پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن اتنے سالوں میں ہم ابھی تک اسلام نافذ نہ کر سکے۔ اس کی بہت سی وجوہات بیان کی گئی ہیں جو سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل بات یہ ہے کہ دین کاسرچشمہ انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے۔ اسے خارج سے زبردستی نافذ نہیں کیا جاسکتا۔اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ نماز اپنی حقیقت میں اپنے رب کریم کی یاد کا نام ہے۔ قانون کی طاقت سے یہ تو کیا جاسکتا ہے کسی کو زبردستی نماز کی سی حالت میں کھڑا کر دیا جائے لیکن اس کے دل کا خدا سے تعلق قائم کرنا کسی قانون اور حکومت کے بس کی بات نہیں۔
بر صغیر کے مسلمانوں کی یہ خصوصیت ہے کہ ہم جذباتی قوم ہیں۔ جذباتی نعرے ہمیں بہت اپیل کرتے ہیں اور ہم اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ جب جذبات کا غبار بیٹھتا ہے تو ہم سب کچھ بھول بھال کر اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ 1940 کی دہائی میں ہم لوگ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعرے سے بڑے متاثر ہوئے اور کیا بچہ ، کیا جوان، کیا بوڑھا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کے حصول میں لگ گئے۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے جذبات کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور ہم اس نعرے کو بھول گئے۔ یہی حال ایوب خان کے خلاف 1968 کی تحریک اور پھر 1977 کی تحریک نظام مصطفی کا ہوا۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہمیں دل سے مسلمان بنانے کی کوشش کی جاتی۔ جب ہمارے دل و دماغ سے اسلام کا چشمہ پھوٹتا اور ہماری اکثریت اپنے پانچ چھ فٹ کے وجود پر اسلام نافذ کرنے میں کامیاب ہوجاتی تو پورے ملک میں اجتماعی طور پر اسے نافذ کرنا کچھ مشکل نہ رہتا۔ ہماری مذہبی لیڈر شپ نے اس کے بالکل الٹ یہ فیصلہ کیا کہ اقتدار پر کسی طرح قابض ہو کر قانون کی طاقت سے زبردستی سب کو مسلمان بنانے کی کوشش کی جائے۔ پچاس ساٹھ سالہ اس جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ نہ تو دین دار کہلانے والے افراد اپنی ذاتی زندگیوں میں اسلام کو نافذ کر سکے ہیں اور نہ ہی بحیثیت قوم ہم اس میں کامیاب ہو سکے ہیں۔
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.