شان رسالت میں گستاخی پر رد عمل کا صحیح طریقہ

سوال:  فیس بک میں جو گستاخی کی گئی ہے، اس کے متعلق آپ کیا کہیں گے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی کسی مغربی ملک یا کہیں بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی کرتا ہے تو اس پر احتجاجی جلوس وغیرہ صرف پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، ملائشیا اور افریقہ ہی میں ہوتے ہیں۔ دیگر ممالک میں ایسا نہیں کیا کیا جاتا۔ وہ ایسا کیوں نہیں کرتے۔ جب ڈنمارک میں گستاخی ہوئی تھی تو بھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟

عبداللہ، سیالکوٹ، پاکستان

ڈئیر عبداللہ صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا تعلق ہے تو ایسا کرنے والے شیطان کے پیروکار ہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے ان کے کچھ مخصوص مقاصد ہوتے ہیں۔ ڈنمارک سے مسلمانوں کا کوئی جھگڑا نہیں، اس کے باوجود انہوں نے ایسی حرکت کیوں کی؟ جہاں تک میں نے غور کیا ہے تو ان شیاطین کا ایک خاص مقصد سمجھ میں آتا ہے۔

جب لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک میں امیگریشن کر کے جاتے ہیں تو بالعموم ان میں کام اور محنت کا شدید جذبہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ عموماً ذہین ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ دوسرے ممالک میں جا کر جلد ہی بڑا مقام بنا لیتے ہیں۔ انہیں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا دیکھ کر مقامی لوگوں میں جو کم صلاحیت ہوتے ہیں، حسد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ حیلے بہانے کر کے امیگرنٹس کو مشتعل کیا جائے اور پھر جب یہ مشتعل ہو جائیں تو ان کے خلاف کاروائی کر کے انہیں نکال باہر کیا جا سکے۔ اس کے بعد ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیا جائے۔

مغرب بالخصوص یورپ میں یہ مسئلہ صرف مسلمانوں ہی کو درپیش نہیں ہے بلکہ دیگر ایشین کمیونیٹیز بھی نسل پرست اور متعصب افراد کی جانب سے اسی تعصب کا شکار ہیں۔ یہ معاملہ صرف مغرب تک ہی محدود نہیں ہے۔ بعض مسلم ممالک میں بھی ہمارے اپنے بھائیوں کی جانب سے ہمیں اسی قسم کے رویے کا بعض اوقات سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے اندر بھی ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں منتقل ہونے والے کو ایسے ہی مسائل پیش آتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان شیاطین کی اس بدتمیزی کا جواب ہم کیسے دیں؟ ان کی اس حرکت کے جواب میں مظاہرے کرنے سے ان کا تو کچھ نہیں بگڑتا مگر ہم سڑکیں بلاک کر کے اپنے ہی ملک کے مسلمان اور غیر مسلم بھائیوں کو تنگ کرتے ہیں۔ ان کے روزگار خراب کرتے ہیں، ان کی گاڑیاں اور جائیدادیں جلاتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی بدمعاش ہمارے گھر کے باہر ہمیں گالیاں دے تو اس کے جواب میں ہم اپنے گھر کے اندر دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر خود کو لہولہان کر لیں۔ ایسا کرنے سے اس بدمعاش کو کیا فرق پڑے گا؟ وہ تو الٹا خوش ہو گا۔

اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک کے سب کے سب لوگ ایسے نہیں ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو دین اسلام کی کشش سے متاثر ہو کر دھڑا دھڑ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ اگر ہم ان کا معاشی بائیکاٹ کریں گے تو گستاخوں اور شیطانوں کو تو شاید کوئی فرق نہ پڑے گا مگر ہم بہت سے ایسے لوگوں کو بے روزگار کر دیں گے جن کے دل میں شاید اسلام کی محبت موجود ہو۔ ممکن ہے کہ ایسا کرنے سے ہم بہت سے لوگوں کو اللہ تعالی کی ہدایت سے محروم کر دیں۔

جیسے تاریکی کو ختم کرنے کے لئے چراغ جلایا جاتا ہے، ویسے ہی ان شیاطین کی خرافات کا جواب ہم چراغ جلا کر دے سکتے ہیں۔ اگر سورج نکل آیا ہو تو کوئی لاکھ چیختا رہے کہ بڑا اندھیرا ہے، اس کی بات کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

