قارئین اور طلباء عام طور پر جو سوالات پوچھتے ہیں، ان کے جواب یہاں درج کیے جا رہے ہیں۔ جو طلباء و طالبات ایڈمیشن لے چکے ہیں، ان کے پوچھے جانے والے سوالات کے جواب بھی ہم یہاں درج کر رہے ہیں۔
ایڈمیشن سے پہلے کے سوالات
جن احباب نے اس پروگرام کے صرف تعارف کا مطالعہ کیا ہے، وہ عام طور پر یہ سوالات پوچھتے ہیں:
سوال: تقابلی مطالعہ پروگرام کا مقصد کیا ہے؟
جواب: اس پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ جو طالب علم مسلم دنیا کے مختلف مکاتب فکر کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کرنا چاہیں، انہیں ایک منظم انداز میں مطالعہ کے وسائل اور طریق کار فراہم کر دیا جائے اور ان کے ذہنوں میں جو سوالات پیدا ہوں، ان کا بروقت جواب دے دیا جائے۔ ہر ہر مکتب فکر کے نقطہ نظر اور ان کے دلائل کو نہایت ہی غیر جانبداری کے ساتھ ان کے سامنے رکھ دیا جائےاور بغیر کسی تعصب کے ہر مسلک کے نظریات اور دلائل کا مطالعہ کرنے میں ان کی مدد کی جائے۔
اس پروگرام میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ تمام نقطہ ہائے نظر کو، جیسا کہ وہیں ہیں، بغیر کسی اضافے یا کمی کے بیان کر دیا جائے۔ ان کے بنیادی دلائل بھی جیسا کہ ان کے حاملین بیان کرتے ہیں، واضح طور پر بیان کر دیے جائیں۔ ہم نے کسی معاملے میں اپنا نقطہ نظر بیان نہیں کیا اور نہ ہی کوئی فیصلہ سنایا ہے کہ کون سا نقطہ نظر درست اور کون سا غلط ہے۔ یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے۔
سوال: یہ پروگرام کن لوگوں کے لیے ہے؟
جواب: یہ پروگرام ان لوگوں کے لیے ہے جو
۔۔۔۔۔۔۔ وسیع النظر ہوں
۔۔۔۔۔۔۔ مثبت انداز میں مختلف نقطہ ہائے نظر کو سمجھنا چاہتے ہوں
۔۔۔۔۔۔۔ منفی اور تردیدی ذہنیت کی رو سے مطالعہ نہ کرتے ہوں
۔۔۔۔۔۔۔ دلیل کی بنیاد پر نظریات بناتے ہوں نہ کہ جذبات کی بنیاد پر
۔۔۔۔۔۔۔ اپنے سے مختلف نظریہ کو کھلے ذہن پڑھ سکتے ہوں اور اس میں کوئی تنگی اپنے سینے میں محسوس نہ کرتے ہوں
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ میں یہ خصوصیات موجود ہیں، تو آپ کا تعلق خواہ کسی بھی مکتب فکر سے ہو، آپ اس پروگرام میں شامل کتب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ خصوصیات آپ میں موجود نہیں ہیں، تو پھر یہ سلسلہ ہائے کتب آپ کے لیے نہیں ہے۔
سوال: اس پروگرام میں داخلے کی شرائط کیا ہیں؟
جواب: اس پروگرام میں داخلے کی شرط ایک ہی ہے۔ رجسٹریشن فارم پر کر کے اس ای میل پر بھیج دیجیے۔
Registration-Form-ISPآپ کو متعلقہ کتب اور ریڈنگ میٹریل فراہم کر دیا جائے گا۔
سوال: یہ پروگرام کن لوگوں کے لیے نہیں ہے؟
جواب: یہ پروگرام ان لوگوں کے لیے نہیں ہےجو اس موضوع سے دلچسپی نہ رکھتے ہوں یا مطالعے کا ذوق نہ رکھتے ہوں۔اس پروگرام میں آپ کا کافی مطالعہ کرنا پڑے گا۔ اگر آپ کو مطالعے کی عادت نہیں ہے اور موٹی موٹی کتب آپ کو خوفزدہ کر دیتی ہیں، تب بھی یہ پروگرام آپ کے لیے نہیں ہے۔
اگر آپ اپنے سے مختلف کسی نظریے کو پڑھتے ہوئے دل میں تنگی محسوس کرتے ہوں اور اپنے مسلک اور فرقے کے علماء کے علاوہ کسی اور کو پڑھنا یا سننا پسند نہ کرتے ہوں اور جذباتیت سے سوچتے ہوں ، تو پھر یہ پروگرام آپ کے لیے نہیں ہے۔
سوال: اس پروگرام کو کون لوگ چلا رہے ہیں اور ان کا مسلک کیا ہے؟
جواب: اس پروگرام کی ذمہ داری راقم الحروف کی ہے۔ میرا تفصیلی تعارف آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔میں کسی مخصوص مسلک سے وابستہ نہیں ہوں اور خود کو صرف اسلام سے وابستہ سمجھتا ہوں۔ تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے کھلے ذہن کے لوگوں سے تعلق رکھتا ہوں اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرتا رہتا ہوں تاکہ اپنی اصلاح کر سکوں۔
