حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات
فقہاء کے ہاں اس بات پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ عدالت میں غلام کی گواہی کو قبول کیا جائے یا نہیں۔ یہ مسئلہ بھی بعد کے دور کی پیداوار ہے۔ عہد رسالت و صحابہ میں غلاموں اور لونڈیوں کی گواہی کو اسی طرح قبول کیا جاتا تھا جیسا کہ آزاد افراد کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک لونڈی کی گواہی پر میاں بیوی کے نکاح کو باطل قرار دے دیا تھا۔
حدثنا علي بن عبد الله: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم: أخبرنا أيوب، عن عبد الله بن أبي مليكة قال: حدثني عبيد بن أبي مريم، عن عقبة ابن الحارث قال: وقد سمعته من عقبة لكني لحديث عبيد أحفظ، قال: تزوجت امرأة فجاءتنا امراة سوداء، فقال: أرضعتكما، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: تزوجت فلانة بنت فلان، فجاءتنا امراة سوداء فقالت لي: إني قد أرضعتكما، وهي كاذبة فأعرض عني، فأتيته من قبل وجهه، قلت: إنها كاذبة، قال: (كيف بها وقد زعمت أنها قد أرضعتكما، دعها عنك). وأشار إسماعيل بإصبعيه السبابة والوسطى، يحكي أيوب. (بخاری، کتاب النکاح، حديث 5104 نسائی سنن الکبری، کتاب القضاء، حديث 5983)
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک خاتون سے شادی کر لی تھی۔ ایک سیاہ رنگ کی خاتون (جو کہ نسائی کے مطابق لونڈی تھیں) آئیں اور کہنے لگیں، میں نے تو ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس لایا گیا تو میں نے عرض کیا، میں نے فلاں بنت فلاں سے شادی کی، یہ سیاہ رنگ کی خاتون آ کر کہہ رہی ہیں کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ یہ جھوٹ بول رہی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم (کو یہ بات اتنی ناگوار گزری کہ) آپ نے رخ پھیر لیا۔ میں نے پھر عرض کیا، یہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ آپ نے انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا، تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ انہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے۔ اپنی بیوی سے علیحدہ ہو جاؤ۔
ماعز اسلمی کے مقدمے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس لونڈی کی گواہی کو قبول فرمایا تھا جن کی آبرو ریزی کی گئی تھی۔ مسلمانوں کا عمل بھی اس کے بعد یہی رہا ہے کہ ان کے قاضی غلاموں کی گواہی کو قبول کیا کرتے تھے۔
وقال أنس: شهادة العبد جائزة إذا كان عدلا. وأجازه شريح وزرارة بن أوفى. وقال ابن سيرين: شهادته جائزة إلا العبد لسيده. وأجازه الحسن وإبراهيم في الشيء التافه. وقال شريح: كلكم بنو عبيد وإماء. (بخاری، کتاب الشهادة)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، غلام کی گواہی درست ہے اگر وہ اچھے کردار کا مالک ہو۔ قاضی شریح اور زرارہ بن اوفی بھی اسے درست قرار دیتے ہیں۔ ابن سیرین کی رائے یہ ہے کہ غلام کی گواہی درست ہے سوائے ان معاملات کے جن میں وہ اپنے آقا کے حق میں گواہی دے۔ حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے معمولی معاملات میں ان کی گواہی کو درست قرار دیا ہے۔ شریح کہا کرتے تھے، تم سب غلاموں اور لونڈیوں کی اولاد ہی تو ہو۔
قدیم فقہاء نے صرف ایک صورت میں غلام کی گواہی کو قبول نہیں کیا اور وہ یہ کہ غلام اپنے آقا کے حق میں گواہی دے رہا ہو۔ آقا کے حق میں غلام کی گواہی کو قبول نہ کرنے کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے وہ آقا کے دباؤ میں آ کر گواہی دے رہا ہے۔
مشہور واقعہ ہے کہ قاضی شریح جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جج تھے، انہوں نے ایک یہودی کے مقدمے میں خلیفہ وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ان کے غلام قنبر رضی اللہ عنہ اور بیٹے حسن رضی اللہ عنہ کی گواہی کو قبول نہیں کیا تھا اور فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا تھا۔ یہودی اپنے دعوے میں درحقیقت جھوٹا تھا لیکن وہ قاضی کے اس عادلانہ فیصلے سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہاں غلام کے علاوہ بیٹے کی گواہی کو بھی باپ کے حق میں قبول نہیں کیا گیا تھا۔
بعد کے ادوار کے بعض فقہاء نے اگر غلام کی گواہی کو قبول نہیں کیا تو اس سے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے فتوے اور فیصلے کی ذمہ داری خود ان پر ہو گی نہ کہ اسلام پر۔
Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.