حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات
اس آیت کی تفسیر کے بارے میں مسلمانوں کے قدیم و جدید مفسرین میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ اس ضمن میں دو بڑے نقطہ ہائے نظر موجود ہیں: ایک نقطہ نظر دور جدید کے بعض مفکرین کا ہے اور دوسرا نقطہ نظر روایتی اہل علم کا۔
جدید اہل علم کا نقطہ نظر
دور جدید کے بعض اہل علم کے نقطہ نظر کے مطابق یہ آیت، اس بات کی دلیل ہے کہ دین اسلام نے جنگی قیدیوں سے صرف اور صرف دو طرح سے معاملہ کرنے کی اجازت دی ہے۔ یا تو انہیں بطور احسان کے چھوڑ دیا جائے یا پھر انہیں فدیہ لے کر آزاد کر دیا جائے۔ اس طریقے سے اسلام نے جنگی قیدیوں کو غلام بنا لینے کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامل ایک مفکر لکھتے ہیں۔
زبان کے ادا شناس جانتے ہیں کہ فداء کے معنی اگر اس میں فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے ہیں تو ‘اما’ کے ساتھ اس کے مقابل میں ہونے کی وجہ سے ‘منا’ کے معنی بھی احسان کے طور پر رہا کر دینے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتے۔ ‘منا’ یہاں فعل محذوف کا مصدر ہے اور قتل کے مقابلے پر نہیں بلکہ فدیے کے مقابل میں آیا ہے۔ اس لئے یہ بات بالکل قطعی ہے کہ اس کے معنی بلامعاوضہ رہا کر دینے ہی کے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ جنگ کے قیدیوں کو مسلمان چھوڑ بھی سکتے تھے، ان سے فدیہ بھی لے سکتے تھے اور جب تک وہ قید میں رہتے، قرآن مجید کی رو سے، ملک یمین کی بنا پر ان سے کوئی فائدہ بھی اٹھا سکتے تھے، مگر انہیں قتل کرنے یا لونڈی غلام بنا کر رکھنے کی گنجائش اس حکم کے بعد ان کے لئے باقی نہیں رہی۔ (جاوید احمد غامدی، میزان، قانون جہاد)
روایتی نقطہ نظر
روایتی اہل علم کا نقطہ نظر اس معاملے میں مختلف ہے۔ قرون وسطی کے بعض شدت پسند مفسرین میں سے ایک چھوٹے سے گروہ نے اگرچہ اس آیت کو سورہ توبہ کی آیات سے منسوخ قرار دیا ہے تاہم ان کے نقطہ نظر کو امت مسلمہ نے قبول نہیں کیا۔ قدیم اہل علم کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق یہ آیت محکم ہے اور اس کا حکم قیامت تک کے لئے باقی ہے۔
وذهب أكثر العلماء إلى أن الآية محكمة والإمام بالخيار في الرجال البالغين من الكفار إذا أسروا بين أن يقتلهم أو يسترقهم أو يمن عليهم فيطلقهم بلا عوض أو يفاديهم بالمال أو بأسارى المسلمين وإليه ذهب ابن عمر وبه قال الحسن وعطاء وأكثر الصحابة والعلماء وهو قول الثوري والشافعي وأحمد وإسحاق. قال ابن عباس : لما كثر المسلمون واشتد سلطانهم أنزل الله عز وجل في الأسارى ) فإما منا بعد وإما فداء ( وهذا القول هو الصحيح ولأنه به عمل النبي ( صلى الله عليه وسلم ) والخلفاء بعده۔ (تفسير خازن؛ تفسير بغوي؛ سورة محمد 47:4)
اکثر اہل علم کا یہی نقطہ نظر ہے کہ یہ آیت محکم ہے۔ مسلمانوں کے حکمران کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کفار کے بالغ مردوں کو، جب وہ قیدی ہو کر آئیں، تو انہیں قتل کیا جائے، یا غلام بنایا جائے، یا ان پر احسان رکھتے ہوئے بغیر کسی معاوضے کے انہیں چھوڑ دیا جائے یا ان کا فدیہ مال یا مسلمانوں کے جنگی قیدیوں کی رہائی کی صورت میں لے لیا جائے۔ ابن عمر، حسن بصری، عطاء، اکثر صحابہ اور اہل علم کا یہی نقطہ نظر رہا ہے۔ امام ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق کی بھی یہی رائے ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں، جب مسلمان کثیر تعداد میں ہو گئے اور ان کی حکومت مضبوط ہو گئی تو اللہ عزوجل نے جنگی قیدیوں کے بارے میں یہ حکم نازل فرمایا کہ یا تو انہیں احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر رہا کر دو۔ یہی رائے درست ہے کیونکہ اسی پر نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے بعد کے خلفاء کا عمل رہا ہے۔
