Dear Mubashir / Rehan
Just read these ..and imagine what is the message behind this how people accept thier “Ibleesi Taweelaat” with the lable of Sharai Taweel !
Kamran Usmani
Yanbu, Saudi Arabia
Dear Kamran sb
Assalam o alaikum
Very sorry to read this justification. The people involved in the war are extremely emotional. It is difficult to tell them something. We should address the ones who are not yet involved in that and tell them the following:
1. Suicide bombing is not the primary issue. The main issue is whether a non-government organization has the right to wage a Jehad and whether it is allowed to kill innocent citizens in a war? The Quran and Sunnah are obvious on these issues that they are not permitted under any circumstances.
2. The writer has provided a justification of killing innocent people that if the enemy has kept innocent citizens ahead of them to protect themselves, it is allowed to attack on them. The facts of the present-day wars are different. It is not their enemy (armies) who has made a human shelter. It is so-called Mujahidin who have hidden themselves behind the human shelter. They attack and hide among common citizens. They are coward enough to seek refuge in populated areas in order to avoid any massive attack. In addition to that, they bomb in mosques, markets etc. where their so-called enemy is not present.
You have correctly title this as “Ibleesi Taweelaat”. They are twisting the religion in favor of their acts.
wassalaam
Muhammad Mubashir Nazir
I think mubashir replied quite well. I also received a much detailed argument book on the topic. then I replied to that person and this letter was published in my risala and then on site. following is the letter for you friends,
I am also writing some matter for mulaqat section of December 2010. It will also cover and counter this issue of suicide bumming in a very interesting way,. do read it when it published.
regards
Rehan
محترم محمداحمدصاحب
السلام علیکم
آپ کی ای میل کے ساتھ فدائی حملے خودکشی یاعبادت کے عنوان سے ایک تفصیلی تحریر موصول ہوئی۔اس تحریرکے آخر میں ایک دعادرج ہے کہ ’’اے اللہ ہمیں حق کی راہ دکھا اوراس پر چلنے کی توفیق دے ۔ہمیں ہدایت‘تقویٰ اورسیدھاراستہ دکھا اور ہرقسم کی لغزشوں سے محفوظ رکھ۔‘‘
ًمجھے نہیں معلوم کہ آپ نے یہ دعارسمی طورپردرج کی ہے یاواقعتا سنجیدگی کے ساتھ یہ دعا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کی گئی ہے ۔تاہم میں بحیثیتِ مسلمان آپ سے یہ حسن ظن رکھتا ہوں کہ آپ نے پوری دیانت داری کے ساتھ اس دعا کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا ہو گا۔اسی لیے آپ کی بھیجی ہوئی تحریر کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش ہیں ۔
اس تحریرکاخلاصہ یہ ہے کہ موجودہ دورمیں بعض مسلمانوں کی طرف سے کیے جانے والے خودکش حملے ایک عظیم عبادت ہیں اوران کے لیے خودکش حملوں کے بجائے فدائی حملوں کی تعبیر استعمال کرنی چاہیے ۔میں آپ کے دلائل پربعدمیں تبصرہ کروں گاپہلے یہ بتاناچاہتا ہوں کہ فدائی حملوں کی اصطلاح کاماخذکیا ہے ۔یہ اصطلاح حسن بن صباح کے ان پیروکاروں کے لیے استعمال کی جاتی تھی جس نے چھٹی صدی ہجری میں پورے عالم اسلام میں فسادبرپا کر دیا تھا اس شخص کے پیروکاراپنی جان سے بے نیاز ہوکر عالم اسلام کی اہم ترین شخصیات کواپنے خنجروں کا نشانہ بناتے اس کے بعدنتیجے کے طورپریہ بھی مارے جاتے ۔