سورہ واقعہ کی ایک آیت میں اللہ نے مطہرون فرشتوں کا ذکر کیا ہے۔
إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ﴿٧٧﴾ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ﴿٧٨﴾ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ﴿٧٩﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ
یقیناً یہ عظمت والا قرآن ہے جو کہ چھپی ہوئی کتاب میں ہے۔ اسے مطہرون کے سوا کوئی نہیں چھوتا۔ یہ جہانوں کے رب کی جانب سے نازل شدہ ہے۔ (سورۃ واقعہ)
میں جانتا ہوں یہ آیت اپنے پورے سیاق میں لوح محفوظ میں لکھے ہوئے قرآن کا ذکر کر رہی ہے مگر کچھ لوگ اس آیت سے قرآن کو بھی بغیر وضو کے چھونے کی ممانعت کے احکام نکال لیتے ہیں مجھے اس کی کچھ تفصیل درکار ہے ایسی کوٴی حدیث تو صریحا نہیں ہے البتہ ایک واقعہ حضرت عمر کے اسلام لانے کا ہے جس میں اُن کی بہن انھیں یہ آیت سنا کر پہلے وضو کرنے کا کہتی ہیں ، دوسر ے یہ کہ چاروں ائمہ کرام کا اس میں کیا فیصلہ ہے۔
اللہ نگہبان
کامران عثمانی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس آیت سے یہ استدلال درست نہیں ہے کہ قرآن مجید کو بلاوضو مس نہ کیا جائے۔ آیت کا سیاق و سباق یہ ہے کہ قرآن ایک محفوظ کتاب ہے اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوتی۔ اسے صرف پاکیزہ فرشتے ہی مس کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں فقہی مسئلہ بیان نہیں ہو رہا بلکہ مشرکین کے اعتراضات کی تردید کی جا رہی ہے۔
فقہاء نے قرآن کریم کو بلا طہارت مس کرنے کے بالعموم ناجائز قرار دیا ہے۔ اس کی بنیاد چند احادیث ہیں جو میں موسوعۃ فقہیہ سے درج کر رہا ہوں۔
حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال : لاَ يَمَسُّ الْقُرْآنَ إِلاَّ طَاهِرٌ (2) وَلأَِنَّ تَعْظِيمَ الْقُرْآنِ وَاجِبٌ وَلَيْسَ مِنَ التَّعْظِيمِ مَسُّ الْمُصْحَفِ بِيَدٍ حَلَّهَا الْحَدَثُ ، وَكِتَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنْ لاَ تَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلاَّ عَلَى طُهْرٍ (3)
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “قرآن کو پاکیزہ شخص ہی مس کرے۔” اس کی وجہیہ ہے کہ قرآن کی تعظیم واجب ہے اور ناپاک ہاتھ سے قرآنی نسخہ کو چھونا تعظیم کے خلاف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو خط میں لکھا کہ قرآن کو صرف پاک شخص کے سوا اور کوئی نہ چھوئے۔”
(2) حديث ابن عمر : لا يمس القرآن إلا طاهر . أورده الهيثمي في مجمع الزوائد ( 1 / 276 ) وقال : رواه الطبراني في الكبير والصغير ورجاله موثقون
(3) المغني لابن قدامة 1 / 147 ، وشرح السنة للبغوي 2 / 48 ، ونيل الأوطار 1 / 207 وحديث : عمرو بن حزم أن لا تمس القرآن إلا على طهر. أخرجه الدارقطني ( 1 / 121 ) وقال : مرسل ورواته ثقات .
احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ ان کے راوی ثقہ ہیں۔ میں نے ان احادیث کی سند پر تحقیق نہیں کی ہے۔ احتیاط اور ادب کا تقاضا یہی ہے کہ قرآن کو مس کرتے ہوئے وضو کر لیا جائے۔ تمام مکاتب فکر کے فقہاء نے البتہ اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ تعلیم و تعلم کے لئے اگر بچے قرآن کو بلاوضو مس کر لیں تو یہ جائز ہے۔
ال الْحَنَفِيَّةُ : يَجُوزُ لِلصَّبِيِّ مَسُّ الْقُرْآنِ أَوْ لَوْحٍ فِيهِ قُرْآنٌ لِلضَّرُورَةِ مِنْ أَجْل التَّعَلُّمِ وَالْحِفْظِ وَلأَِنَّ الصِّبْيَانَ لاَ يُخَاطَبُونَ بِالطَّهَارَةِ وَلَكِنْ أُمِرُوا بِهِ تَخَلُّقًا وَاعْتِيَادًا (1) .
