علماء کی کردار کشی

السلام علیکم

میں نے فلاں عالم کی ویڈیو دیکھی تھی۔ انہوں نے ایسی بات کہی جو خلاف اسلام تھی۔ ایسے لوگوں کی تردید کا طریقہ کیا ہے اور لوگوں کو ان کی گمراہی سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ انہیں منہ توڑ جواب کیسے دیا جائے؟

ایک بھائی

محترم بھائی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اس معاملے میں میرا موقف بالکل دوٹوک اور واضح ہے۔  ہمیں یہ حق تو اللہ تعالی نے دیا ہے کہ اگر کسی بھی شخص کی کسی بھی بات کو ہم غلط سمجھیں تو اپنا نقطہ نظر اپنے دلائل کے ساتھ احسن انداز میں بیان کردیں ، اور اس شخص کی جو غلطی ہم نے سمجھی ہے ، اسے بھی واضح کر دیں۔ لیکن اللہ تعالی نے ہمیں یہ حق نہیں دیا ہے کہ ہم کسی کی کردار کشی کریں اور اس کی نیت پر شک کریں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ وَلا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْراً مِنْهُنَّ وَلا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ (11) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنْ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلا تَجَسَّسُوا وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ (12)

اے اہل ایمان! کوئی قوم کسی دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی خواتین، دوسری خواتین کا مذاق اڑائیں۔ ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ ایک دوسرے کی عیب جوئی مت کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد فاسقانہ نام بہت ہی بری چیز ہے۔ جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔ اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس مت کیا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کی غیبت کرو۔ کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ تم اس سے کراہت محسوس کرتے ہو (تو غیبت سے بھی بچو۔) اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔(الحجرات)

سورۃ الاحزاب 33 ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور آپ اور فیملی کی مشکلات کا حل (Crisis)

آیات 1-11: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی فیملی پر پراپیگنڈا کی مشکلات، ان کے لیے احکامات اور جنگ خندق

دلوں کا حال اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ کسی شخص کی علمی رائے سے اس کے دل کا حال معلوم نہیں ہو سکتا ہے، اس وجہ سے بدگمانی ، غیبت، تجسس اور عیب جوئی جیسے کاموں سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے۔ خواہ کوئی بھی عالم ہو یا کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو، اس کے بارے میں ہمیں بدگمانی، تجسس، عیب جوئی اور غیبت سے روکا گیا ہے۔  

افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلکی تعصب میں ہمارے ہاں بعض بھائی اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ وہ اپنے مسلک کے لوگوں کے لیے تو  ان آیات کریمہ پر عمل کرتے ہیں لیکن دوسرے مسلک کے لوگوں کے لیےان آیات کو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ  دوسروں کی کردار کشی کر کے  وہ اپنے مسلک کو فروغ دے رہے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے اور وہ ایسا کر کے اپنے ہی مسلک کو بدنام کر رہے ہوتے ہیں۔  آج ہم انفارمیشن ایج میں رہ رہے ہیں۔ ہر شخص اس قابل ہے کہ وہ معلومات کی جانچ پڑتال کر سکے۔ جب ہم کسی کی کردار کشی کرتے ہیں تو قارئین  کے ذہن پر یہی امپریشن بیٹھتا ہے کہ ہمارے پاس اب دلیل کی قوت نہیں رہی اور اب ہم غنڈوں اور بدمعاشوں کی طرح گھٹیا قسم کے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔  اب ہم قرآن وسنت کی کسی دلیل سے نہیں بلکہ محض دھونس اور دھاندلی سے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ہم خود ہی بدنام ہوتے ہیں اور اپنے مسلک کو بھی بدنام کرتے ہیں۔

اللہ تعالی نے ہمیں قرآن و حدیث کی دلیل کی بنیاد پر اپنا موقف پیش کرنے اور دوسرے کی غلطی کو واضح کرنے کی اجازت تو دی ہے مگر کسی کی کردار کشی کی اجازت ہرگز نہیں دی۔  اس وجہ سے جو بھائی کسی بھی عالم کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھتے ہیں، میں انہیں بھی نصح اور خیرخواہی کے جذبے سے یہی مشورہ دوں گا کہ وہ دلائل کے ذریعے ان کی غلطی واضح کر دیں۔ ہمارے قارئین اتنے ذہین ہیں کہ وہ دونوں جانب کے دلائل کا مطالعہ کر کے درست نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔

اگر میں اپنی کسی تحریر میں میں اس اصول کا خیال نہیں رکھا سکا اور  کہیں ذاتیات پر اتر آیا ہوں تو برائے کرم میری بھی اصلاح کر دی جائے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

آپ کی بات درست ہے مگر مذکورہ عالم اپنی تحریروں میں بھی اسی طرح مخالفین کے لیے تند و تیز لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

ان کو بھی میں خیر خواہی کے جذبے کے تحت مشورہ دوں گا کہ ان کی تقریر و تحریر میں جو نازیبا باتیں موجود ہیں، وہ ان پر نظر ثانی فرما لیں تو  یہ ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بہتر ہو گا۔ تیز و تند لہجے سے کبھی کسی کی اصلاح نہیں ہو سکتی ہے۔ اصلاح  کے لیے تو خون جگر جلانا پڑتا ہے، راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرنا پڑتی ہیں، خلوص نیت، خیر خواہی  اور عجز و انکسار درکار ہوتا ہے، اور اس کے بعد بھی یہ اللہ تعالی کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کسے نیکی کی توفیق دے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

علماء کی کردار کشی
Scroll to top