احیائے اسلام کے لئے درکار کام

سر، میرا نام عبدالروؤف ہے۔ میں ایک پاکستانی مسلمان ہوں اور دوبئی میں کام کرتا ہوں۔ میں نے آپ کی ویب سائٹ پر آپ کا پروفائل پڑھا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جنت میں جگہ دے۔ آمین۔

میں آپ کو پہلی مرتبہ لکھ رہا ہوں۔ میں نےآپ کا ویب پیج “باب ششم:  الحاد ، اکیسویں صدی اور ہماری ذمہ داریاں” پڑھا۔ جو کہ اس لنک پر دستیاب ہے۔

آپ کی بعض عبارتوں سے مجھے کنفیوژن ہوئی۔ ممکن ہے کہ آپ نے بعض مذہبی گروہوں کے بارے میں ابھی تحقیق مکمل نہ کی ہو یا آپ نے غلطی نے انہیں نظر انداز کر دیا ہو۔ میں آپ کی ان عبارتوں سے اختلاف رکھتا ہوں اور اس ضمن میں بعض سوالات میرے ذہن میں آئے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہی بہتر ہے کہ آپ سے براہ راست اس ضمن میں پوچھ لوں۔ امید ہے کہ آپ اس کا برا نہیں مانیں گے۔

جزاک اللہ خیرا

عبدالروؤف

دبئی

نومبر 2010

آپ کا پہلا بیان

اس وقت جو لوگ دین کی خدمت کررہے ہیں، ان کا ہدف بالعموم اتنا جامع اور متعین نہیں ہے۔ عام علماء بس کسی طرح اپنے روایتی ورثے کی حفاظت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ ان دو مدارس (نام ظاہر کرنا مناسب نہیں) کے بارے میں جانتے ہیں؟

آپ کا دوسرا بیان

بعض دینی جماعتوں نے اپنا ہدف سیاسی نظام کی تبدیلی تک محدود کر لیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کے بعد کے مسائل پر کسی نے غور کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس کے لئے کوئی ایکشن پلان تیار کرنے کی کسی نے زحمت کی ہے۔ اگر یہ لوگ اسلام کی بنیاد پر دور جدید کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی ماڈلز تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہوتے تو اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ موجودہ حکمرانوں میں سے کوئی اسے نافذ کرنے پر تیار ہو جاتا۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے (ایک دینی سیاسی جماعت جس کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں) کے بارے میں کبھی کچھ پڑھا ہے؟

آپ کا تیسرا بیان

یہ حقیقت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اب تک اسلام پسند افراد اور تحریکیں الحاد کی بنیاد پرقائم ہونے والے نظریات جیسے جمہوریت، سیکولر ازم اور کیپیٹل ازم وغیرہ کے اسلامی بنیادوں پر قائم مربوط اور ترقی یافتہ متبادل پیش نہیں کرسکے۔

میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ کیسے اخذ کر لیا کہ ہم مسلمان اسلام کے احیا کا درکار کام نہیں کر سکے ہیں۔ میں آپ کو (اس دینی سیاسی جماعت کی) کچھ ویب سائٹس کے لنک بھیج رہا ہوں۔ انہیں دیکھیے اور بتائیے کہ کیا وہ درست سمت میں کام نہیں کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو مجھے اس مسئلے کا حل بتائیے۔

مجھے اگرچہ ان کے نظریات سے اتفاق ہے مگر میری ریسرچ ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے اور میں کسی جماعت کا ممبر نہیں ہوں۔

محترم عبدالروؤف صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کی ای میل، تاثرات اور دعاؤں کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ سوچنے سمجھنے والا ذہن رکھتے ہیں اور کسی کی بات پر محض پڑھ کر ہی یقین نہیں کر لیتے بلکہ اس کا اپنے ذہن سے تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھی عادت ہے، اسے برقرار رکھیے کیونکہ اسی سے انسان درست نتائج تک پہنچتا ہے۔

چونکہ اصل تحریر اردو میں ہے، اس وجہ سے آپ کے سوالات کے جواب میں اردو میں تحریر کر رہا ہوں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ ان دو مدارس (نام ظاہر کرنا مناسب نہیں) کے بارے میں جانتے ہیں؟

جواب: جی ہاں۔ ان مدارس کے بارے میں مجھے علم ہے۔ ان کے ہاں سلیبس اور نظام تعلیم میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، وہ قابل تعریف ہیں۔ یہ بات بہرحال حوصلہ افزا ہے کہ ایسے ادارے وجود میں آ رہے ہیں جن میں مدارس کے نظام تعلیم کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ بہرحال اب بھی حقیقت ہے کہ ابھی ایسے مدارس کی تعداد بہت کم ہے اور ان کا معاملہ استثنائی ہے۔ اگر آپ بطور سیمپل، جیسے ۱۰۰ مدارس کا دورہ کریں تو شاید ایسے مدارس کی تعداد ۱۰ بھی نہ ہو جہاں دور جدید کے تقاضوں کو کسی حد تک پورا کیا جاتا ہے۔ میں نے اسی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ لیکن آپ نے درست توجہ دلائی کہ اس مثبت تبدیلی کو مجھے اپنی تحریر میں شامل کرنا چاہیے۔ اس لئے میں تحریر میں کچھ جملوں کا اضافہ کر رہا ہوں۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے (ایک دینی سیاسی جماعت جس کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں) کے بارے میں کبھی کچھ پڑھا ہے؟

میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ کیسے اخذ کر لیا کہ ہم مسلمان اسلام کے احیا کا درکار کام نہیں کر سکے ہیں۔ میں آپ کو اس جماعت کی کچھ ویب سائٹس کے لنک بھیج رہا ہوں۔ انہیں دیکھیے اور بتائیے کہ کیا وہ درست سمت میں کام نہیں کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو مجھے اس مسئلے کا حل بتائیے۔

جواب: میں اس جماعت کے متعلق جانتا ہوں اور ان کے لٹریچر کا کافی مطالعہ کیا ہے۔ آپ کے بھیجے ہوئے لنکس کو میں نے دیکھ لیا ہے۔

میری ایک عادت ہے کہ میں کسی متعین شخص یا گروہ پر کبھی تنقیدی تبصرہ نہیں کرتا کیونکہ اس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ اس کے برعکس میں کوشش کرتا ہوں کہ اس تصور یا عمل کو ہدف تنقید بنایا جائے جسے میں غلط سمجھ رہا ہوں۔

چونکہ آپ نے یہ بیان کیا ہے کہ آپ تحقیق کر رہے ہیں، اس وجہ سے آپ کی خدمت میں چند معروضات پیش کرتا ہوں۔ یہ کسی شخص یا گروہ کے خلاف نہیں ہیں بلکہ مخصوص تصورات اور عمل سے متعلق ہیں۔

نظریہ سازش

ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں سے بالعموم میرا ایک نظریاتی اختلاف ہے اور وہ ہے ذہنیت اور دنیا کو دیکھنے کے انداز کا۔  مذہبی سیاسی جماعتوں کے ہاں بالعموم تمام پروگرامز کی بنیاد ایک ہے اور وہ ہے “نظریہ سازش”۔ اس سے اگر کہیں استثنا پایا جائے تو مجھے خوشی ہو گی۔

ہمارے ہاں بالعموم یہ سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب ہے دوسروں کی سازشیں۔ مجھے اس سے اتفاق ہے کہ ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوئیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے بھی اپنے دشمنوں کے خلاف سازشیں کیں۔ پہلے ان کی سازشیں ناکام ہوتی تھیں اور ہماری کامیاب۔ اب معاملہ الٹا ہے۔

اصل اختلاف مجھے اس سے ہے کہ ہم ان کی سازشوں کی کامیابی کی وجوہات تلاش کم ہی کرتے ہیں۔ ان سازشوں کی کامیابی کی اصل وجہ ہے ہماری اخلاقی کمزوری۔ سازشیں بذات خود ہمارے زوال کا سبب نہیں ہیں۔ اصل سبب یہ اخلاقی کمزوری ہے۔ ہمارے ہاں دیانت و امانت کا فقدان ہے اور کرپشن بہت۔ یہی وجہ ہے کہ دشمنوں کو ہمارے ہاں بکاؤ مال قسم کے لوگ باآسانی مل جاتے ہیں، چنانچہ ان کی سازشیں کامیاب ہو جاتی ہیں۔

میرے نزدیک کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہم اپنی اخلاقی کمزوری کو دور کرنے کی جدوجہد کریں نہ کہ دشمنوں کی سازشوں کا رونا روتے رہیں۔ اگر ہم نے اپنا آپ مضبوط کر لیا تو پھر دشمن کی کوئی سازش کامیاب نہ ہو گی۔

تعمیری ذہنیت

دنیا بھر کے مسلمان اکٹھے ہو جائیں اور خلافت راشدہ کا دوبارہ احیا ہو جائے، یہ میرا بھی خواب ہے۔ لیکن حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ  لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صحیح خلافت راشدہ بہت کم عرصہ ہی مسلمانوں کے ہاں قائم رہ سکی۔ اس کے بعد اس کی جگہ بادشاہت نے لے لی۔ اگر کوئی بادشاہ اچھا تھا تو اس کا دور خلافت راشدہ کے قریب رہا ورنہ نہیں۔ سلطنت عثمانیہ کو لوگ غلط طور پر خلافت کہتے ہیں ورنہ اس میں اور عام بادشاہت میں کوئی فرق نہ تھا۔

اس خلافت راشدہ کو قائم  کیسے کیا جائے، اس کے لئے لائحہ عمل کے معاملے میں میرا عمومی مذہبی سیاسی جماعتوں سے شدید اختلاف ہے۔ ریلیاں نکالنے، دھرنے دینے، پمفلٹ بانٹنے اور جلسے جلوس کرنے سے کبھی خلافت قائم نہ ہو سکے گی۔ اس کے لئے صدیوں کے سنجیدہ کام کی ضرورت ہے۔ تخریب کے لئے کم وقت درکار ہوتا ہے مگر قومی تعمیر کا عمل طویل وقت لیتا ہے۔