سب سے پہلے تو ہمیں دنیا کو یہ بتانا ہو گا کہ جس مقدس ہستی کے خلاف یہ لوگ جھوٹا پروپیگنڈا کر رہے ہیں، اس ہستی کو کائنات کے رب نے رحمۃ للعالمین کا نام دیا ہے۔ ہمیں سیرت طیبہ سے رحمت کے واقعات غیر مسلموں کے سامنے رکھنا ہوں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا پیروکار بن کر ہمیں سراپا رحمت بننا ہو گا۔ انسانوں سے لے کر جانوروں کے حقوق کی جنگ میں دنیا کا لیڈر بننا ہو گا۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ان شیطانوں کا پروپیگنڈا دم توڑ جائے گا اور مغرب میں بھی ان کی کوئی حیثیت نہ رہے گی۔

اس کے برعکس اگر ہم احتجاجی مظاہرے کریں گے اور بائیکاٹ وغیرہ جیسے ہتھکنڈے استعمال کریں گے تو ہم خود ان شیطانوں کے لئے کام کر رہے ہوں گے۔ ہماری یہ حرکتیں ان شیاطین کا مشن پورا کرتی ہیں نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔

افسوس کہ اس کے برعکس ہم خود اپنے بھائیوں کا راستہ روکتے ہیں جسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے۔

وعن سهل بن معاذ عن أبيه قال غزونا مع النبي صلى الله عليه وسلم فضيق الناس المنازل وقطعوا الطريق فبعث نبي الله صلى الله عليه وسلم مناديا ينادي في الناس إن من ضيق منزلا أو قطع طريقا فلا جهاد له . (ابو داؤد)

سہل بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے۔ لوگوں نے جگہ تنگ کر دی اور راستے کے بند کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والے کو بھیجا کہ وہ لوگوں میں اعلان کروا دے، جس نے جگہ تنگ کی یا راستہ بند کیا، اس کا کوئی جہاد نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ہم اسلام کا ایک غلط تاثر دنیا کے سامنے پھیلاتے ہیں کہ یہ بس احتجاج کرنے والوں اور نفرت کا نعرہ لگانے والوں کا دین ہے۔ ایسا کرنے سے غیر مسلموں کو ہم جو اسلام سے دور کرتے ہیں، اس کے بعد ہم روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے؟

ایک مثال آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ جب ملعون سلمان رشدی نے گستاخانہ کتاب شیطانی ورسز لکھی، تو بہت سے غیر مسلم ادبی نقادوں نے اسے تیسرے درجے کا احمقانہ سا ناول قرار دیا۔ یہ بالکل اسی قسم کا تھرڈ کلاس ناول تھا جیسا کہ چھوٹے موٹے لکھاری لکھ مارتے ہیں۔ ہمارے عالمی احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تھرڈ کلاس ناول دنیا بھر میں مشہور ہو گیا اور بیسٹ سیلر بن گیا۔ رشدی جیسا حقیر ذہنیت والا دنیا کا بڑا رائٹر بن گیا۔

اس کے برعکس اگر سنجیدہ علمی اور ادبی انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے کردار کو دنیا کے سامنے پیش کرتے تو رشدی کی کتاب ایک دو ایڈیشن میں اپنی موت آپ مر جاتی اور آج کسی کو اس کا نام بھی معلوم نہ ہوتا۔

بعض مسلم ممالک میں احتجاجی مظاہرے نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سیاسی اور مذہبی راہنما ہمارے راہنماؤں کی نسبت عقل مند ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان شیاطین کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ہمارا احتجاج ان کے غلیظ مشن کو مزید تقویت دیتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ پچھلے دو سو برس سے قوم کو احتجاج کی تربیت دی جا رہی ہے، اس وجہ سے یہ مظاہرے وغیرہ کیے جاتے ہیں۔ ناموس رسالت کے نام پر سیاستدان اور مذہبی راہنما اپنی اپنی دکانیں چمکاتے ہیں اور پھر کسی نئے ایشو کی تلاش میں سرگرم ہو جاتے ہیں جس کی بنیاد پر سیاست چمکائی جا سکے۔

امید ہے کہ بات واضح ہو گئی ہو گی۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کو ہم اپنے علم اور عمل سے اجاگر کریں۔ اس کے بعد اسلام دشمنوں کی یہ خرافات اپنی موت آپ مر جائیں گی۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