سوال: کیا یہ پروگرام کسی خاص مذہب یا مسلک کے لوگوں کے لیے ہے؟
جواب: جی نہیں۔ اس پروگرام سبھی مسالک سے تعلق رکھنے والے کھلے ذہن کے قارئین کے لیے ہے۔ کسی معاملے میں ہم آپ سے اتفاق رکھتے ہوں یا اختلاف، ہماری کوشش یہ ہو گی کہ تمام کتب اور ای میل رابطے میں آپ کے نقطہ نظر کا پورا احترام کیا جائے اور کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جس سے آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
سوال: اس پروگرام میں آپ نے کس مسلک کی حمایت کی ہے؟
جواب: اس پروگرام میں ہم نے نہ تو کسی مسلک کی حمایت کی ہے اور نہ مخالفت۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم مکمل غیر جانبداری کے ساتھ تمام مسالک کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کا مطالعہ کریں۔ ہم نے دانستہ طور پر یہ کوشش کی ہے کہ طلباء کو کسی مسلک کی طرف مائل نہ کیا جائے بلکہ صحیح و غلط کا فیصلہ ان پر چھوڑ دیا جائے۔ تمام مسالک کے دلائل کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ خود رائے قائم کریں کہ انہیں کون سا راستہ اختیار کرنا ہے؟
سوال: اس پروگرام میں کن کن مسالک کا مطالعہ زیر بحث ہے؟
جواب: اس پروگرام کے اندر ہم نے سات ماڈیولز بنائے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔
ماڈیول 1 ۔۔۔۔۔ اہل سنت، اہل تشیع اور اباضی مسلک
ماڈیول2 ۔۔۔۔۔ سلفی (اہل حدیث) اور غیر سلفی (جیسے سنی بریلوی اور سنی دیوبندی)
ماڈیول 3 ۔۔۔۔۔ اسلام کا دعوی کرنے والے مخصوص اقلیتی مذہبی گروہ
ماڈیول 4 ۔۔۔۔۔ فقہی مکاتب فکر
ماڈیول 5 ۔۔۔۔۔ اہل تصوف اور ان کے ناقدین
ماڈیول 6 ۔۔۔۔۔۔ مسلم دنیا میں سیاسی ، عسکری، دعوتی اور علمی و فکری تحریکیں
ماڈیول 7 ۔۔۔۔۔۔ روایت پسندی، جدت پسندی اور معتدل جدیدیت ۔۔۔ فکری، ثقافتی،معاشی، قانونی اور سماجی مسائل
مزید تفصیلات کے لیے مضامین کی تفصیلی فہرست دیکھیے جو کہ یہاں دستیاب ہے۔
سوال: اس پروگرام میں اب تک شریک ہونے والے طلباء و طالبات کس بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں؟
جواب: اس پروگرام میں اب تک جو طلباء و طالبات ایڈمیشن لے چکے ہیں، وہ مختلف بیک گراؤنڈز سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں دینی مدارس اور جدید یونیورسٹیوں کے طلباء ، سول سرونٹ، پروفیشنلز اور عام ملازمت یا کاروبار کرنے والے احباب شامل ہیں۔ ان سب کی مشترک خصوصیت بس یہی ہے کہ یہ سب کھلا ذہن رکھتے ہیں اور انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔
سوال: اس پروگرام کی فائنانسنگ کیسے کی جا رہی ہے؟
جواب: اس پروگرام کے لیے کسی فائنانسنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ تمام تفاسیر انٹرنیٹ پر پہلے سے ہی دستیاب ہیں۔ شرکاء نے اپنے فارغ وقت میں اسے ایک کورس کی شکل دے دی ہے۔ یہ سب حضرات ملازمت پیشہ ہیں اور اس کورس کے لیے کوئی معاوضہ نہیں لیتے ہیں اور اپنا اضافی وقت اس کام کے لیے صرف کرتے ہیں۔
سوال: کیا آپ کا یہ پروگرام غلطیوں سے پاک اور مستند ہے؟
جواب: جی نہیں۔ ہم کونسا کوئی اللہ کے پیغمبر ہیں جو غلطی نہیں کریں گے۔ ہم بھی عام انسان ہی ہیں اور انسانوں کے تمام کاموں کی طرح ہمارے کام میں بھی بہت سی غلطیاں اور کوتاہیاں ہوں گی۔ اللہ تعالی اس کے لیے ہمیں معاف کرے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اگر ہماری کوئی غلطی آپ کے سامنے آئے تو ہمیں اس سے ضرور ضرور مطلع فرمائیں تاکہ اس کی اصلاح کی جا سکے۔ اس بات کی بہرحال ہم نے کوشش کی ہے کہ کہ انسانی صلاحیت کی حد تک اس پروگرام کو غلطیوں سے پاک رکھا جائے۔ جب ہمیں ہماری کسی غلطی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ جلد سے جلد اس کا ازالہ کر لیں۔
