اس موضوع پر تفصیلی بحث باب 11 میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں ہم اس کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں۔ قرآن مجید نے جنگی قیدیوں سے متعلق جو احکام بیان کئے ہیں، وہ یہ ہیں۔
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا۔ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا۔ (الدهر 76:8-9)
(نیک لوگ وہ ہیں جو) اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم تو تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لئے کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم اس پر تمہاری طرف سے کسی اجر یا شکر گزاری کے طالب بھی نہیں ہیں۔
فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا۔ (محمد 47:4)
جب تمہارا انکار کرنے والوں سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنوں پر ضرب لگاؤ، یہاں تک کہ جب تم انہیں قتل (کر کے شکست دے) چکو تو انہیں مضبوطی سے باندھ لو۔ (اس کے بعد ان جنگی قیدیوں کو) بطور احسان رہا کر دو یا پھر فدیہ لے کر چھوڑ دو۔ یہ سب معاملہ اس وقت تک ہو جب تک لڑنے والے اپنے ہتھیار نہ رکھ دیں۔
قرآن مجید کے نزول کے وقت پوری دنیا کا متفقہ قانون یہ تھا کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ ان چار میں سے ایک معاملہ کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔ جنگی قیدیوں کو قتل کر دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔ انہیں غلام بنا لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ یہ فدیہ رقم کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور ان قیدیوں کا اپنے قیدیوں سے تبادلہ کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ ان قیدیوں کو بلامعاوضہ چھوڑ دیا جائے۔
قرآن مجید نے ان چاروں میں سے آخری دو صورتوں ہی کو ترجیح دی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا ہے کہ جنگی قیدی جب تک قیدی کی صورت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہیں، ان سے انسانی برتاؤ کیا جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تو اس حکم پر اس درجے میں عمل کیا کہ وہ خود بھوکے رہ لیتے تھے لیکن قیدیوں کو کھانا ضرور فراہم کیا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور کی جنگوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو حیرت انگیز طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے عام طور پر انہی آخری دو صورتوں پر عمل کیا۔ جنگی قیدیوں کو قتل کرنے یا انہیں غلام بنا لینے کا معاملہ ایک استثنائی حیثیت رکھتا تھا نہ کہ ایک عمومی عمل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے لئے اس جدول پر غور فرمائیے جو کہ سیرت کی مشہور کتاب الرحیق المختوم کی بنیاد پر ہے:
عہد رسالت کی کل جنگیں | 72 |
وہ جنگیں، جن میں دشمن کے سپاہیوں کو جنگی قیدی بنایا گیا | 19 |
وہ جنگیں، جن میں دشمن کے قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کیا گیا | 2 |
وہ جنگیں جن میں دشمن کے قیدیوں کو بلامعاوضہ رہا کر دیا گیا | 13 |
وہ جنگیں جن میں دشمن کے قیدیوں کو غلام بنا لیا گیا | 4 |
وہ جنگیں جن میں دشمن کے قیدیوں کو غلام بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتی کوششوں سے رہا کر دیا گیا | 4 |
جن جنگوں میں قیدیوں کو غلام بنا لیا گیا، ان میں غزوہ بنو عبدالمصطلق، غزوہ بنو قریظہ، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین شامل ہیں۔ ان غلاموں کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا، وہ یہ تھا۔