میرے خیال میں ہم مسلمانوں کو اس ضمن میں یہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔ ہمیں اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی ایسی اخلاقی تربیت کرنی چاہیے کہ دنیا میں مسلمانوں کو اخلاق و کردار کے معاملے میں بطور مثال پیش کیا جا سکے۔ افسوس یہ ہے کہ بہت کم دینی حلقوں میں انسان سازی کو کام کا اصل مرکز بنایا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔ ہمیں جہالت کے خاتمے کو اپنا اولین ہدف بنانا ہو گا اور تعلیم کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ ایک طرف صحیح دینی تعلیم کو عام کرنا چاہیے اور دوسری جانب جدید علوم میں زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کرنی چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔ منفی جذبوں جیسے نفرت، حسد، تکبر، نظریہ سازش وغیرہ کی بجائے مثبت جذبات جیسے محبت، عجز و انکسار، کھلا ذہن، اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کو فروغ دینا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔ غیر مسلموں سے ہمیں اپنے تعلقات بہتر کرنا ہوں گے۔ انہیں اپنا “دشمن” سمجھنے کی بجائے “دین کی دعوت کا مخاطب” سمجھنا ہو گا۔ اس کے بعد ہمارا رویہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ پھر ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہو گا کہ ہر میدان میں انہیں کیسے پچھاڑا جائے بلکہ یہ کوشش ہو گی کہ اسلام کی دعوت کس طریقے سے ان تک پہنچائی جائے۔

۔۔۔۔۔۔ پچھلے دو سو برس سے ہم دنیا کی بڑی قوتوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ اس سے ہم انہیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے مگر اپنے معاشروں کو ہم نے تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس دور میں جہاد کے لئے لازم ہے کہ ہم اخلاقی، اقتصادی اور علمی میدانوں میں پہلے اپنی تعمیر کریں۔ چین، جرمنی اور جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے خود کو ہر جھگڑے سے بچا کر صرف اور صرف تعمیر کی طرف توجہ دی ہے۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

۔۔۔۔۔۔ اسلام کے عملی نفاذ سے متعلق جدید ذہن کے بعض سوالات ہیں جن کا قابل عمل حل امت کے اہل علم و دانش پر ایک قرض ہے۔ آپ نے میری جن عبارتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ اسی سے متعلق ہیں۔ میں اب بھی اپنی رائے پر قائم ہوں کہ ہمارے اہل علم و دانش کو اپنی توانائیاں ان سوالات کے جواب دینے پر لگانی چاہییں۔

مثلاً غیر سودی بینکنگ کا مسئلہ لے لیجیے۔ پہلے ہمارے اہل علم نے مضاربت اور مشارکت کو سودی بینکاری کے متبادل کے طور پر پیش کیا۔ جب اس کا عملی تجربہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی عمومی اخلاقی حالت کے سبب یہ حل قابل عمل نہیں ہے کیونکہ لوگ اس طرح سرمایہ لے لیتے ہیں اور پھر غلط طور پر کاروبار میں نقصان دکھا کر بینک کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اس تجربے کے بعد اسلامی بینک کہلانے والے بینک بھی بس یہی کر رہے ہیں کہ نام بدل کر سودی بینکنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسی طرح کے مزید مسائل ہیں جو معاشروں کی اسلامائزیشن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ہمیں ان پر کام کرنا ہو گا۔

اگر آپ میری تحریروں کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ میں انہی اصولوں پر جو میرے بس میں ہے، کام کر رہا ہوں۔ جو فرد، جماعت یا ادارہ اوپر بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں تعمیری کام کر رہا ہے، اللہ اسے جزائے خیر دے۔ میری ہمدردیاں اور دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔ جو مختلف انداز میں کام کر رہے ہیں، ان کے خلوص پر میں شک نہیں کرتا اور ان کے لئے بھی دعاگو ہوں۔

آپ چونکہ تحقیق کر رہے ہیں، اس وجہ سے میرا مشورہ یہ ہے کہ مختلف مائنڈ سیٹ رکھنے والے افراد اور گروہوں کا مطالعہ بھی کیجیے، اس کے بعد جو درست لگے، اسے اپنانے کا فیصلہ کیجیے۔  تحقیق کے میدان کے بارے میں ایک چیز عرض کر دوں کہ انسان کو بالکل غیر جانبدار اور غیر متعصب ہو کر تحقیق کرنی چاہیے اور اچھی طرح پڑھ اور سمجھ کر ہی کسی نتیجے تک پہنچنا چاہیے۔ جانبداری اور تعصب سے انسان کبھی کسی درست نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہر شخص یا گروہ کے معاملے میں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے انہیں پڑھیے اور پھر جس کی بات درست لگے، مان لیجیے۔ جس کی غلط لگے، اس کی نیت میں شک نہ کیجیے۔ آپ کے ذہن میں کوئی اور سوال ہو یا میری کسی تحریر میں بہتری کی گنجائش آپ محسوس کریں تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔

دعاؤں کی درخواست ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

احیائے اسلام کے لئے درکار کام
Scroll to top