کیا غلام کو قتل کرنے کی سزا بھی قتل ہے؟

حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات

اس بات پر تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی آزاد شخص کسی غلام کو قتل کر دے تو قاتل کو سخت سزا ضرور دی جائے۔ ان میں اختلاف اس بات پر ہے اس آزاد شخص کو غلام کے بدلے قصاص میں قتل کیا جائے گا یا نہیں۔ فقہاء کا ایک گروہ اس بات کی قائل ہے کہ اس آزاد شخص کو بھی غلام کے بدلے قصاص میں موت کی سزا دی جائے گی۔ دوسرے گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ آزاد کو قتل تو نہیں کیا جائے گا البتہ سخت سزا ضرور دی جائے گی۔

قصاص کے قائلین کے دلائل

پہلے گروہ کے دلائل یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے قصاص کا قانون بیان کرتے ہوئے آزاد و غلام میں فرق نہیں کیا ہے بلکہ انسانی جان لینے کی صورت میں قاتل کو موت کی سزا دینے کا حکم دیا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَى بِالأُنثَى۔ (البقرة 2:178)

اے ایمان والو! تمہارے لئے قصاص کا قانون بنا دیا گیا ہے۔ آزاد نے قتل کیا ہو تو وہی آزاد، غلام نے قتل کیا ہو تو وہی غلام، اور عورت نے قتل کیا ہو تو وہی عورت قتل کی جائے گی۔

حدیث میں بھی یہی قانون بیان کیا گیا ہے کہ کسی بھی انسانی جان کے قاتل کو موت کی سزا دی جائے گی خواہ وہ آزاد ہو یا غلام۔

حدثنا عمر بن حفص: حدثنا أبي: حدثنا الأعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لا يحل دم امرئ مسلم، يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، إلا بإحدى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والمفارق لدينه التارك للجماعة). (بخاری، کتاب الديات، حديث 6878)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان جو یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور میں اس کا رسول ہوں، کا خون حلال نہیں ہے سوائے ان تین چیزوں کے ۔۔۔ جان کے بدلے قتل کرنے والے کی جان، ثیب بدکار، اور دین کو ترک کر کے حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والا۔

درج ذیل حدیث میں تو واضح طور پر ارشاد فرما دیا گیا ہے کہ غلام کی جان لینے والے سے پورا پورا قصاص لیا جائے گا۔

أخبرنا محمود بن غيلان وهو المروزي ، قال : حدثنا أبو داود الطيالسي ، قال : حدثنا هشام عن قتادة عن الحسن عن سمرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من قتل عبده قتلناه ومن جدعه جدعناه ومن أخصاه أخصيناه .

أخبرنا نصر بن علي ، قال : حدثنا خالد ، قال : حدثنا سعيد ، عن قتادة عن الحسن عن سمرة۔ اخبرنا قتيبة بن سعيد ، قال : حدثنا أبو عوانة عن قتادة عن الحسن عن سمرة، حدّثنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّد. ثنا وَكِيعٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الحسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ ۔ قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب (ترمذی، کتاب الديات، حديث 1414، ابن ماجة، کتاب الدية، حديث 2663، نسائی، کتاب القسامة، حديث 4736)

سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، جو اپنے غلام کو قتل کرے گا، ہم بھی اسے ہی قتل کریں گے۔ جو اس کا کوئی عضو کاٹے گا تو ہم بھی اس کا وہی عضو کاٹیں گے، اور جو اسے خصی کرے گا، ہم بھی اسے خصی کریں گے۔

وَأَخْبَرَنِى أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِىُّ أَخْبَرَنَا عَلِىُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا ابْنُ الْجُنَيْدِ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنِ الْحَكَمِ قَالَ قَالَ عَلِىٌّ وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا : إِذَا قَتَلَ الْحُرُّ الْعَبْدَ مُتَعَمِّدًا فَهُوَ قَوَدٌ. (بيهقى؛ سنن الكبرى؛ حديث 15941)

سیدنا علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے فرمایا، “اگر آزاد نے غلام کو جان بوجھ کر قتل کیا ہو تو اسے قتل کیا جائے گا۔

