السلام علیکم
کیا داڑھی سنت ہے؟ کل میں نے ایک کتاب پڑھی جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ داڑھی سنت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطور سنت جاری نہیں کیا۔ اس کے برعکس ہمارے علماء عام طور پر اسے سنت ہی قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟
ایک بھائی
ستمبر 2011
محترم بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عہد رسالت سے لے کر آج تک مسلمان تواتر کے ساتھ داڑھی کو بطور سنت ہی رکھتے چلے آئے ہیں۔ اس وجہ سے مذکورہ کتاب کے فاضل مصنف کے اپنے اصول کے مطابق یہ سنت ہونی چاہیے لیکن وہ اس کا شمار سنن کی فہرست میں نہیں کرتے۔ ان کے بیانات سے ان کا جو نقطہ نظر سامنے آتا ہے ، وہ یہ ہے کہ عہد صحابہ میں لوگ داڑھی کو سنت نہیں سمجھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطور سنت جاری نہیں فرمایا۔
جہاں تک احادیث و آثار کا میں نے مطالعہ کیا ہے، تو یہ بات درست محسوس نہیں ہوئی۔ داڑھی کو عہد رسالت اور عہد صحابہ میں سنت ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں بعض احادیث یہ ہیں۔
حدثنا قتيبة بن سعيد وأبو بكر بن أبي شيبة وزهير بن حرب. قالوا: حدثنا وكيع عن زكرياء بن أبي زائدة، عن مصعب بن شيبة ، عن طلق بن حبيب ، عن عبدالله بن الزبير ،عن عائشة؛ قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء. قال زكرياء: قال مصعب: ونسيت العاشرة. إلا أن تكون المضمضة. زاد قتيبة: قال وكيع: انتقاص الماء يعني الاستنجاء۔.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس چیزیں فطرت میں سے ہیں۔ مونچھیں کاٹنا، داڑھی کو معاف رکھنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن کاٹنا، جوڑوں کا دھونا، بغل کے بال صاف کرنا، زیر ناف بال مونڈنا، استنجا کرنا۔ مصعب کہتے ہیں کہ میں دسویں بات بھول گیا، شاید یہ کلی کرنا ہو۔ (مسلم ، کتاب الطہارہ، حدیث 261)
حدثنا محمد بن منهال: حدثنا يزيد بن زريع: حدثنا عمر بن محمد بن زيد، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا المشركين: وفروا اللحى، وأحفوا الشوارب۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیوں کو وافر رکھو اور مونچھوں کو چھوٹا کرو۔ (بخاری ، کتاب اللباس، حدیث 5553)
حدثني محمد: أخبرنا عبدة: أخبرنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انهكوا الشوارب، وأعفوا اللحى.
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مونچھوں کو پست کرو، داڑھیوں کو معاف رکھو۔ (بخاری ، کتاب اللباس، حدیث 5554)
امام بخاری اور امام مسلم نے ان احادیث کو بطور سنت ہی درج کیا ہے۔ امام بخاری نے اس باب کا عنوان اعفاء اللحی یعنی داڑھی کو معاف رکھنا درج کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی کو منڈوانے سے معاف رکھنے کو وہ سنت سمجھتے تھے۔ اسی طرح امام مسلم نے متعلقہ باب کا عنوان خصال الفطرہ یعنی فطری خصلتیں رکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں علماء داڑھی کو فطری سنتوں میں شمار کرتے تھے۔ مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے واضح ہے کہ سیدہ رضی اللہ عنہا مرد کے لیے داڑھی کو اسی طرح سنت سمجھتی تھیں جیسا کہ مونچھیں کاٹنا، زیر ناف بال صاف کرنا سنت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی کی بھی دین میں وہی حیثیت ہے جو مونچھیں کاٹنے، زیر ناف بال صاف کرنے، دانتوں اور منہ کی صفائی اور استنجا کرنے کی ہے۔
Ayesha (d. 58H/678CE) رضی اللہ عنہا
Bukhari (d.256H/870CE)
Muslim (d.261H/875CE)
Malik (d.179/795CE)
امام بخاری و مسلم سے سو برس پہلے کے بزرگ امام مالک نے اپنی مشہور کتاب موطاء میں باب السنۃ فی الشعر (یعنی بالوں کے بارے میں سنت کا باب) کے عنوان کے تحت یہ حدیث بیان کی ہے۔
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أبِي بَكْرِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ وَإِعْفَاءِ اللِّحَى۔
سیدہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھوں کو کاٹنے اور داڑھی کو معاف رکھنے کا حکم دیا۔ (موطاء، ابواب الشعر، حدیث 2748)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مالک کے زمانے میں لوگ داڑھی کو سنت سمجھتے تھے۔ واضح رہے کہ امام مالک کا زمانہ وہ ہے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے براہ راست فیض یاب ہونے والے تابعین ابھی زندہ تھے اور اپنے شاگردوں کو صحابہ کا علم منتقل کر رہے تھے۔ ہمارے علم میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ امام مالک کی بیان کردہ اس روایت پر کسی نے تنقید کی ہو۔اگر تابعین کے نزدیک داڑھی سنت نہ ہوتی تو لازماً کوئی امام مالک کی بیان کردہ اس روایت سے اختلاف کرتا لیکن ایسا کوئی اختلاف ہمارے علم میں نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف صالحین کے ہاں داڑھی بطور سنت رکھی جاتی تھی اور اس معاملے میں فاضل مصنف کی رائے درست نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے بعض بیانات میں اوپر بیان کردہ بخاری کی روایتوں کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ یہ مکمل نہیں ہیں اور پوری بات مسند احمد کی اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا زيد بن يحيى حدثنا عبد الله بن العلاء بن زبر حدثني القاسم قال: سمعت أبا أمامة يقول: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على مشيخة من الأنصار بيض لحاهم فقال: يا معشر الأنصار حمروا وصفروا وخالفوا أهل الكتاب قال: فقلنا: يا رسول الله إن أهل الكتاب يتسرولون ولا يأتزرون فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم تسرولوا وائتزروا وخالفوا أهل الكتاب قال: فقلنا: يا رسول الله إن أهل الكتاب يتخففون ولا ينتعلون قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم فتخففوا وانتعلوا وخالفوا أهل الكتاب قال: فقلنا يا رسول الله إن أهل الكتاب يقصون عثانينهم ويوفرون سبالهم قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: قصوا سبالكم ووفروا عثانينكم وخالفوا أهل الكتاب۔
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے بعض بزرگوں کے پاس گئے جن کی داڑھیاں سفید تھیں۔ آپ نے فرمایا: اے گروہ انصار! داڑھیوں کو سرخ اور زرد میں رنگا کرو اور اہل کتاب کی مخالفت کیا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اہل کتاب تو ہمیشہ پاجامہ پہنتے ہیں اور تہبند نہیں باندھتے۔ فرمایا: تم پاجامہ بھی پہنو اور تہبند بھی اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔ عرض کیا: یا رسول اللہ! اہل کتاب موزے پہنتے ہیں اور جوتے نہیں پہنتے۔ فرمایا: تم موزے بھی پہنو اور جوتے بھی۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اہل کتاب تو اپنے داڑھیوں کو کم کرتے ہیں اور مونچھوں کو بڑھاتے ہیں۔ فرمایا: تم مونچھیں کم کرو اور داڑھیوں کو وافر رکھو اور اہل کتاب کی مخالفت کیا کرو۔ (مسند احمد، باب ابو امامہ باہلی)
ان کی یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ مسند احمد کی حدیث سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کی ہے جبکہ بخاری و مسلم کی روایتیں سیدنا ابن عمر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کی ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل الگ الگ واقعات ہیں۔
تاریخ کی کتب میں شاہ ایران کے قاصدوں کا واقعہ ہے اور علامہ ناصر الدین البانی (1914-1999)نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس واقعے میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب شاہ ایران کے قاصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئے تو ان کی منڈی ہوئی داڑھیوں اور بڑھی ہوئی مونچھوں کو دیکھ کر آپ نے سخت اظہار ناپسندیدگی فرمایا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہیں ایسا کرنے کو کس نے کہا ہے۔ وہ بولے کہ ہمارے رب کسری نے۔ آپ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں داڑھیوں کو بڑھاؤں اور مونچھوں کو پست کروں۔
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی تو ایک ایسی فطری سنت ہے جس کی توقع صرف مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں سے بھی کی جا رہی تھی ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاہ ایران کے ان قاصدوں کی منڈی ہوئی داڑھیوں کو دیکھ کر اظہار نفرت نہ فرماتے۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ قدیم دور میں داڑھی منڈوانے کو مثلہ جیسا برا عمل سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک کسی کی زبردستی داڑھی مونڈنے پر سزا مقرر کرنے کا حکم ہے۔
Shafi’i (150-204H/767-819CE)
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.