اسلام و علیکم
ان سوالات کے جواب درکار ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔ کیا بیوی مہر کی رقم کو اپنی خوشی سے گھر یا کار وغیرہ پر لگا سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔ ایک ماں نے اپنے مکان کو چوبیس لاکھ میں بیچا ہے اور اب وہ اسے شریعت کے مطابق تقسیم کرنا چاہ رہی ہیں۔ ان کے چھ بیٹے اور سات بیٹیاں ہیں، ہر ایک کا حصہ کیا ہو گا؟
والسلام
عاصم اشرف
کراچی، پاکستان
فروری 2012
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عاصم بھائی
کیا احوال ہیں؟ جوابات یہ ہیں۔
۔۔۔۔۔ بیوی اپنے حق مہر کو اپنی مرضی سے جہاں چاہے خرچ کرے، چاہے گھر میں یا کسی اور چیز میں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ شوہر یا اس کے اہل خانہ بالعموم خواتین کو نفسیاتی ہتھکنڈوں سے مجبور کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی خوشی سے خرچ کر رہی ہے۔ اس میں بالعموم پیار محبت سے نفسیاتی دباؤ ڈال کر یا روٹھ جانے کی ایکٹنگ کر کے ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل جائز نہیں ہے۔ اپنی خوشی یا مرضی وہ ہے جو ہر اعتبار سے آزادانہ ہو اور خاتون کو کسی کے ناراض ہونے کا ڈر نہ ہو۔
۔۔۔۔۔ ترکے والے سوال میں ایک مسئلہ ہے۔ خاتون ابھی زندہ ہیں اور وراثت کے قوانین کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص فوت ہو جائے۔ مکان اگر ان کی ملکیت ہے تو وہ جسے جتنا چاہے دیں، اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں انہیں اپنی اولاد میں انصاف کرنا چاہیے۔ یہ وراثت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ان کی دی ہوئی رقم محض تحفہ ہی ہو گی۔
اگر وہ یہ تحفہ قانون وراثت کے حصوں کی بنیاد پر دینا چاہیں تو بھی ان کی مرخی ہے۔ اسے اس طرح تقسیم کر لیں کہ کل رقم کو 19 پر تقسیم کر لیں۔ پھر ہر لڑکی کو ایک حصہ اور ہر لڑکے کو دو حصے دے دیں۔ فرض کیجیے، وہ فیصلہ کرتی ہیں کہ انہوں نے انیس لاکھ تقسیم کرنا ہیں۔ اس صورت میں ہر لڑکی کو ایک لاکھ اور ہر لڑکے کو دو لاکھ ملیں گے۔ لیکن یہ محض تحفہ ہو گا، وراثت نہیں کیونکہ وہ خود ابھی زندہ ہیں۔ اپنے لیے، وہ جتنی چاہے رقم رکھ سکتی ہیں۔ پھر جب والدہ کی وفات ہو گی تو اس وقت ان کے ترکے کو شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.