سوال: کیا آپ نے تمام اختلافی مسائل کو اس پروگرام میں شامل کیا ہے؟
جواب: جی نہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اوپر بیان کردہ تمام مکاتب فکر کے مابین اہم اختلافی مسائل کا مطالعہ کیا جائے۔ ویسے تو کسی مسئلے کی اہمیت کا دار و مدار سوچنے والے پر ہے کہ وہ کسی مسئلے کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ ہم نے ان مسائل کا انتخاب کیا ہے، جو کسی مسلک کے ماننے والوں کے لیے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، جن سے ان کے مسلک کا تشخص قائم ہوتا ہے اور جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ دنیا یا آخرت میں ان مسائل سے سنگین نوعیت کے اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔
سوال: کیا آپ نے ہر مسلک کے نقطہ نظر اور دلائل کو ٹھیک ٹھیک بیان کیا ہے؟
جواب: اپنے علم کی حد تک ہم نے یہ پوری کوشش کی ہے کہ ہر مسلک کے نقطہ نظر اور دلائل کو ان کی اصل حالت میں بیان کیا جائے۔ پھر بھی ہم انسان ہیں اور سوچنے، سمجھنے یا لکھنے میں غلطی کر سکتے ہیں۔ تمام مسالک کے احباب سے گزارش ہے کہ اگر وہ محسوس کریں کہ کسی مقام پر ہم نے ان کے نقطہ نظر کو صحیح طور پر بیان نہیں کیا تو وہ مطلع فرما کر شکریہ کا موقع دیں اور اس پروگرام کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی تجاویز دیں۔
سوال: آپ کا یہ پروگرام مشکل، طویل اور بور کیوں محسوس ہوتا ہے؟
جواب: ہم نے کوشش تو کی ہے کہ اسے زیادہ طویل نہ ہونے دیا جائے اور طلباء و طالبات کو بوریت سے بچایا جائے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ ایک سبق دو گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ روزانہ ایک گھنٹہ مطالعے پر صرف کر رہے ہیں تو دو دن میں آپ ایک سبق مکمل کر سکتے ہیں۔ ایک ماڈیول اوسطاً بیس اسباق پر مشتمل ہے۔ اس طرح آپ ڈیڑھ مہینے میں ایک ماڈیول مکمل کر سکتے ہیں۔یہ پروگرام مشکل بالکل نہیں ہے۔ ہم نے کوشش یہ کی ہے کہ نہایت آسان اور دلچسپ انداز میں مشکل ترین مسائل کو بھی بیان کر دیا جائے۔
اگر پھر بھی آپ کو بوریت محسوس ہو، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مطالعے اور علمی معاملات کا زیادہ ذوق نہیں رکھتے۔ یہ کوئی خامی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے ہر انسان کو ہر کام کے لیے نہیں بنایا ہے۔ اس صورت میں اس پروگرام کا مطالعہ کرنے کی آپ کو ضرورت نہیں ہے۔
پروگرام کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے آپ کی تجاویز کے ہم منتظر رہیں گے۔
سوال: میں بالکل ابتدائی درجے کا طالب علم ہوں اور میں نے قرآن مجید کا ترجمہ نہیں پڑھا۔ مجھے کہاں سے شروع کرنا چاہیے؟
جواب: اس صورت میں آپ کو پہلے قرآن مجید کا مطالعہ کر لینا چاہیے۔ قرآنی اسٹڈیز پروگرام کے سے آپ آغاز کر سکتے ہیں۔
اردو کتابیں https://drive.google.com/drive/u/0/folders/12ODWBkAskGyloH1KMaU1b_1uPuhM9fW0
English Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/19LXndL9b4oMPeh7TECfqzc993yJbJp_A
سوال: میں ایک پروفیشنل ڈاکٹر / انجینئر / اکاؤنٹنٹ / ہاؤس وائف / بزنس پرسن ہوں۔مجھے اس پروگرام میں شرکت سے کیا فائدہ ہو گا؟
