فساد یا جہاد

سوال: السلام علیکم۔ مبشر صاحب ! کیا حال ہے آپ کا۔ امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ آج کل پاکستان کے حالات بہت خراب چل رہے ہیں۔ ڈیلی کوئی نہ کوئی خود کش بم دھماکہ ہو رہا ہے۔ اب تک کتنے ہی آرمی کے جوان اور آرمی کے افسر شہید ہو چکے ہیں اور  اس کے ساتھ عام لوگ بھی شہید ہو رہے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ اب تو مسجدوں میں بھی خود کش بم دھماکے ہو رہے ہیں۔ اوپر سے ہماری مذہبی جماعتیں بھی خاموش ہیں۔

کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ پاکستان آرمی غلط کر رہی ہے جو وہاں پر آپریشن کر رہی ہے۔ اس میں بھی تو کتنے معصوم لوگ مر رہے ہیں اور عورتیں اور بچے مر رہے ہیں، کتنی خواتین بیوہ ہو رہی ہیں۔ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ ان کا کیا بنتا ہو گا؟ لیکن دوسری طرف پاکستان آرمی اور دوسرے معصول لوگ خود کش حملوں میں مر رہے ہیں۔ ان کی خواتین اور بچوں اور والدین کا کیا ہوتا ہو گا؟  ان دہشت گردوں نے کون سی جگہ نہیں چھوڑی۔ مسجد، مزار، جنازے، غرض کوئی جگہ نہیں چھوڑی۔ کیا کوئی مسلمان ایسا کر سکتا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ دہشت گردی آرمی آپریشن کا ری ایکشن ہے؟ اس کے ساتھ امریکہ یا انڈیا بھی کروا رہے ہیں؟ اب تو گھر سے باہر کسی رش والی جگہ یا سکیورٹی فروز کے قریب جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ کہ کہیں کوئی خود کش بمبار آ کر خود کو اڑا نہ لے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

عبداللہ ، سیالکوٹ، پاکستان

جواب: ڈیئر عبداللہ صاحب

السلام علیکم

کیا احوال ہیں؟ اس موضوع پر تو میں ایک طویل عرصے سے لکھ رہا ہوں۔ یہ اصل میں ہماری ہی غلطیاں ہیں۔ اللہ تعالی نے تو ہمیشہ سے اپنے دین میں جہاد کی اجازت صرف حکومت کو دی تھی۔ بخاری و مسلم کی کتاب الامارۃ ہی پڑھ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انارکی اور فساد سے کتنی نفرت تھی اور آپ نے حکومت کی اطاعت پر کس قدر زور دیا ہے۔ آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ  حکمران اگر ظلم بھی کریں تو ہم ان کی اطاعت سے باہر نہ ہوں۔ زیادہ سے زیادہ حد یہ ہے کہ ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، حکومت پر تنقید کریں مگر ہتھیار اٹھانے کی اجازت ہمیں نہیں ہے۔ چند احادیث درج کر رہا ہوں:

سیدنا سلمہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا، یا نبی اللہ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے تو اپنا حق طلب کریں مگر ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے ان کی بات کو نظر انداز کر دیا ۔ انہوں نے پھر یہی سوال کیا تو آپ نے پھر نظر انداز کر دیا۔ جب انہوں نے دوسری یا تیسری مرتبہ یہی سوال کیا تو اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں پکڑ کر کھینچا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ ان پر ان کے اعمال کی ذمہ داری ہے اور تم پر تمہارے اعمال کی۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث نمبر 4782-83)

سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے جو میری راہ پر نہیں چلیں گے۔ میری سنت پر عمل نہیں کریں گے  اور ان میں سے ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل شیطان کے اور جسم انسان کے سے ہوں گے ۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس وقت میں کیا کروں؟ فرمایا، اگر تم ایسے زمانے میں ہو تو حکمران کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ اگرچہ وہ تمہاری پیٹھ پر (کوڑوں کی ) ضرب لگائےاور تم سے تمہارا مال بھی لے لے، تب بھی اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث نمبر 4785)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص حکومت کی اطاعت سے باہر ہو جائے اور جماعت (نظم اجتماعی) کا ساتھ چھوڑ دےاور مر جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت کی طرح ہو گی۔اسی طرح جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے (کسی نامعلوم مقصد کے لئے) لڑے ۔ اپنی قومی عصبیت کے لئے اس میں غصہ ہو، اپنی قومی عصبیت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہو، اپنی قوم کی مدد کرتا ہو اور اس میں مارا جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ جو شخص میری امت کے خلاف بغاوت کرے اور ان کے اچھوں اور بروں کو قتل کرے، اہل ایمان کو بھی نہ چھوڑے، اور جس سے معاہدہ  ہوا ہو، اس کی بھی پرواہ نہ کرےتو نہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث نمبر 4786)

ہماری حکومتوں نے اپنے مفادات کے لئے پرائیویٹ آرمیز تیار کیں جو کہ اب ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی ہیں۔ جو آگ ہم دوسروں کے گھروں میں لگا رہے تھے، وہ ہمارے اپنے گھر تک آ پہنچی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہماری اس کمزوری سے ہمارے دشمن فائدہ تو اٹھائیں گے ہی۔ ان کا ماتم کرنے کی بجائے ہمیں اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پاکستان آرمی اس وقت جو کر رہی ہے، وہ عین جہاد فی سبیل اللہ ہے کیونکہ ان کا مقصد امن قائم کرنا ہے۔ ہمیں ممکنہ حد تک ان کی حمایت کرنی چاہیے۔ چونکہ غلطی ہماری ہے، اس وجہ سے اس جنگ کے آفٹر ایفیکٹس ہمیں ہی بھگتنا ہوں گے۔ اگر ہماری آرمی یہ جنگ نہیں کرے گی تو پھر ہم لامحدود مدت تک دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہیں گے۔

ہمارے جو بہن بھائی بے گھر ہوئے ہیں یا ان کا کوئی عزیز ان سے بچھڑ گیا ہے۔ ہمیں ان کے غم میں شرکت کرنی چاہیے۔  ان کی جس حد تک ہو سکے، ہمیں مدد کرنی چاہیے اور ان کے نقصان کے ازالے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس موضوع پر آپ یہ آرٹیکل دیکھ سکتے ہیں۔

https://mubashirnazir.org/category/personality-development-methodology/

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

فساد یا جہاد
Scroll to top