اسلا م وعلیکم مبشر صاحب کیا حال چال ہے آپ کا۔ فیس بک اور ہو ٹیوب کے با رے میں بتائیں کیا اس کا وزٹ کریں۔  ڈنما رک کے حوالے سے آپ نے بتایا تو پھر یہ بتائیے کہ اگر وہاں کہ مقامی کم صلاحیت والے لو گ ایسی شیطانی حرکت کر تے ہیں تو وہاں کے  حکمران، میڈیا اور لوگ ایسے لوگوں کا دفاع کیو ں کرتے ہیں ایسے لو گو ں کو سزا کیوں نہیں دیتے۔ اور انہیں پو لیس پروٹیکشن بھی دیتے ہیں۔ پھر ڈنما رک کی دیکھا دیکھی دوسرے یو رپی ملکو ں نے بھی وہی حرکت کی۔ امریکہ میں بھی جو اکثر مسلما نو ں کا دل دکھا نے والی حرکتیں کی جاتی ہے کیا وہ بھی اسی وجہ سے ہے کہ وہاں کے مقامی لو گ جب دوسرے ملکوں کے ذہین لو گو ں کو آگے بڑھتے دیکھتے ہیں تو حسد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

مذکورہ ممالک میں سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو ایسی کیا تربیت دی جاتی ہے کہ وہ   جذبات میں نہیں آتے  اور ہما رے رہنماؤں کی نسبت عقل مند ہیں۔ پاکستان میں لو گ حکمر ا نو ں کو گا لیا ں دیتے ہیں اس کے بارے میں اسلام میں کیا حکم ہے۔  اور کر یں بھی کیا ان حکمر ا نو ں کے  کر تو ت ہی ایسے ہیں کہ ان سے اتنی نفرت ہو گئی ہے۔ کیسے کیسے کرپٹ  انسان ہم پر حاکم ہیں۔ ایسے حا کمو ں سے محبت تو نہیں ہو سکتی۔ 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

فیس بک اور یو ٹیوب نے چونکہ اب وہ بیہودہ ویب پیج ہٹا دیے ہیں اور معذرت کر لی ہے، اس وجہ سے ان کا وزٹ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ہم صرف اسی مواد کو ایکسس کریں جو ہمارے دین کے مطابق ہو۔

جہاں تک ڈنمارک وغیرہ کی حکومتوں اور میڈیا کا تعلق ہے تو وہ یہی لولا لنگڑا عذر پیش کرتے ہیں کہ ہم کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اور ہر شخص کو جو وہ کہنا چاہے، اسے کہنے کا حق دیتے ہیں۔ اس بات کا کوئی اخلاقی عذر ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی ان کی مذہبی شخصیتوں کی شان میں گستاخی کرے تو وہ فوراً آپے سے باہر ہو جائیں گے۔

حکومتی سطح پر تو ہماری حکومتیں سفارتی رابطوں کے ذریعے انہیں سمجھا سکتی ہیں۔ ایسا انہوں نے کیا بھی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ڈنمارک کے واقعے کے بعد اسلامی کانفرنس نے یورپ سے شدید احتجاج کیا اور یورپی پارلیمنٹ میں اس معاملے میں کوئی قرارداد بھی پیش ہوئی تھی۔ پاکستانی حکومت نے بھی سفارتی سطح پر سخت پیغام بھیجا تھا۔ اگر مسلم ممالک مل کر ان کی حکومتوں اور میڈیا کا بائیکاٹ کریں تو انہیں قائل کیا جا سکتا ہے۔

یہ مسئلہ ان کی حکومتوں اور میڈیا کا ہے۔ ان کے بہت سے عام لوگ جن کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان سب کو چند شریر لوگوں کی خباثت کی سزا دینا ہمارے لئے درست نہیں ہے۔ اس کی بجائے ہمارے لئے مناسب ہے کہ ہم اپنی پوری توانائی انہیں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کی دعوت دینے میں صرف کریں۔ اس کے بعد یہی لوگ اپنے شیاطین کا ناطقہ بند کریں گے انشاء اللہ۔

ہمارے ہاں لوگ حکمرانوں پر جو تنقید کرتے ہیں، وہ بالکل درست ہے۔ اسلام نے تو عام بدوؤں کو یہ حق دیا تھا کہ وہ سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسی ہستیوں کا احتساب کر سکیں۔ یہ بات البتہ ہم بھول جاتے ہیں کہ حکمران عوام کے کردار کا آئینہ ہوتے ہیں۔ جیسا عوام کا کردار ہو گا، ویسے ہی حکمران ان پر مسلط ہو جائیں گے۔ اگر ہماری اکثریت نیک اور حقوق اللہ و حقوق العباد کو پورا کرنے والوں پر مشتمل ہو، تو ایسے حکمران ہم پر مسلط نہیں رہ سکتے۔ یہ ہماری ہی کمزوریاں ہیں جن کے باعث ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوتے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی اخلاقی اصلاح کریں۔ اپنی آنے والی نسلوں کی کردار سازی کریں۔ میں بھی اسی کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

شان رسالت میں گستاخی پر رد عمل کا صحیح طریقہ
Scroll to top