے توجہ دلائی، بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔

میں اس میں مزید کچھ جملوں کا اضافہ کر رہا ہوں تاکہ بات بالکل واضح ہو جائے۔ سیاق و سباق کے ساتھ اضافہ شدہ عبارت یہ ہو گی:

بعض دینی جماعتوں کی انتہا پسندی اور چند غلط اقدامات کی وجہ سے معاشرے میں ان کا منفی امیج پایا جاتا ہے۔ ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی عملی زندگی میں اپنی جماعتوں کے مخالفین یا ان کے بارے میں منفی تاثر رکھنے والے افراد کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری رائے میں ایسی جماعتوں میں شمولیت سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ انسان کو ایسے دینی حلقوں سے وابستگی اختیار کرنی چاہئے جن کے بارے میں معاشرے میں اچھا تاثر پایا جاتا ہو۔ اچھے تاثر سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ معاشرے کی ہر پسند و ناپسند کے ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے ہوں بلکہ اچھے تاثر کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ دین پر عمل کے اعتبار سے معاشرے میں اچھے سمجھے جاتے ہوں۔  ان کا اخلاق و کردار اتنا مضبوط ہو کہ دشمن بھی ان کے کردار کی مضبوطی کی گواہی دے۔ ان کی محفلوں میں بیٹھنے سے اللہ، اس کے رسول اور انسانیت کی محبت کی خوشبو آتی ہو۔ وہ کسی کے خلاف نفرت پھیلانے میں مشغول نہ ہوں۔ ان کے ہاں انسانوں کی کردار سازی کی جاتی ہونہ کہ کردار کشی۔ وہ انسانوں کی  اخلاقی تربیت میں مشغول ہوں نہ کہ ان کی برین واشنگ میں۔

امید ہے کہ اس سے بات واضح ہو جائے گی۔ آپ کو چونکہ اس موضوع میں دلچسپی ہے، اس لئے اگر میری اس کتاب کا مطالعہ کر کے اس پر اپنی رائے سے نوازیں تو بہت مہربانی ہو گی۔

مجھے آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے کہ بھیڑ چال کے پیچھے چلنا ہرگز دین کا تقاضا نہیں ہے۔ اس کے برعکس بلا خوف لومۃ لائم حق کا علم بلند کرنا خواہ معاشرہ اس کی حمایت کرے یا مخالفت، ہمارے دین کا تقاضا ہے۔ یہی انبیاء کرام علیہم السلام نے کیا۔

اصل بات جس پر میں زور دینا چاہتا ہوں، وہ اخلاق و کردار کی تربیت ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے کردار کا یہ عالم تھا کہ ان سے شدید اختلاف رکھنے والے بھی ان کے کردار کے معترف تھے۔ آپ کی ذات پر دشمنوں کے اس اعتماد کا یہ عالم تھا کہ ہجرت کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن آپ پر حملہ کرنے والے تھے مگر اس وقت بھی ان کی امانتیں آپ کے پاس موجود تھیں۔ آپ نے اسے ٹھیس نہیں پہنچائی بلکہ جان کے خطرے کے باوجود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ امانتیں لوٹانے پر مامور فرمایا۔

ایک بات عرض کرتا چلوں کہ “دہشت گرد” کبھی حق پر نہیں ہو سکتا۔ بے گناہ بوڑھوں، بچوں، خواتین اور مردوں کو نشانہ بنانا ایسا جرم ہے جس کی کوئی گنجائش نہ دین میں موجود ہے اور نہ انسانیت میں ۔ قرآن مجید نے تو ایک انسان (خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم) کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ دہشت گرد، ایک انسان کو تو کیا بیسیوں انسانوں کو قتل کرتا ہے جس کی سزا اسے اللہ تعالی سے مل کر رہے گی۔

اس وقت جو لوگ اسلام کے نام پر دہشت گردی کا طوفان برپا کیے ہوئے ہیں، وہ دین کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ ان کی کاوشوں کا اہل مغرب کو تو کیا نقصان پہنچے گا، سب سے بڑا نقصان خود اسلام اور امت مسلمہ کو پہنچ رہا ہے۔ یہ لوگ یا تو اسلام دشمن ہیں یا پھر اسلام دشمنوں کے ہاتھوں دانستہ و ناداستہ طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

ایسا ضرور ممکن ہے کہ کوئی دہشت گردی میں ملوث نہ ہو اور اس پر اس کا جھوٹا الزام لگ جائے۔ ایسی صورت میں اس شخص یا گروہ کو چاہیے کہ ہر ممکن طریقے سے اس الزام کو دھونے کی کوشش کرے۔ کم سے کم اتنا تو ہر کوئی کر سکتا ہے کہ دہشت گردی کی غیر مشروط مذمت کی جائے اور جو لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان کے سائے سے بھی دور رہا جائے۔ اگر کوئی زبانی مذمت پر بھی تیار نہ ہو، اور بدستور دہشت گردوں سے روابط رکھے، تو پھر ایسے شخص، جماعت یا ادارے کو دور سے ہی سلام کرنا ضروری ہے۔

دہشت گردی ایسا جرم ہے جو اسلام اور امت مسلمہ کے سر پر اسلام کے دانا دشمنوں اور نادان دوستوں کی جانب سے تھوپ دیا گیا ہے۔ اس کے خلاف زبانی، قلمی اور عملی جہاد وقت کی ضرورت ہے خواہ اس کے لئے ہمیں معاشرے کی کتنی ہی مخالفت کیوں نہ سہنی پڑے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

دین دار افراد کے لئے معاش اور روزگار کے مسائل پر تبصرہ
Scroll to top