جواب: آپ کے لیے اس پروگرام کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ تمام اہم مکاتب فکر کے نقطہ نظر اور دلائل کا مطالعہ کر سکیں گے۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا مسلک حق پر ہے؟ اس پروگرام میں آپ ہر ہر مسلک کے تفصیلی دلائل کا مطالعہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
اگر آپ علمی ذوق رکھتے ہیں لیکن اپنی پروفیشنل یا دیگر مصروفیات کی وجہ سے دینی مدارس یا جدید یونیورسٹیوں میں فل ٹائم تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تو پھر یہ پروگرام خاص طور پر آپ ہی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور آپ ہی اس پروگرام کے اصل مخاطب ہیں۔ اس میں آپ اپنے وقت کے حساب سے سیلف اسٹڈی کے ذریعے کچھ ہی عرصے میں دین کا گہرائی میں جا کر مطالعہ کر سکتے ہیں اور اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب کے لیے آپ کو اساتذہ کی خدمات بھی حاصل ہوں گی۔
سوال: میں ایک دینی مدرسے میں درس نظامی کا طالب علم ہوں۔ مجھے اس پروگرام میں شرکت سے کیا فائدہ ہو گا؟
جواب: دینی مدارس کے نصاب میں عام طور پر مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کا تقابلی مطالعہ نہیں کروایا جاتا۔ یا پھر اگر یہ مطالعہ کروایا جاتا ہے تو پھر کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسرے مسلک کو ہر صورت میں غلط اور اپنے مسلک کو ہر صورت میں صحیح ثابت کرنا ہے۔ اس پروگرام میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ تمام مسالک کا مکمل غیر جانبداری سے مطالعہ کروا دیا جائےاور ان کا پورا استدلال آپ کے سامنے آ جائے۔ اس کے بعد صحیح و غلط کا فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں۔
اس پروگرام میں بعض ایسے پہلو ہیں، جو دینی مدارس کے طلباء کے لیے خاص فوائد کے حامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ مدارس کے طلباء چونکہ دور جدید کے زندہ کلامی، فقہی ، سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل سے بہت زیادہ آگاہ نہیں ہوتے، اس وجہ سے جب وہ منبر و محراب سنبھالتے ہیں تو اپنے جدید تعلیم یافتہ مقتدیوں کے سوالات کے جواب نہیں دے سکتے۔ دور جدید کے زندہ مسائل کا تقابلی مطالعہ اس پہلو کوکور کر دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔ دینی مدارس میں ذریعہ تعلیم عربی ہوتا ہے جبکہ طلباء کی مادری زبان اس سے مختلف ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بہت مرتبہ طلباء بہت سے علمی نکات اور تصورات کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتے۔ اگر طلباء کو ان کی اپنی زبان میں تعلیم دی جائے، تو وہ کہیں بہتر طریقے سے ان امور کو سمجھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ مدارس کے نصاب تعلیم میں عام طور پر دینی تحریکوں ، تصوف اور روایت و جدیدیت کا مطالعہ شامل نہیں ہوتا۔ اس میں آپ ان امور پر امت کے اندر پائے جانے والے اہم اختلافات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کے مدرسے میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، وہ تقابلی مطالعہ پروگرام کیے نصاب کی نسبت زیادہ ایڈوانسڈ ہے تو ہمیں اپنی تجاویز دیجیے تاکہ ہم اس پروگرام کو مزید بہتر بنا سکیں۔
سوال: میں ایک یونیورسٹی میں ایم اے اسلامیات کا طالب علم ہوں۔ مجھے اس پروگرام سے کیا فائدہ ہو گا؟
جواب: یونیورسٹیوں میں ایم اے اسلامیات کا نصاب خاصا جدید اور جامع ہے تاہم اس میں بھی مسالک کا تقابلی مطالعہ اس گہرائی میں نہیں کروایا جاتا ہے، جو اس پروگرام کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ہماری اس حقیر سی کوشش کے بعد اگر یونیورسٹیوں میں اسلامک اسٹڈیز کے طلباء اپنے نصاب کے ساتھ ملا کر اس پروگرام کا مطالعہ کر لیں تو انشاء اللہ، تقابلی مطالعہ میں وہ بھی بہت اعلی درجے کی مہارت حاصل کر سکیں گے۔
