غیر مسلموں سے ہمارا رویہ

سوال:  ڈئیر بھائی مبشر ۔ السلام علیکم ۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور رمضان الکریم سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ مجھے ایک حدیث کی توضیح درکار ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہود اور نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل مت کرو اور جب تم کسی یہودی یا نصرانی سے راہ میں ملو تو اس کو تنگ راہ کی طرف دبا دو ۔ صحیح مسلم۔ 1432

کیا آپ اس کی تفصیل بتا سکتے ہیں کہ اس حدیث کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟

طاہر خلیل، چیک ریپبلک

ڈئیر طاہر بھائی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

احادیث کو سمجھنے میں اکثر لوگوں کو یہ مشکل اس وجہ سے پیش آتی ہے کہ کوئی ارشاد کسی خاص سیاق و سباق اور موقع و محل میں وارد ہوتا ہے۔ اسے بیان کرنے والی راوی اس موقع و محل کو بیان نہیں کرتے جس کی وجہ سے بات کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔ راوی بھی اس معاملے میں مورد الزام نہیں ٹھہرائے جا سکتے کہ وہ حدیث ہم لوگوں کے لئے بیان نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنے سامنے موجود شاگردوں کے لئے بیان کر رہے ہوتے ہیں جو پہلے ہی اس سیاق و سباق سے واقف ہوتے ہیں۔

اس حدیث کو اگر دیگر صحیح احادیث اور غیر مسلموں سے متعلق قرآنی آیات کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کا مصداق وہ یہود و نصاری ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کا رویہ اختیار کیا ہو۔

چنانچہ سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں جو یہود آباد تھے، ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ تھا۔ وہ انہیں اپنی زبان سے ٹارچر کرتے۔ اگر کوئی مسلمان انہیں اکیلا مل جاتا تو اس پر حملہ کر ڈالتے اور اگر کوئی خاتون اکیلی مل جاتا تو اس پر بھی مجرمانہ حملہ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ پھر سختی کا رویہ اختیار کیا گیا۔ تنگ راہ کی طرف دبانے کا مطلب یہی ہے کہ راستے کو بلاک کر کے اسے تنگ جانب سے گزرنے سے مجبور کرو تاکہ انہیں اپنی کمزوری کا احساس ہو اور وہ دب کر رہیں۔

یہ معاملہ صرف ان غیر مسلموں کے ساتھ خاص ہے، جو اسلام دشمن ہوں۔ عام غیر مسلموں کے ساتھ تو ہمیں نرمی، محبت، اخلاق اور دوستی کا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ الممتحنہ میں ہے۔

لا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ (9)

جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے، ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے اللہ نے تمہیں منع نہیں فرمایا۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تو بس انہی کو دوست بنانے سے تمہیں منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے جنگ کی، تمہیں تمہارے گھروں سے نکال باہر کیا اور تمہاری جلا وطنی میں ایک دوسرے کی مدد کی۔ جنہوں نے ان سے دوستی کی، تو وہی ظالم ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کا تعلق انہی یہود و نصاری سے ہے جنہوں نے اسلام دشمنی اور ظلم کیا ہو۔ مثبت یا غیر جانبدار غیر مسلموں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا رویہ اختیار کرنا ہمارے لئے ضروری ہے تاکہ ان پر اسلام اور مسلمانوں کا اچھا تاثر پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارا رویہ ہی ان کے لئے ہدایت کا باعث بن جائے۔

امید ہے کہ بات واضح ہو گئی ہو گی۔ اگر کوئی اور سوال آپ کے ذہن میں آئے تو بلا تکلف پوچھ لیجیے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

السلام علیکم مبشر بھائی

سب سے پہلے تو معذرت کہ آپ کی قیمتی میل کا جواب بہت دیر سے ارسال کر رہا ہوں۔ وجہ صرف میری سستی ہی کو سمجھ لیجیے۔

آپ کی میل اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح اور سیاق و سباق کا بہت شکریہ۔ دراصل ایک فورم پر اس حدیث کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے میل نہیں کھاتی اور وہ تو رحمتہ اللعالمین تھے اس قسم کی بات کیسے ہوسکتی ہے اور یہ صحیح حدیث نہیں ہے اور من گھڑت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ دراصل فورمز اور بلاگز پر آجکل اس بات کو کنفیوزن بنا دیا گیا ہے کہ  حدیث صرف چند لوگوں کی دین میں اضافہ کی گئی شئے ہے۔ اور وہ احادیث جن کی صحت قرآن سے ثابت ہو وہی صحیح ہیں اور احادیث کے جمع کرنے والے ایسے ہی تھے۔ بہرحال، قرآنی آیات اور اس کے سیاق و سباق سے لوگوں کو کچھ سمجھ آیا ہے۔

اللہ ہم سب کے علم میں اضافہ فرمائے

والسلام

طاہرخلیل

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 اصل میں یہ تصور منکرین حدیث کا پھیلایا ہوا ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ حدیث جمع کرنے والے چند لوگ تھے۔ آپ اسماء الرجال کی کوئی بھی کتاب دیکھ لیجیے، کم از کم ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے اس عمل میں حصہ لیا۔ یہ بات تو خیر سبھی مانتے ہیں کہ اسی حدیث کو قبول کیا جائے گا جو قرآن سے مطابقت رکھتی ہو۔

یہ بات درست ہے کہ حدیث کا سیاق و سباق واضح نہ ہونے سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں لیکن یہ کوئی علمی رویہ نہیں کہ جھٹ سے اسے قرآن کا مخالف قرار دے کر مسترد کر دیا جائے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ سیاق و سباق کو تلاش کیا جائے اور اگر اس سے متعلق معلومات بھی نہ ملیں تو حدیث کو اس وقت تک معلق یعنی لٹکنے کے درجے میں رکھا جائے جب تک کہ بات واضح نہ ہو جائے۔

 والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

غیر مسلموں سے ہمارا رویہ
Scroll to top