سوال: محترم و مکرمی، کچھ عرصہ قبل ویب پر جمہوریت سے متعلق آپ کے خیالات جاننے کا موقع ملا – گو کہ بندہ آپ کی علمی کاوشات کا متعرف ہے لیکن اس موضوع پر جناب کی تحقیق اور نتیجہ سے اتفاق نہیں رکھتا – ذیل میں ایک لنک دے رہا ہوں اگر آپ نے موصوف درج ذیل کی یہ کتاب نہیں پڑھی تو آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ وقت نکال کر ضرور پڑھیں
یہ وہی انگریزی نظام ہے۔ مگر اب اسلامی بھی ہے۔
http://www.eeqaz.com/ebooks/013angrezinizam/
ذیشان ضیا، مسقط، عمان
ڈئیر ذیشان صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کو یہ مکمل حق حاصل ہے کہ کسی بھی معاملے میں کسی سے بھی اختلاف رائے رکھیں۔ میں آزادی رائے کا قائل ہوں اور ہر شخص کے اس حق کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے اس کا احترام کرتا ہوں۔
میں نے یہ کتاب پڑھ لی ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے وہی دلائل پیش کیے ہیں جو اس سے پہلے سے میرے علم میں تھے۔ اس مسئلے میں اترنے سے پہلے ضروری ہو گا کہ معاملات کی دو اقسام کو الگ الگ کر کے دیکھ لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔ ایسے معاملات جہاں شریعت میں کوئی واضح حکم موجود ہو۔ ان معاملات میں تو ہر وہ شخص جو اللہ تعالی اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو، یہی کہے گا کہ اس ضمن میں کسی اور کے حکم کی پیروی نہیں کی جا سکتی۔ میری بھی یہی رائے ہے اور مجھے مصنف سے مکمل اتفاق ہے کہ اللہ تعالی کے حکم کے خلاف کسی اور کے حکم کو ترجیح دینا شرک ہے۔
جہاں تک تو میری اپنی ذات کا تعلق ہے تو میں ایسا ہی کروں گا کہ ممکنہ حد تک اللہ تعالی کے حکم پر عمل کروں گا۔ جہاں میں مقیم ہوں، وہاں کی حکومت اگر مجھے اس حکم کی خلاف ورزی پر مجبور کرے گی تو میں ایسے معاشرے سے ہجرت کرنے کو ترجیح دوں گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالی کے اس حکم کو معاشرے کا قانون بنایا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب اس بات میں ہے کہ اس معاشرے کی اکثریت اس بات کو اللہ تعالی کا حکم مانتی ہو اور دل و جان سے اس پر عمل کرنا چاہتی ہو۔ اگر اکثریت اس پر قائل نہیں ہے تو میں اپنی طرف سے انہیں اس پر قائم کرنے ہر ممکن کوشش کروں گا اس کام میں اپنی پوری عمر میں صرف کرنے کی کوشش کروں گا۔ پھر بھی وہ قائل نہ ہوں تو ان کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد کر دوں گا۔
ہمارے دینی حلقوں میں یہ خیال بالعموم پھیلا ہوا ہے کہ اگر کوئی قوم یا اس کی اکثریت دین کو نہ مانتی ہو یا مان کر اس پر عمل نہ کرنا چاہتی ہو تو بزور طاقت حکومت پر قبضہ کر کے جبراً دین کو ان پر نافذ کر دیا جائے۔ اس خیال سے مجھے شدید اختلاف ہے۔
ذرا تصور کیجیے کہ اگر پاکستان کی ہندو اقلیت اتنی طاقتور ہو جائے کہ وہ منو سمرتی کے قوانین کو ہم پر جبراً نافذ کر سکیں یا اسرائیل اتنا طاقتور ہو کہ وہ ہم پر تالمود کو نافذ کر سکیں تو ہمارے جذبات و احساسات کیا ہوں گے؟ کیا اس کے نتیجے میں اس قوم اور مذہب سے نفرت ہمارے ہاں پیدا نہ ہو گی؟ کیا اس کے نتیجے میں ہمارے مخلص لوگ بغاوت نہ کریں گے؟ کیا ہمارے کمزور ایمان کے لوگ منافقت کا شکار نہ ہو جائیں گے؟ بعینہ یہی کیفیت ان غیر مسلموں کی ہو گی جن پر ہم اسلام جبراً نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ دیکھیے تو یہ کیفیت بہت سی قوموں پر گزری ہے۔ خود مسلمانوں نے ہندوستان پر حکومت کی جس کے نتیجے میں ہندوؤں کے ہاں باغی بھی پیدا ہوئے اور ان کے منافق بھی۔