اگر آّپ یہ محسوس کریں کہ آپ کی یونیورسٹی میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، وہ اس پروگرام کے نصاب کی نسبت زیادہ ایڈوانسڈ ہے تو ہمیں اپنی تجاویز دیجیے تاکہ ہم اس پروگرام کو مزید بہتر بنا سکیں۔
سوال: مجھے زیادہ وقت نہیں مل پاتا۔ کیا میں اس پروگرام سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں؟
جواب: جی ہاں۔ اگر آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے تو جو سبق، دیگر طالب علم مثلاً ایک دن میں مکمل کر لیتے ہیں، آپ چار دن میں مکمل کر لیجیے۔ اس طرح جو ماڈیول ایک عام طالب علم ڈیڑھ ماہ میں مکمل کرے گا، آپ چھ ماہ میں کر لیں گے۔ کچھ نہ ہونے سے، کچھ ہونا ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ اس طریقے سے انشاء اللہ چند ہی سال میں آپ بہت گہرائی میں دینی علوم کا مطالعہ کر لیں گے۔
حالات بھی وقت کے ساتھ بدلتے ہیں۔ اگر آپ آج اپنے مطالعے کو مثلاً آدھ گھنٹہ روزانہ دے پا رہے ہیں، تو کوئی مشکل نہیں کہ آپ کچھ عرصے بعد ایک گھنٹہ دے سکیں۔ اس طرح آپ کسی نہ کسی صورت میں اپنے مطالعے کو جاری رکھ سکتے ہیں۔
سوال: اس پروگرام کی فیس کیا ہے؟
جواب: اس پروگرام کی کوئی فیس ہم وصول نہیں کرتے البتہ طلباء میں کمٹمنٹ پیدا کرنے کے لیے کچھ فیس رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ جتنی رقم ہر ماہ با آسانی سے اد اکر سکتے ہیں، وہ اپنے قریب کسی بھی ضرورت مند، جو پیشہ ور بھکاری نہ ہو، کو نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ ادا کر دیجیے اور اپنی پراگریس رپورٹ میں یہ بتا دیجیے کہ آپ نے فیس ادا کر دی ہے۔
سوال: کم از کم کتنی فیس ادا کرنا ضروری ہے؟
جواب: اس کا انحصار آپ کی آمدنی پر ہے۔ جو رقم آپ آسانی سے ہر ماہ نکال سکیں، فیس کی مد میں کسی ضرورت مند کو ادا کر دیجیے۔
سوال: آپ نے اس پروگرام میں شریک ہونے کی فیس کیوں رکھی ہے؟ جو لوگ فیس ادا نہیں کر سکتے، وہ کیا کریں؟
جواب: فیس رکھنے کے دو مقاصد ہیں: ایک تو یہ کہ طلباء و طالبات میں اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت پیدا کی جائے۔ ہم اس بات کی عادت اس پروگرام کے شرکاء میں پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی آمدنی میں اپنے ان بہن بھائیوں کو بھی شریک کریں، جو کسی وجہ سے معاش کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ اس فیس کو اپنے آخرت کے بینک میں ڈپازٹ کر رہے ہیں جہاں آپ کو آپ کی نیت کے مطابق ہزاروں لاکھوں گنا منافع کے ساتھ اس کا بدلہ ملے گا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ فیس ادا کرنے سے طالب علم عام طور پر اپنی پڑھائی میں ریگولر ہو جاتے ہیں اور ذمہ داری سے مطالعہ کرتے ہیں۔
جو طلباء و طالبات فیس ادا کرنے سے قاصر ہیں، ہم اس پر ان سے اصرار نہیں کرتے۔ تاہم اگر وہ بالکل ہی معمولی سی رقم جیسے دس بیس روپے بھی ادا کر سکیں تو اس سے انفاق فی سبیل اللہ کی عادت پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
سوال: اس پروگرام میں ایڈمیشن کا طریقہ کیا ہے؟
جواب: رجسٹریشن فارم ڈاؤن لوڈ کر کے پر کیجیے اور ای میل کر دیجیے۔ انشاء اللہ جلد سے جلد آپ کو کورس میٹریل فراہم کر دیا جائے گا۔
زیر تعلیم طلباء و طالبات کے سوالات
جو طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں، وہ عام طور پر یہ سوالات پوچھتے ہیں۔