· بنو عبدالمصطلق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بنو عبدالمصطلق کے سردار کی بیٹی سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے شادی کر کے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ ان کے قیدیوں کو آزاد کر دیں کیونکہ اب بنو عبدالمصطلق مسلمانوں کے رسول کے سسرالی رشتے دار ہو چکے ہیں چنانچہ سو کے قریب خاندانوں کو آزادی نصیب ہوئی۔
· بنو قریظہ: بنو قریظہ کے معاملے میں بھی آپ نے یہی طرز عمل اختیار کیا۔ بنو قریظہ کی ایک خاتون، جو اصلاً بنو نضیر کی بیٹی اور بنو قریظہ کی بہو تھیں، یعنی سیدہ ریحانہ رضی اللہ عنہا جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی لونڈی بنی تھیں، آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ صحابہ کرام نے بالعموم بنو قریظہ کی خواتین کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا اور ان کے بچوں کی اپنے بچوں کی طرح پرورش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرظیوں میں بعض نہایت ہی مخلص اور صاحب علم صحابی پیدا ہوئے جن کا ذکر اسماء الرجال کی کتب میں موجود ہے۔
· خیبر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہاں بھی یہود کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی کر کے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ خیبر کے قیدیوں کو آزاد کر دیں۔
· حنین: یہ وہ جنگ تھی جس میں چھ ہزار کے قریب جنگی قیدیوں کو گرفتار کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے نئے مسلمان ہونے والے افراد کو ذاتی طور پر قائل کیا کہ وہ اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیں۔ نہ صرف انہیں آزادی دیں بلکہ غنیمت کا مال بھی بنو ہوازن کو واپس کر دیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا جس کے نتیجے میں چھ ہزار قیدیوں کو رہائی نصیب ہوئی۔
خلافت راشدہ کی جنگوں میں بھی یہی معاملہ کیا گیا۔ زیادہ تر جنگوں میں دشمن کے قیدیوں کو بلامعاوضہ رہا کر دیا گیا۔ بہت سے مواقع پر ان سے مسلمانوں کے جنگی قیدیوں کا تبادلہ کروا لیا گیا۔ بعض اوقات انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا اور استثنائی حالات میں انہیں غلام بھی بنا لیا گیا۔ انہیں غلام بنا لینے کے بعد ان سے نہایت ہی اچھا سلوک روا رکھا گیا۔ ان کے بچوں کی اپنے بچوں کی طرز پر پرورش کی گئی۔ جیسے جیسے ان حضرات کی دشمنی کم ہوتی گئی، انہیں آزاد کیا جاتا رہا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں مرتدین کے ساتھ جنگوں میں جن لوگوں کو قیدی بنایا گیا، ان سب کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے رقم ادا کر کے آزاد کر دیا۔ صحابہ کرام نے جن غلاموں کو آزاد کیا ان میں سے بعض کے تفصیلی حالات زندگی فن رجال کی کتب میں ملتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ استثنائی طور پر ہی سہی، لیکن آخر ان لوگوں کو غلام بنایا ہی کیوں گیا تھا؟ اس معاملے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس دور کے عمرانی اور تمدنی حالات کو دیکھا جائے۔ عرب میں جیل کے ادارے کا کوئی رواج نہ تھا اور نہ ہی باقاعدہ کوئی فوج، پولیس یا سکیورٹی گارڈز موجود ہوتے تھے۔ عہد رسالت میں تو یہ نوبت بھی آئی کہ کئی مرتبہ قیدیوں کو رکھنے کی جگہ نہیں ملی تو انہیں مسجد نبوی میں ہی رکھنا پڑا۔