جلیل القدر تابعین کا بھی یہی موقف تھا کہ جنگی قیدیوں کو بلامعاوضہ یا فدیہ لے کر رہا کرنا ہی قرآن کا بنیادی حکم ہے۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعَطَاءٍ ، قَالاَ فِي الأَسِيرِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ : يُمَنَّ عَلَيْهِ ، أَوْ يُفَادَى. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33922)
حسن بصری اور عطا خراسانی (تابعین کے دو بڑے اور مشہور علماء) مشرکین کے قیدیوں کے متعلق کہا کرتے تھے، یا تو انہیں بطور احسان رہا کیا جائے یا پھر ان سے فدیہ لے لیا جائے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ؛ فِي الأَسِيرِ : يُمَنَّ عَلَيْهِ ، أَوْ يُفَادَى بِهِ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33925)
شعبی (تابعین کے ایک جلیل القدر عالم) قیدیوں کے متعلق کہا کرتے تھے، یا تو انہیں بطور احسان رہا کیا جائے یا پھر ان سے فدیہ لے لیا جائے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَاءٍ : نِسَاءٌ حَرَائِرُ أَصَابَهُنَّ الْعَدُوُّ ، فَابْتَاعَهُنَّ رَجُلٌ , أَيُصِيبُهُنَّ ؟ قَالَ : لاَ , وَلاَ يَسْتَرِقُّهُنَّ ، وَلَكِنْ يُعْطِيهِنَّ أَنْفُسَهُنَّ بِاَلَّذِي أَخَذَهُنَّ بِهِ ، وَلاَ يَزِدْ عَلَيْهِنَّ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 34203)
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطا سے پوچھا، آزاد خواتین اگر دشمن کے قبضے میں چلی جائیں اور دشمن سے انہیں مسلمانوں کا کوئی شخص خرید لے تو کیا وہ اس کی لونڈیاں بن جائیں گی؟ انہوں نے کہاِ کہ ہرگز نہیں، وہ بالکل لونڈی نہیں بنائی جائیں گی۔ ہاں جو رقم اس شخص نے ادا کی ہے، وہ ان خواتین (یا ان کے وارثوں یا بیت المال) سے لے لی جائے گی اور اس رقم میں کوئی منافع شامل نہیں کیا جائے گا۔
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَبِي مُعَاذٍ ، عَنْ أَبِي حَرِيزٍ ؛ أَنَّهُ سَمِعَ الشَّعْبِيَّ ، يَقُولُ : مَا كَانَ مِنْ أُسَارَى فِي أَيْدِي التُّجَّارِ ، فَإِنَّ الْحُرَّ لاَ يُبَاعُ ، فَارْدُدْ إِلَى التَّاجِرِ رَأْسَ مَالِه. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33211)
شعبی کہا کرتے تھے، تاجروں کے ہاتھ میں جو قیدی ہیں، ان میں سے کسی آزاد کو نہ بیچا جائے۔ تاجر کو اس کی اصل رقم واپس کر دی جائے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إبْرَاهِيمَ ؛ فِي أَهْلِ الْعَهْدِ إِذَا سَبَاهُمَ الْمُشْرِكُونَ ، ثُمَّ ظَهَرَ عَلَيْهِمَ الْمُسْلِمُونَ ، قَالَ : لاَ يُسْتَرَقُّونَ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33939)
(جلیل القدر تابعی عالم) ابراہیم نخعی (غیر مسلم) اہل عہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر دشمن مشرک انہیں غلام بنا لیں اور اس کے بعد وہ مسلمانوں کے قبضے میں آ جائیں تو انہیں غلام نہ بنایا جائے۔
اس نقطہ نظر کے حاملین کے نزدیک جنگی قیدیوں کو احسانا آزاد کر دینے یا فدیہ لینے کے علاوہ استثنائی صورتوں میں مسلم حکومت کو دو اور باتوں کا اختیار بھی ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ ان جنگی قیدیوں کو قتل کر سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ انہیں غلام بھی بنا سکتے ہیں۔ ایسا ضرور ہے کہ قرآن کے حکم کے مطابق جنگی قیدیوں کو بلامعاوضہ آزاد کر دینا یا فدیہ لے کر چھوڑ دینا ہی ان کے نزدیک اصل حکم ہے۔ انہیں قتل کرنے یا غلام بنانے کی اجازت محض استثنائی حالات کے تحت دی گئی ہے۔
قتل کا معاملہ اسی صورت میں ہو گا جب جنگی قیدی دشمن کا کوئی ماسٹر مائنڈ قسم کا فوجی ہو یا اس نے بہت سے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہو۔ ایسے شخص کو آزاد کر دینے کی صورت میں یہ مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ دوبارہ افواج کو منظم کر کے ایک نئی جنگ کو مسلط کر دے۔