سوال: میں اس پروگرام کا طالب علم ہوں۔ آپ نے جو ڈاؤن لوڈ لنک فراہم کیے ہیں، وہ کام نہیں کر رہے؟
جواب: اگر ڈاؤن لوڈ لنکس کام نہیں کر رہے تو آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر کے بعد دوبارہ کوشش کیجیے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سرور ڈاؤن ہونے کی وجہ سے کوئی کتاب ڈاؤن لوڈ نہیں ہو سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔ اس میں بھی اگرناکامی ہو تو ہم سے رابطہ کیجیے۔ انشاء اللہ ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو مطلوبہ کتاب جلد از جلد فراہم کر دی جائے۔
سوال: میں نے کتاب ڈاؤن لوڈ کی تھی مگر اس کی ایک فائل کھل نہیں رہی؟
جواب: شاید یہ فائل پوری ڈاؤن لوڈ نہیں ہو سکی ہے۔ متعلقہ ویب پیج پر فائلوں کا سائز دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ فائل کا سائز چیک کر لیجیے اور اگر دونوں میں فرق ہے تو اس فائل کو دوبارہ ڈاؤن لوڈ کر لیجیے۔
سوال: میں اس پروگرام میں ایڈمیشن لے چکا ہوں۔ کیا میں آپ کی کتب کے علاوہ مزید کتب کا مطالعہ کر سکتا ہوں؟
جواب: اگر آپ کے پاس اضافی وقت ہے تو ضرور کیجیے۔ ہر کتاب کے آخر میں ببلیو گرافی دی گئی ہے جس میں اکثر کتب کے ڈاؤن لوڈ لنک بھی دیے ہوئے ہیں۔ آپ چاہیں تو براہ راست ان کتب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
سوال: میرے ذہن میں دوران مطالعہ جو سوالات پیدا ہوں، ان کے بارے میں ، میں کیا کروں؟
جواب: بلاتکلف ای میل کر دیجیے۔ برائے کرم کوشش کیجیے کہ ایک ای میل میں ایک ہی سوال درج کیجیے اور میل کے subject میں اس کا کوئی مناسب عنوان لکھ دیجیے تاکہ ہمیں انہیں ترتیب دینے اور جواب لکھنے میں آسانی ہو۔
سوال: مجھے کتنی دیر میں اپنے سوالات کا جواب ملے گا؟
جواب: ہماری کوشش ہے کہ آپ کو 24 گھنٹے میں جواب مل جائے۔ تاہم بیماری، سفر، دفتری مصروفیت، انٹرنیٹ کی عدم دستیابی یا کسی اور مجبوری کے باعث اگر تاخیر ہو جائے تو اس کے لیے ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں۔
سوال: آپ دینی موضوعات پر تحریریں لکھنے اور سوالات کا جواب دینے کے لیے اتنا وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟
جواب: اصل میں میری جاب کی نوعیت یہ ہے کہ کام پراجیکٹس کی صورت میں آتا ہے۔ اس میں بھی بہت سا وقت دوسروں سے فالو اپ میں گزرتا ہے۔ اس وجہ سے مجھے یہ موقع مل جاتا ہے کہ درمیانی وقفوں میں ، میں اپنا کوئی کام کر سکتا ہوں۔ آج کل صبح فجر کے بعد دو گھنٹے اس کام کے لیے مل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دفتر آنے اور جانے کے دوران بھی یہی کام کرتا ہوں۔ ہفتے میں دو دن چھٹی ہوتی ہے تو مزید وقت مل جاتا ہے۔
اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ میں غیر متوازن زندگی گزار رہا ہوں۔ اپنی کمپنی سے میں چونکہ تنخواہ وصول کرتا ہوں، اس وجہ سے اپنے رزق کو حلال کرنے کے پہلی ترجیح دفتری مصروفیات ہیں۔ میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے کسی پراجیکٹ کی ڈیڈ لائن کبھی مس نہ ہو اور اس کا معیار بھی پروفیشنل اسٹینڈرڈز کے مطابق ہو۔ روزانہ شام کو اور ویک اینڈز پر فیملی کو بھی بھرپور وقت دیتا ہوں۔ ہفتے میں تین یا چار دن اسکواش یا ٹینس بھی کھیلتا ہوں اور رات کو آٹھ گھنٹے کی بھرپور نیند بھی لیتا ہوں تاکہ اگلے دن کام کی کوالٹی بہتر ہو اور صحت بھی اچھی رہے۔ شام کو یہ سب وقت اس وجہ سے مل جاتا ہے کہ میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔ بس یوں کہیے کہ اللہ تعالی نے ٹائم مینجمنٹ کا تھوڑا سا شعور دیا ہے جس کی وجہ سے یہ سب کام احسن انداز میں ہو ہی جاتے ہیں۔