جنگی نفسیات سے واقفیت رکھنے والے تمام احباب جانتے ہیں کہ جنگ میں نفرت اور عداوت کے جذبے اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ دشمن اگر شکست کھا جائے تو اس نفرت میں شدید اضافہ ہو جایا کرتا ہے۔ ایسے افراد اگر جنگی قیدیوں کی صورت میں معاشرے میں آ جائیں تو پہلا مسئلہ تو یہ ہوتا ہے کہ انہیں کہاں رکھا جائے اور دوسرا مسئلہ یہ کہ ان کی دشمنی کو کیسے ختم کیا جائے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور خلفاء راشدین کے دور میں جو جنگی قیدی لائے جاتے تھے، انہیں رکھنے کے لئے چونکہ جیل، فوج، پولیس اور سکیورٹی گارڈز موجود نہ تھے، اس وجہ سے یہی ممکنہ حل تھا کہ انہیں لوگوں کے گھروں میں رکھا جائے اور وہی گھر والے ان کی دیکھ بھال کریں۔ چونکہ ان لوگوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان قیدیوں کی خبرگیری کی ہوتی تھی، اس وجہ سے وہی اس بات کے حقدار ہوتے تھے کہ اگر ان قیدیوں کے ورثا سے کوئی فدیہ وصول ہو تو اس فدیہ سے فائدہ اٹھائیں اور جب تک وہ قیدی، ان کے پاس موجود ہیں، ان سے اپنے کھیتوں وغیرہ میں کام کروا کر کچھ نفع کما لیں۔
دوران قید، ان قیدیوں سے کیسا سلوک روا رکھا گیا؟ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب یہ قیدی آزاد ہو کر اپنے اپنے شہروں میں گئے تو تھوڑے ہی عرصے میں ان میں سے اکثر اپنی مرضی سے مدینہ واپس آئے اور آ کر اسلام قبول کر لیا۔ کیا اس کی کوئی مثال اس دور کی دو معاصر سپر پاورز، روم اور ایران میں بھی مل سکتی ہے؟ اس دور میں تو کیا، موجودہ دور میں بھی جب انسانی حقوق، عالمی سطح پر تسلیم کئے جا چکے ہیں اور جنگی قیدیوں کے لئے جنیوا کنونشن موجود ہے جس پر پوری دنیا کی حکومتوں نے اتفاق رائے کیا ہوا ہے، گوانتاناموبے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگوں میں جو خواتین بطور قیدی گرفتار ہوتی تھیں، انہیں لونڈی کیوں بنا لیا جاتا تھا؟ اس پر ہم نے تفصیلی بحث باب 11 ہی میں کی ہے۔ یہاں ہم اسے دوبارہ نقل کر دیتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے واضح طور پر یہ تلقین فرما دی تھی کہ دشمن کے جو افراد جنگ میں حصہ نہ لیں، ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے۔ خواتین اور بچوں پر قطعی طور پر دست درازی نہ کی جائے۔ اس دور میں عام رواج تھا کہ خواتین بھی فوج کے ساتھ آیا کرتی تھیں۔ ایک طرف وہ شعر و نغمہ کے ذریعے اپنے سپاہیوں کے حوصلے بڑھاتیں اور دوسری طرف زخمیوں کی خبرگیری کرتیں۔
ایسی خواتین جنگ میں براہ راست شریک ہوا کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ پوری دنیا میں یہ معاملہ کیا جاتا تھا کہ انہیں گرفتار کر کے طوائف بنا دیا جاتا تھا۔ اسلام میں چونکہ قحبہ گری کی مکمل ممانعت موجود ہے، اس وجہ سے اگر ایسی خواتین جنگی قیدی بنائی جاتیں تو انہیں مسلم معاشرے میں جذب کرنے کا یہ طریق کار وضع کیا گیا کہ انہیں مختلف افراد کی تحویل میں بطور بیوی دے کر ان کے خاندان کا حصہ بنا دیا جاتا اور کچھ عرصے میں یہ مسلم معاشرے کا حصہ بن کر آزاد ہو جایا کرتی تھیں۔ اس خاتون کو کم و بیش وہی حقوق حاصل ہوا کرتے تھے جو اس شخص کی آزاد بیوی کو حاصل ہوتے تھے۔ ایسی خواتین کو اگر اپنا آقا پسند نہ ہوتا تو انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ یہ فوری طور پر مکاتبت یا سرکاری مدد کے ذریعے اس سے نجات حاصل کر سکتی تھیں۔
ان خواتین کو فوری طور پر آزاد نہ کرنے کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ بہرحال یہ خواتین دشمن فوج سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کے شوہر اور بھائی وغیرہ جنگ میں مارے جا چکے ہوتے تھے۔ ان خواتین کو مسلم معاشرے سے فوری طور پر کوئی ہمدردی بھی نہ ہوا کرتی تھی۔ انہیں فوری طور پر آزاد کر دینے کا نتیجہ یہی نکلتا کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے انہیں عصمت فروشی کا سہارا لینا پڑتا جس کا نتیجہ معاشرے کی اخلاقی تباہی کے سوا اور کچھ نہ نکل سکتا تھا۔ اس کی بجائے ان کے لئے باعزت راستہ یہ نکالا گیا کہ انہیں مختلف افراد کی ذرا کم درجے ہی کی سہی لیکن بیوی بنا دیا جاتا اور کچھ ہی عرصے میں جب یہ مسلم معاشرے کا حصہ بن جاتیں تو انہیں ام ولد، مکاتبت اور سرکاری امداد کے قوانین کے تحت آزاد کر دیا جاتا۔