اسلام کا قانون یہ قرار پایا کہ جو لوگ جنگ میں گرفتار ہوں ان کو یا تو احسان کے طور پر رہا کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑا جائے یا دشمن کے مسلمان قیدیوں سے ان کا مبادلہ کر لیا جائے۔ لیکن اگر یونہی رہا کر دینا جنگی مصالح کے خلاف ہو، اور فدیہ وصول نہ ہو سکے، اور دشمن اسیران جنگ کا مبادلہ کرنے پر بھی رضامند نہ ہو تو مسلمانوں کو حق ہے کہ انہیں غلام بنا کر رکھیں۔ البتہ اس قسم کے غلاموں کے ساتھ انتہائی حسن سلوک اور رحمت و رافت کے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے، ان کو تعلیم و تربیت دینے اور انہیں سوسائئی کے عمدہ افراد بنانے کی ہدایت کی گئی ہے اور مختلف صورتیں ان کی رہائی کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ (سید ابو الاعلی مودودی، تفہیمات، جلد دوم)
جنیوا کنونشن کے بعد جنگی قیدیوں کا حکم
ان دونوں میں سے جس نقطہ نظر کو بھی لیا جائے، اس بات پر اب مسلمان اہل علم متفق ہو چکے ہیں کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنا لئے جانے کی یہ صورت اسی دور میں تھی جب دنیا کی اقوام ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کو غلام بنایا کرتی تھیں۔ اس قانون کی حیثیت ایک بین الاقوامی جنگی قانون کی سی تھی۔ مسلمانوں کے لئے یک طرفہ طور پر تو یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے فوجیوں کو تو دشمن کے پاس بطور غلام رہنے دیں لیکن دشمن کے فوجیوں کو بطور احسان کے آزاد کرتے رہیں۔
موجودہ دور میں تمام اقوام عالم اس بات پر متفق ہو چکی ہیں کہ ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کو غلام نہیں بنایا جائے گا، اس وجہ سے اب مسلمانوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسروں کے جنگی قیدیوں کو غلام بنانا شروع کر دیں۔ روایتی نقطہ نظر کے حامل سید قطب لکھتے ہیں۔
وقد سبق لنا في مواضع مختلفة من هذه الظلال القول بأنه كان لمواجهة أوضاع عالمية قائمة , وتقاليد في الحرب عامة . ولم يكن ممكنا أن يطبق الإسلام في جميع الحالات النص العام: (فإما منا بعد وإما فداء). . في الوقت الذي يسترق أعداء الإسلام من يأسرونهم من المسلمين . ومن ثم طبقه الرسول [ ص ] في بعض الحالات فأطلق بعض الأسارى منا . وفادى ببعضهم أسرى المسلمين , وفادى بعضهم بالمال . وفي حالات أخرى وقع الاسترقاق لمواجهة حالات قائمة لا تعالج بغير هذا الإجراء . فإذا حدث أن اتفقت المعسكرات كلها على عدم استرقاق الأسرى , فإن الإسلام يرجع حينئذ إلى قاعدته الإيجابية الوحيدة وهي: (فإما منا بعد وإما فداء) لانقضاء الأوضاع التي كانت تقضي بالاسترقاق . فليس الاسترقاق حتميا , وليس قاعدة من قواعد معاملة الأسرى في الإسلام . (سيد قطب، تفسير فی ظلال القرآن؛ سورة محمد 47:4)
ہماری اس تفسیر ظلال میں مختلف مقامات پر یہ بحث گزر چکی ہے کہ (عہد رسالت اور خلفاء راشدین کے دور میں) غلام بنائے جانے کا معاملہ بین الاقوامی جنگی قانون کے تحت تھا۔ ہر قسم کے حالات میں اس عام صریح حکم کہ قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر آزاد کر دو پر عمل کرنا ناممکن تھا۔ اس دور میں جب اسلام کے دشمن مسلمان قیدیوں کو غلام بنا کر رکھا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں اس پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض حالات میں بعض قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دیا گیا۔ بعض قیدیوں کو مسلمان قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا گیا اور بعض قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا گیا۔ بعض ایسے حالات میں غلام بھی بنائے گئے جس کے بغیر چارہ یہ نہ تھا۔ اس کے بعد دنیا بھر کی افواج (اور حکومتیں) اس بات پر متفق ہو گئی ہیں کہ جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنایا جائے گا تو مسلمان بھی اپنے اصل قانون کی طرف لوٹ جائیں گے کہ قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر آزاد کر دو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب وہ حالات ہی ختم ہو چکے ہیں جن میں غلام بنائے جاتے تھے۔ اب غلام بنائے جانے کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور غلام بنا لیا جانا اسلام کا قانون نہیں ہے۔
Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.