سوال: مجھے مطالعے کا وقت نہیں مل پا رہاِ؟ اس کا کوئی حل بتائیے۔
جواب: اس کا حل ٹائم مینجمنٹ ہے۔ ان کا بھرپور استعمال کر لیجیے تو وقت ہی وقت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بعض ٹپس یہ ہیں:
۔۔۔۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم وقت کی اہمیت کو سمجھیں۔ اللہ تعالی نے روزانہ ہمیں 86400 سونے کے ذرات دیے ہیں کیونکہ ہر سیکنڈ سونے کے ایک ذرے کے برابر ہے۔ اب ہماری مرضی ہے کہ ہم ان ذروں سے دنیا یا آخرت کا کوئی فائدہ خرید لیں یا انہیں کچرے کے ڈھیر پھینک دیں۔ وقت کو ضائع کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے سونے کے ذرات کے کچرے میں پھینک دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔ اپنی ترجیحات متعین کیجیے۔ ہفتے بھر میں جو کام آپ کرتے ہیں، اس کی ایک فہرست تیار کیجیے اور پھر انہیں ضروری اور غیر ضروری میں تقسیم کر لیجیے۔ آپ کو بہت حیرت ہو گی کہ ہمارے وقت کا زیادہ تر حصہ ان امور میں صرف ہوتا ہے، جو غیر ضروری ہوتے ہیں اور ان کا نہ تو دنیا میں کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ آخرت میں۔ مثلاً ٹی وی پر الٹے سیدھے پروگرام دیکھنا، ہر وقت منفی خبریں سن سن کر اپنا بلڈ پریشر ہائی کرنا، اخبار پڑھنے پر بہت زیادہ وقت صرف کرنا، سیاست پر بحث کرنا، فضول گپیں ہانکنا، فضول ویب سائٹس براؤز کرنا ، چیٹنگ کرنا اور ایسے دینی پروگرامز میں شرکت جن میں ہم کچھ سیکھ کر نہ اٹھیں۔ یہ سب وہ امور ہیں جن میں استعمال ہونے والے وقت کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں وقت کے بہت سے ایسے وقفے ملتے ہیں، جنہیں ہم لوگ بالکل ضائع کر دیتے ہیں۔ جیسے دفتر یا دکان پر آنے جانے کا وقت آپ استعمال میں لا سکتے ہیں۔ اگر آپ بس میں سفر کر رہے ہیں یا کار خود ڈرائیو نہیں کر رہے تو مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ڈرائیو کر رہے ہوں تو کیسٹ یا سی ڈی پر کوئی علمی گفتگو سن سکتے ہیں۔ اسی طرح دفتر میں وہ وقت، جب آپ کسی کام یا ڈاکومنٹس وغیرہ کا انتظار کر رہے ہوں ، کو انٹرنیٹ براؤزنگ یا چیٹنگ میں صرف کرنے کی بجائے کسی منظم استعمال میں لا سکتے ہیں۔ دکان پر اگر گاہکوں کا رش نہ ہو، تو اس وقت کو مطالعے میں صرف کر سکتے ہیں۔ غور کیجیے تو شاید ہفتے میں ہمارے وقت کا نصف حصہ اسی طرح ضائع ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ ایسے کام، جو آپ کسی اور سے کروا سکتے ہیں، کو ان کے حوالے کر دیجیے۔ مثلاً اگر آپ صاحب حیثیت ہیں تو گھر میں اس کام کے لیے ایک ملازم رکھ لیجیے۔ اس سے آپ کا بوجھ بھی ہلکا ہو گا اور ایک شخص کو روزگار بھی مل جائے گا۔ اگر آپ صاحب حیثیت نہیں ہیں تو یہ دیکھیے کہ کون سے ایسے کام ہیں جو آپ کے اہل و عیال یا ماتحت خوشی خوشی کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ مثلاً خواتین کو خرید و فروخت کا بہت شوق ہوتا ہے۔ اگر اس کام کی ذمہ داری آپ اپنی اہلیہ ہی پر ڈال دیں تو آپ کو کافی فراغت مل جائے گی۔ بچے بعض کام بڑے شوق سے کرتے ہیں، وہ ان سے کروا لیجیے۔
سوال: میں اس پروگرام کا ایک طالب علم ہوں اور کتب ڈاؤن لوڈ کر چکا ہوں۔ میں کنفیوز ہوں کہ کہاں سے شروع کروں؟
جواب: آپ کو کنفیوز ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جس ماڈیول کا مطالعہ کر رہے ہیں، اس کی کتاب میں سے ایک سبق روزانہ پڑھیےاور اس کی اسائنمنٹس کو حل کر نے کی کوشش کیجیے۔ کچھ ہی عرصہ میں آپ محسوس کریں گے کہ معاملات آپ کی سمجھ میں پوری طرح آ رہے ہیں۔