حسن بن صباح ان لوگوں کو اللہ، رسول اورجنت کے نام پران فدائی حملوں کے لیے آمادہ کرتا تھا۔ اس کے پاس بھی اسی قسم کے دلائل تھے جیسے دلائل آپ کی بھیجی ہوئی اس تحریر میں موجود ہیں ۔ وہ بھی فدائین کو جنت کا لالچ دے کر بے گناہ انسانوں کا خون کرواتا تھا جس طرح خود کش حملہ آور تیار کرنے والے لوگ آج معصوم اور ناسمجھ نوجوانوں کو جنت کا لالچ دیتے ہیں ۔فدائی حملوں کی اصطلاح ہی یہ بتا رہی ہے کہ آپ کی پوری فکروسوچ کاماخذنہ قرآن ہے ، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے ، نہ صحابۂ کرام کاراستہ ہے اورنہ اسلاف کابیان کردہ دین ہی اس سوچ کا ماخذ ہے ۔ بلکہ اس کا ماخذ حسن بن صباح کی وہ سوچ ہے جو سر تا سر فساد پر مبنی تھی۔
آپ نے خودکش حملوں کے حق میں جودلائل پیش کیے ہیں وہ پہلے سے ایک نقطۂ نظر قائم کر کے قرآن و حدیث کو زبردستی اپنے حق میں پیش کرنے کی ایک بہت بری مثال ہے ۔قرآن وحدیث اورعلماکے اقوال میں جوکچھ آیا ہے اور جو آپ نے نقل کیا ہے اس کا تعلق شہادت کی تمنا، دشمن کے مقابلے میں بہادری دکھانے ، اپنی جان کی بازی لگا کر اللہ کی راہ میں دشمن سے لڑ نے ، انہیں مارنے اور ان کے ہاتھوں مارے جانے کے حوالے سے ہے ۔بلاشبہ یہ سب دین کا مطالبہ ہے ۔مگر بدقسمتی سے آپ نے اس پورے موادکواس طرح پیش کیا ہے کہ جیسے اس سے خودکش حملوں کی کوئی تائیدنکل رہی ہو۔دین کے لیے جان دینا، شہادت کے حصول کے لیے موت کی تمنا کرنا ایک بہت اعلیٰ مقام ہے اس کا تعلق اس خود کش حملہ آور سے کیسے ہو گیا جوجسم پر بم باندھ کرعوامی مقامات پر خود کو دھماکے سے اڑ ادیتا ہے اوردرجنوں معصوم لوگوں کی جان لے لیتا ہے ۔ جو غیر مقاتلین (غیرمسلموں اور بے گناہ مسلمان کو جینے کے حق سے محروم کر دیتا اور ان کے خاندانوں کو رونے تڑ پنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے ۔جو بے قصور لوگوں کو زندگی بھر کے لیے معذور ، عورتوں کو بیوہ، اور بچوں کو یتیم و بے سہارا کر دیتا ہے ۔آپ کی بات کتنی کمزور اور ناقص ہے اور دین و اخلاق کی روشنی میں اس پر کیسے کیسے اعتراضات واقع ہوتے ہیں ، اس کا احساس آپ کو بھی ہے ۔ چنانچہ آپ نے اعترضات کے جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے ، مگراس عمل سے یہ مزید واضح ہو گیا ہے کہ آپ کے پاس اپنی بات کے حق میں کچھ دلائل ہیں اور نہ اپنے نقطۂ نظر کے دفاع میں کوئی صحیح اور معقول بات۔
آپ نے پہلا اعتراض یہ نقل کیا ہے خودکش حملے میں آدمی اپنے آپ کوخودہلاک کرتا ہے جبکہ قرآن وحدیث میں آنے والے فضائل واحکام دشمن کے ہاتھ سے مارے جانے میں ہے ۔ اب دیکھیے کہ اس اعتراض کاجواب آپ نے کیادیا ہے ۔آپ نے جواب میں وہ مصدقہ اور غیرمصدقہ واقعات پیش کیے ہیں جوصرف یہ بتا رہے ہیں کہ کسی مجاہدنے دشمن کومارنے کی کوشش کی لیکن غلطی یا اتفاق سے اس کی تلواراسی کولگ گئی۔چنانچہ اس کو بھی شہادت کی فضیلت سنائی گئی۔سوال یہ ہے کہ اس بات کا اپنے ارادے اور عزم سے خود کو ہلاک کر کے بے گناہ لوگوں کو مارنے والے شخص سے کیا تعلق؟
آپ نے دوسرے اعتراض کے تحت اپنا یہ نقطۂ نظر بیان کیا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ تعاون کرنے والے مسلمانوں کا قتل جائز ہے ۔اس مقصد کے لیے علماکی کچھ تحریریں پیش کی ہیں جوخودکش حملوں میں مرنے والوں کے حوالے سے بالکل غیرمتعلق ہیں ۔بدقسمتی سے آپ نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسلام کی تعلیمات کو بہت مسخ کر کے پیش کیا ہے ۔سیرتِ طیبہ کا سبق تو بالکل الگ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے اصحاب نے میدانِ جنگ میں تلوار اٹھانے والوں کے سواکبھی لوگوں کو قتل نہیں کیا، حتیٰ کہ میدان جنگ میں جوقیدی پکڑ ے گئے ان کو فدیہ لے کر یا بغیر فدیہ لیے آزاد کر دیا گیا۔آپ دشمن سے تعاون کرنے والوں کے قتل کی بات کرتے ہیں ۔ یہ لوگ دشمن سے تعاون نہیں کر رہے تھے بلکہ اس سے کہیں آگے بڑ ھ کر اس کے ساتھ مل کر لڑ نے کے لیے آئے تھے ۔مگر حضور نے ان کو پھر بھی معاف کر دیا۔