اس سوچ کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا کہ ہم دنیا کو اسلام سے بدظن کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اللہ کے بہت سے بندوں تک اسلام کا پیغام مثبت انداز میں پہنچایا جائے تو وہ ہدایت پا جائیں مگر ایسا کر کے ہم ان لوگوں کو اسلام سے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
پاکستان کی مثال بھی آپ کے سامنے ہے۔ ہمارے ہاں دینی تحریکوں کی کاوشوں کے نتیجے میں آئین کو اسلامائز کر دیا گیا ہے مگر اس کا نتیجہ سوائے منافقت کے اور کچھ نہیں نکلا۔ اب آئین اور قانون کی حد تک ہم عین اسلامی ریاست ہیں مگر عمل آپ کے سامنے ہے۔ آئین میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ شریعت کے خلاف کوئی قانون نہ بنایا جائے گا مگر سودی کاروبار پورے زوروں پر ہے۔ بہت سے مسلم ممالک میں حجاب کو قانون کی طاقت سے نافذ کیا گیا ہے مگر ان کے ہاں بہت سی خواتین ایسی ہیں جو باحجاب ہونے کے باوجود باحیا نہیں ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال کو سامنے رکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پوری مکی زندگی میں معاشرے پر اللہ تعالی کے کسی حکم کا نفاذ نہیں فرمایا۔ جب عرب کے ایک شہر ، یثرب کے باشندوں کی اکثریت نے خلوص کے ساتھ اس بات کا اقرار کر لیا کہ ہم اللہ تعالی کے دین کو اپنی اجتماعی زندگی میں نافذ کریں گے تو پھر واقعتاً اسلام معاشرتی سطح پر نافذ ہوا۔
آپ سے پہلے سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرعون سے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ نہیں فرمایا بلکہ یہی کہا کہ بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ جانے دے۔ جب سینا کے بیابان میں آپ کی حکومت قائم ہوئی تو اسلام نافذ ہوا۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں اسرائیل رومیوں کے زیر اقتدار تھا۔ آپ نے اس کی بجائے دین کی روح جگانے کی جدوجہد فرمائی۔
۔۔۔۔۔۔ دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جہاں شریعت کا کوئی واضح حکم موجود نہیں ہے۔ کسی بھی ریاست کے فیصلوں میں سے زیادہ تر فیصلے اسی قسم سے متعلق ہوتے ہیں۔
فاضل مصنف نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان کی آئیڈیل اسلامی ریاست میں ان معاملات کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا؟ اگر تو حکمران کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جو جی چاہے فیصلہ کرے۔ لوگوں کے مشورے کی حیثیت محض مشورے کی ہو۔ اسے ماننا یہ نہ ماننا حکمران کی مرضی پر منحصر ہو تو پھر اس اسلامی ریاست اور آمریت میں کیا فرق ہو گا؟ اگر یہی حق عوام کے نمائندوں کو دیا جائے تو پھر ان مباح معاملات میں اس اسلامی ریاست اور جمہوریت میں کیا فرق ہو گا؟
اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو وہاں یہی ملتا ہے کہ معاملے کو تمام لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا، اس کے بعد یا تو اتفاق رائے یا اکثریتی رائے کے مطابق فیصلہ کر لیا گیا۔
کسی بھی سیرت کی کتاب سے غزوہ بدر و احد و خندق کی جنگی حکمت عملی کے فیصلے پڑھ لیجیے۔ سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فیصلوں کے طریق کار کو مصنف ابن ابی شیبہ میں دیکھ لیجیے۔ ہر جگہ یہی روح آپ کو نظر آئے گی۔ اس روح کو شورائیت کا نام دیجیے یا جمہوریت کا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
امید ہے کہ میرا نقطہ نظر واضح ہو گیا ہو گا۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی اور سوال پیدا ہو تو بلاتکلف میل کیجیے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.