سوال: اس پروگرام میں آپ کس طرح درجہ بدرجہ تقابلی مطالعہ کا مطالعہ کروائیں گے؟
جواب: اس پروگرام کے دو لیولز ہیں: ابتدائی اور اعلی۔ بنیادی لیول پر یہ سات ماڈیول ہیں جن کا آپ مطالعہ کر رہے ہیں ۔ ان میں مسلمانوں کے اندرونی مکاتب فکر کا تقابلی مطالعہ ہے۔ انشاء اللہ اعلی لیول پر آپ مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ کریں گے مگر وہ اس وقت دستیاب نہیں ہے۔
سوال: اس پروگرام میں آپ کیا کیا ریڈنگ میٹریل فراہم کریں گے؟
جواب: تمام ماڈیولز کی ٹیکسٹ بکس دستیاب ہیں۔ اگر آپ مزید مطالعہ کرنا چاہیں تو ہر کتاب کے آخر میں تفصیلی ببلیو گرافی دی گئی ہے۔ اس میں لنکس بھی دستیاب ہیں۔
سوال: آن لائن مطالعہ سے میری آنکھوں میں درد ہو جاتا ہے۔ اس کا کیا حل ہے؟
جواب: اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یا تو آپ کی نظر کمزور ہو رہی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ کسی آئی اسپیشلسٹ سے نظر کا معائنہ کروائیے اور اگر یہ کمزور ہے تو انٹی ریفلکشن گلاسز لگوائیے۔ اس سے انشاء اللہ سر کا درد ختم ہو جائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جہاں آپ کا کمپیوٹر ہے، وہاں روشنی کی مقدار مناسب نہیں ہے۔ اس میں اضافہ کیجیے، تو انشاء اللہ یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ آپ تحریر کے فانٹ کو بڑا بھی کر سکتے ہیں اور بیک گراؤنڈ کو بھی تبدیل کر کے دیکھ سکتے ہیں۔
اگر پھر بھی یہ مسئلہ برقرار رہے تو آئی اسپیشلسٹ سے رجوع کیجیے اور ان کی رائے لیجیے۔ ایسی صورت میں بہتر ہو گا کہ آپ کمپیوٹر پر مطالعہ نہ کریں بلکہ میٹریل کو تھوڑا تھوڑا کر کے پرنٹ کر کے مطالعہ کیجیے۔ جو تفاسیر آیڈیو فارمیٹ میں دستیاب ہیں، انہیں آپ پڑھنے کی بجائے سن سکتے ہیں۔
سوال: پچھلے دنوں میں خاصا مصروف رہا ہوں، جس کی وجہ سے مطالعہ نہیں کر سکا۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جواب: مصروفیت کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ مصروفیت کے دنوں میں بھی چند منٹ مطالعے میں ضرور گزاریے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کی اسٹڈیز کا جو مومنٹم بنا ہو گا، وہ برقرار رہے گا۔
سوال: مطالعے کے دوران اگر میں بوریت محسوس کرنے لگوں تو کیا کروں؟
جواب: مطالعہ فوراٍ چھوڑ کر وہ کام کیجیے، جس کے لیے آپ کا دل چاہ رہا ہو۔ بوریت کے ساتھ مطالعہ، تعلیم کے لیے آپ کی دلچسپی اور ماٹیویشن کو ختم کردے گا۔
سوال: ایک ماڈیول کو کتنے عرصے میں مکمل کرنا ضروری ہے؟
جواب: اس کا انحصار آپ کو دستیاب وقت پر ہے۔ اگر آپ روزانہ ایک گھنٹہ مطالعے کو دے رہے ہیں تو پھر ایک ماڈیول آپ کو ایک سے ڈیڑھ مہینے میں مکمل کر لینا چاہیے۔ زیادہ وقت دے رہے ہیں تو اسی تناسب سے جلدی مکمل ہو جائے گا۔
سوال: گھر میں بچے وغیرہ دوران مطالعہ بہت ڈسٹرب کرتے ہیں؟ اس کا حل کیا ہے؟
جواب: اس کا فوری حل تو یہ ہے کہ آپ فی الحال کسی لائبریری یا مسجد میں بیٹھ کر مطالعہ کیجیے یا آفس آورز کے بعد ایک گھنٹہ وہیں بیٹھ کر مطالعہ کر لیجیے۔ اس کے علاوہ آہستہ آہستہ بچوں میں مطالعہ کی عادت پیدا کیجیے اور انہیں ان کی دلچسپی کی کتب لا کر دیجیے۔ اس سے انہیں اندازہ ہو گا کہ مطالعہ کس قدر دلچسپ چیز ہے۔ گھر کے اندر علمی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کیجیے تو اس سے سب کے لیے علم میں دلچسپی پیدا ہو گی۔
سوال: مجھے میرے سوال کا جواب اوپر دیے گئے سوال جواب میں نہیں مل سکا؟
جواب: پر ای میل کیجیے۔ ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو جلد از جلد جواب مل سکے۔