ڈیئر مبشر بھائی
اسلام علیکم
ایک سوال آپ سے پوچھنا تھا وہ یہ ابھی اس وقت چاند گرہن ہوا ہے۔ ہمارے محلے کی مسجد کے امام صاحب نے مغرب کی نماز کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ کچھ دیر کے بعد چاند گرہن کی سنت نماز کروائیں گے۔ میں بھی اس میں شامل ہوا ہوں۔ لیکں ایک چیز سمجھ نہیں آئی نماز کا طریقہ۔ وہ یہ کہ انہوں نے تکبیرتحریمہ کے بعد الحمد کی تلاوت اور ساتھ میں قرآن سے سورہ فجر کی تلاوت کی اور اس کے بعد رکوع اور پھر رکوع سے جب واپس قیام کیا تو وہاں سے سجدہ میں نہیں گئے بلکہ دوبارہ سے الحمد اور پھر قرآن پاک کی تلاوت اور پھر رکوع اور اب کے سجدہ میں گئے۔
دوسرے رکعت بھی اسی طرح تھی یعنی دو دفعہ رکوع والی۔
آپ سے گزارش ہے کہ اس کی وضاحت فرما دیں اور چاند گرہن کیا اہمیت اور اس موقع پر سنت نماز کے مقاصد پر اگر کچھ بتا دیں تو۔
والسلام
محمد جاوید اختر
دوحہ، قطر
دسمبر 2011
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
چاند اور سورج گرہن چونکہ ایک غیر معمولی کیفیت ہے، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تزکیہ کا ذریعہ بنایا ہے اور اس پر غیر معمولی انداز میں نماز پڑھی ہے تاکہ لوگوں میں خوف خدا پیدا ہو۔ یہ آپ کا انداز تربیت تھا کہ غیر معمولی واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی امت کی تربیت فرمایا کرتے تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے صحیح بخاری، کتاب الکسوف۔ مکتبہ مشکاۃ والے ورژن میں احادیث 993 سے شروع ہوتی ہیں۔ یہاں بعض احادیث درج کر رہا ہوں۔
حدثنا عمرو بن عون قال: حدثنا خالد، عن يونس، عن الحسن، عن أبي بكرة قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانكسفت الشمس، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يجر رداءه حتى دخل المسجد، فدخلنا، فصلى بنا ركعتان حتى انجلت الشمس، فقال صلى الله عليه وسلم: (إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد، فإذا رأيتموهما فصلوا وادعوا، حتى يكشف ما بكم)۔
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو سورج کو گرہن لگا۔ آپ اپنی چادر کھینچتے ہوئے تشریف لے چلے اور مسجد میں داخل ہو گئے۔ ہم بھی مسجد میں داخل ہوئے ۔ آپ نے ہمارے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی یہاں تک کہ گرہن ختم ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: سورج اور چاند کو گرہن کسی شخص کی موت پر نہیں لگتا۔ جب آپ لوگ ان دونوں کو اس حالت میں دیکھیں تو نماز پڑھیں اور دعا کیجیے یہاں تک کہ ان کی ر وشنی پلٹ آئے۔ (حدیث 994)
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أنها قالت: خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس، فقام فأطال القيام، ثم ركع فأطال الركوع، ثم قام فأطال القيام، وهو دون القيام الأول، ثم ركع فأطال الركوع، وهو دون الركوع الأول، ثم سجد فأطال السجود، ثم فعل في الركعة الثانية مثل ما فعل في الأولى، ثم انصرف، وقد انجلت الشمس، فخطب الناس، فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: (إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم ذلك فادعوا الله، وكبروا وصلوا وتصدقوا). ثم قال: (يا أمة محمد، والله ما من أحد أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته يا أمة محمد والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا)۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا۔ آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اس میں طویل قیام کیا۔ پھر ایک طویل رکوع کیا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور اس میں ایک طویل قیام کیا جو کہ پہلے قیام کے علاوہ تھا۔ پھر آپ نے ایک طویل رکوع کیا اور یہ پہلے رکوع کے علاوہ تھا۔ پھر آپ نے ایک طویل سجدہ کیا۔ اس کے بعد آپ نے پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت ادا فرمائی۔ پھر آپ نے رخ انور (لوگوں کی طرف) کیا تو اس وقت سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا ، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان دونوں کو کسی شخص کی موت یا زندگی سے گرہن نہیں لگتا۔ جب آپ لوگ ایسا دیکھیں تو اللہ سے دعا کیا کریں، تکبیر کہا کریں ، نماز پڑھا کریں، صدقہ کیا کریں۔ پھر فرمایا: اے امت محمد! اللہ کی قسم کہ اللہ سے زیادہ بڑھ کر کسی اور شخص کو اس بات پر غیرت نہیں آتی کہ اس کا بندہ یا بندی بدکاری کا ارتکاب کرے ۔ اے امت محمد! جو کچھ میں جانتا ہوں، اگر آپ لوگ جانتے ہوتے تو بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ (حدیث 997)
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.