حضور کی مدنی زندگی کے گیارہ برسوں میں مسلمانوں کو 72جنگی مہمات پیش آئیں اور ان میں سے صرف ایک موقع پر جنگی قیدیوں کو قتل کیا گیا ۔ یہ معاملہ بنو قریظہ کے قیدیوں کے ساتھ ہوا تھا۔ مگر یہ فیصلہ رسول اللہ کا نہیں تھا بلکہ خود بنو قریظہ نے اس شرط پر ہتھیار ڈالے تھے کہ ان کا فیصلہ قبیلۂ اوس کے سردار سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کریں گے جو ان کے حلیف تھے ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے تورات کے قانون کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ ان کے تمام لڑ نے والے مردوں کو قتل کیا جائے اور خواتین اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے ۔
یہ ہمارے نبی کی اعلیٰ سیرت اور اعلیٰ اخلاق ہے کہ بدترین دشمنوں کی جان بھی آپ سے امان پالیتی تھی۔کتنی عجیب بات ہے کہ آج اسی نبی کا نام لے کر لوگ مسلمانوں کے قتل کا جواز فراہم کر رہے ہیں ۔
آپ نے تیسرا اعتراض یہ نقل کیا ہے کہ خودکش حملوں میں بے گناہ شہری اور عام مسلمان بھی مارے جاتے ہیں ۔اس کے جواب میں آپ نے ایک بارپھربالکل غیرمتعلق باتیں نقل کی ہیں ۔ مثلاً’منجنیق‘ سے ہونے والی سنگ باری کے واقعات کو اس مفروضہ کے تحت دلیل کے طورپرپیش کیا ہے کہ اس میں عام لوگ بھی زدمیں آ جاتے ہیں ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے مواقع پرعام لوگ ہمیشہ پناہ گا ہوں میں چھپے ہوتے ہیں اوراگرکوئی شخص زدمیں آبھی جائے تو وہ محض ایک اتفاق ہوتا ہے ۔اس سنگ باری کا اس خود کش حملہ آور سے کیا تعلق جسے اپنی آنکھوں سے نظرآتا ہے کہ اس کے اردگردبہت سے بے گناہ لوگ موجودہیں ، مگروہ اپنے ہدف کونشانہ بنانے کے لیے ان کوبھی مارڈالتا ہے ۔جبکہ یہ وہ بے خبرلوگ ہوتے ہیں جنہیں حملہ سے ایک لمحے پہلے تک بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا۔’ہوٹل میرٹ‘ میں ہونے والے حالیہ خودکش حملے اوراس جیسے دیگر حملوں میں تو بظاہرتوکوئی ہدف بھی سامنے نہیں تھا۔ ایسے حملوں میں سو فیصد عام ہوگ ہی مرتے ہیں ۔
موجودہ دورمیں ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے دینِ اسلام بدنام ہورہا ہے ۔ نبیوں اور رسولوں نے توہمیشہ ظلم سہہ کر دین حق کی دعوت دی تھی، مگرآج خود کش حملہ آور مسلمانوں اوربے گناہ لوگوں کو مارکر خود ظالم بن چکے ہیں اوراس ظلم کی تاویل کے لیے وہ قرآن وسنت کاسہارابھی ڈھونڈرہے ہیں ۔اگرآپ نبیوں کے سچے پیروکا رہیں توظلم سہہ کر دین حق دوسروں تک پہنچائیے ۔یہ کام اگرنہیں کرسکتے تودین کے نام پراپنی جنگیں لڑ کر دین کوبدنام مت کریں ۔
آخر میں ایک بات ذاتی نوعیت کی عرض کرنی ہے ۔ میرا ایک بہت قریبی عزیز اور دوست ایک خود کش حملے کے نتیجے میں مارا گیا تھا۔وہ اپنے گھرانے کا واحد کفیل تھا اوراس کے بعد وہ پورا خاندان برباد ہو گیا۔ اس کی نوجوان بیوی، دو چھوٹی چھوٹی بچیوں ، نیم پاگل ہوجانے والی بوڑ ھی ماں ، سسکتی اور بلکتی بہنوں کی بربادی کے ذمہ داروں کو میں عرصے سے ڈھونڈ رہا تھا۔ آج آپ نے ای میل بھیج کر میری ان قاتلوں ان ظالموں سے ملاقات کرادی۔خدا اور رسول کے نام پر کھڑ ے ہوئے ان قاتلوں اوران ظالموں سے میں دریافت کرنا چا ہوں گاکہ کل قیامت کے دن جب اس نوجوان کی سوختہ لاش لائی جائے گی اور آسمان و زمین کا پروردگار اسے زندہ کر کے پوچھے گا کہ تجھے کس جرم میں مارا گیا تو یہ ظالم کیا جواب دیں گے ؟
والسلام
ریحان احمد یوسفی
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.