دوسرے گروہ کی رائے

دوسرے گروہ کے دلائل میں صرف چند ضعیف احادیث موجود ہے۔

حديث : ” لا يقاد مملوك من مالك ” . أخرجه الحاكم ( 4 / 368 – ط دائرة المعارف العثمانية ) من حديث عمر بن الخطاب وضعفه الذهبي . (الموسوعة الفقهية الكويتية، كتاب رق)

حدیث، “غلام کو قتل کرنے کے جرم میں اس کے مالک کو قتل نہ کیا جائے۔” یہ حدیث حاکم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  سے روایت کی ہے۔ اسے امام ذہبی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

حديث : ” لا يقتل حر بعبد ” . أخرجه البيهقي ( 8 / 35 – ط دائرة المعارف العثمانية ) من حديث ابن عباس ، وقال البيهقي : ” في هذا الإسناد ضعف ” . (الموسوعة الفقهية الكويتية، كتاب رق)

حدیث، “غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہ کیا جائے۔” یہ حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے امام بیہقی نے روایت کی ہے اور کہا ہے، “اس کی سند کمزور ہے۔”

رَوَى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّ رَجُلاً قَتَل عَبْدَهُ فَجَلَدَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةَ جَلْدَةٍ وَنَفَاهُ عَامًا وَمَحَا اسْمَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَيْ مِنَ الْعَطَاءِ. حديث : ” أن رجلاً قتل عبده فجلده النبي صلى الله عليه وسلم ” . ذكره ابن قدامة في المغني ( 7 / 659 – ط الرياض ) وقال : ” رواه سعيد والخلال وقال أحمد : ليس بشيء من قبل إسحاق بن أبي فروة “. (الموسوعة الفقهية الكويتية، كتاب رق)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو قتل کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا دی اور اس کا نام مسلمانوں سے خارج کر دیا۔ ابن قدامہ نے اس حدیث کو المغنی میں بیان کیا ہے اور کہا ہے، “اس حدیث کو سعید اور خلال نے روایت کیا ہے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اسحاق بن ابی فروۃ سے ایسی کوئی حدیث روایت نہیں کی گئی۔

علامہ ناصر الدین البانی نے پہلی دو احادیث کی سند کو “ضعیف جدا” یعنی نہایت ہی کمزور قرار دیا ہے۔ سند کو چھوڑ کر اگر متن کو بھی دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ احادیث، قرآن مجید اور دیگر صحیح احادیث سے متصادم ہیں، اس وجہ سے ان سے کوئی قانون اخذ کرنا درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے گروہ کی رائے درست ہے اور غلام کو قتل کرنے یا اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ ڈالنے کے جرم میں آقا کو بھی وہی سزا دی جائے گی جو اس نے غلام کے ساتھ کیا ہو گا۔

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف بعض ایسی احادیث بھی منسوب کی گئی ہیں جن میں کسی خاص مقدمے کے بارے میں آپ کا فیصلہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے غلام کو قتل کرنے کے جرم میں مالک پر موت کی سزا نافذ نہیں کی۔ اسی طرح ایک اور مقدمے میں اپنے بیٹے کو قتل کرنے کے جرم میں باپ پر بھی موت کی سزا نافذ نہیں کی گئی۔

          اس ضمن میں ہمیں اس اصول کا خیال رکھنا چاہیے کہ شریعت میں مختلف جرائم پر جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، وہ جرم کی انتہائی صورت کی سزائیں ہیں۔ یہ سزائیں اس صورت میں نافذ کی جاتی ہیں جب مجرم کسی طور پر بھی رعایت کا مستحق نہ ہو۔ ہر مقدمے میں مجرم کے نفسیاتی، سماجی، معاشی اور دیگر حالات سرکمسٹانسز کا خیال رکھا جاتا ہے اور اگر اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو اسے اس کی رعایت بھی دی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں احادیث اگر صحیح ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے یہ فیصلے صرف انہی مقدمات تک محدود سمجھے جائیں گے اور ان سے کسی دائمی قانون کو اخذ نہیں کیا جائے گا۔

Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا غلام کو قتل کرنے کی سزا بھی قتل ہے؟
Scroll to top