حنفی علماء کہتے ہیں کہ بچے کے لیے قرآن مجید یا ایسی تختی کو مس کرنا جس پر قرآن لکھا ہو، (بلا وضو) جائز ہے ۔ یہ ان کی تعلیمی اور حفظ کی ضرورت کی وجہ سے ہے کیونکہ بچوں کو طہارت کے احکام کا مخاطب نہیں بنایا جا سکتا ہے لیکن انہیں عادت ڈالنے کے لیے اس کا کہا جائے گا۔
وَقَال مَالِكٌ فِي الْمُخْتَصَرِ : أَرْجُو أَنْ يَكُونَ مَسُّ الصِّبْيَانِ لِلْمَصَاحِفِ لِلتَّعْلِيمِ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ جَائِزًا ، وَقِيل : إِنَّ الصَّغِيرَ لاَ يَمَسُّ الْمُصْحَفَ الْكَامِل وَهُوَ قَوْل ابْنِ الْمُسَيَّبِ (2)
امام مالک نے مختصر میں اپنی رائے بیان کی ہے: مجھے امید ہے کہ بچوں کی تعلیم کے لیے بغیر وضو (قرآن کو) مس کرنا جائز ہے۔ یہ رائے بھی بیان کی گئی ہے کہ بچہ پورے مصحف کو مس نہیں کر سکتا۔ یہ ابن مسیب کی رائے ہے۔
وَقَال الشَّافِعِيَّةُ : لاَ يُمْنَعُ صَبِيٌّ مُمَيِّزٌ مِنْ مَسٍّ وَحَمْل مُصْحَفٍ أَوْ لَوْحٍ يَتَعَلَّمُ مِنْهُ لِحَاجَةِ تَعَلُّمِهِ وَمَشَقَّةِ اسْتِمْرَارِهِ مُتَطَهِّرًا ، وَقَال النَّوَوِيُّ : أُبِيحَ حَمْل الصِّبْيَانِ الأَْلْوَاحَ لِلضَّرُورَةِ لِلْحَاجَةِ وَعُسْرِ الْوُضُوءِ لَهَا (3)
شافعی علماء کہتے ہیں کہ بچے کو (قرآن کے) مس اور مصحف کو اٹھانے یا تختی کو چھونے سے منع نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ اس کی تعلیمی ضرورت ہے اور ہمیشہ پاکیزہ رہنا مشکل ہوتا ہے۔ امام نووی کہتے ہیں: بچوں کا (قرآنی تحریر والی) تختیاں اٹھانا ضرورتاً جائز ہے اور وضو میں تنگی ہے۔
وَقَال الْحَنَابِلَةُ : وَفِي مَسِّ صِبْيَانِ الْكَتَاتِيبِ أَلْوَاحَهُمُ الَّتِي فِيهَا الْقُرْآنُ وَجْهَانِ أَحَدُهُمَا : الْجَوَازُ لأَِنَّهُ مَوْضِعُ حَاجَةٍ فَلَوِ اشْتَرَطْنَا الطَّهَارَةَ
حنبلی علماء کہتے ہیں کہ بچوں کا مدرسوں میں ایسی تختیوں کو چھونا جس میں قرآن لکھا ہو، کے بارے میں دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ یہ جائز ہے کیونکہ یہ ضرورت کا مقام ہے، اگر طہارت کی شرط لگائی جائے تو بڑی مشکل ہو جائے گی۔ (موسوعہ فقہیہ کویتیہ، باب مس)
بچوں کی اس ضرورت پر قرآن مجید کے عدالتوں اور دفتروں میں استعمال کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہر انسان کے لیے ہر وقت باوضو رہنا بہت مشکل ہے۔ اس وجہ سے عدالت، دفتر اور کام کی جگہ پر قرآن کو بلا وضو مس کرنے کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ شرط لگانے سے بہت زیادہ تنگی پیدا ہو جاتی ہے جو دین کو خود مطلوب نہیں ہے۔ ہاں ادب کا تقاضا یہی ہے کہ وضو کر کے ہی اسے مس کیا جائے اگر ایسا کرنا ممکن ہو۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.