مسلم معاشروں کے برعکس دیگر معاشروں میں یہ طریق کار اختیار کیا گیا تھا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی خواتین کو لونڈی بنا کر عصمت فروشی پر مجبور کر دیا جاتا اور انہیں اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ آقا کو بھی ایک طے شدہ رقم فراہم کرنا پڑتی۔ اسلام نے اس کے برعکس ان کی عفت و عصمت کو برقرار رکھنے کا طریقہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں بے شمار خواتین کو آزادی نصیب ہوئی۔
اب آخری سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اس دور میں اتنی زیادہ جنگوں کی وجہ کیا تھی؟ اس دور میں اتنی زیادہ جنگوں کی وجہ یہی تھی کہ دنیا میں مذہبی جبر کا دور دورہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت اہل عرب کے سامنے پیش کی تو اس کے نتیجے میں پورا عرب آپ کی مخالفت میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اولین مخاطبین کی حیثیت سے قریش مکہ آپ کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ عرب میں یہود کو ایک بڑا مذہبی مقام حاصل تھا۔ یہ لوگ بھی حضور کے زبردست دشمن ثابت ہوئے۔ تیسرے نمبر پر عرب کے اطراف میں پھیلے ہوئے وہ قبائل تھے جن کا پیشہ ہی راہزنی تھا اور ایک ریاست کے قیام کی صورت میں انہیں اپنا کاروبار ختم ہوتا نظر آ رہا تھا۔
ان میں سے پہلے اور تیسرے گروہ نے مدینہ پر بار بار چڑھائی کی۔ اس معاملے میں دفاع بہرحال مسلمانوں کا حق تھا۔ اس کے بعد متعدد مرتبہ انہوں نے مدینہ پر حملے کے لئے لشکر اکٹھا کرنا شروع کئے اور جنگی تیاریاں شروع کیں۔ ان کی جنگی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے ان پر پہلے حملہ کرنے کا اقدام بھی کیا گیا۔ دوسرا گروہ جو کہ یہودی تھے، ان کے ساتھ ایک باعزت معاہدہ کیا گیا جس میں انہیں مکمل مذہبی آزادی فراہم کر دی گئی۔ ان کے مختلف گروہوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کی جس کی پاداش میں انہیں خیبر کی طرف جلاوطن کر دیا گیا۔ یہاں انہوں نے مضبوط قلعے تعمیر کئے اور مدینہ پر بڑے حملے کی تیاریاں شروع کر دیں جس کی وجہ سے ان کی قوت کا قلع قمع بھی کیا گیا۔
جنوبی عرب میں ایک چوتھا گروہ یعنی عیسائی بھی موجود تھے۔ انہوں نے مسلمانوں سے دوستی کا معاہدہ کیا۔ ان کے خلاف کبھی کوئی جنگی کاروائی نہیں کی گئی۔ اس دور کی دو سپر پاورز روم اور ایران نے جب عرب کی ایک ریاست کو ابھرتے دیکھا تو انہوں نے بھی اس پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس کے نتیجے میں روم اور ایران سے جنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں ایران کی ساسانی سلطنت مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور روم کی بازنطینی سلطنت شام اور عرب کے علاقوں میں مکمل طور پر ختم ہو گئی۔
جب عرب کے شمالی علاقوں میں رومیوں سے جنگیں جاری تھیں تو یہ خطرہ تھا کہ جنوبی عرب کے عیسائی، اپنے ہم مذہب ہونے کے باعث رومیوں سے ہمدردی رکھتے ہوئے مسلمانوں پر دوسری جانب سے حملہ کر کے انہیں سینڈوچ نہ بنا دیں۔ اس موقع پر بغیر کسی جنگی کاروائی کے اس گروہ کو نجران کے کم زرخیز علاقے سے منتقل کر کے شام کی زرخیز زمینوں پر آباد کیا گیا۔ انہی عرب عیسائیوں کی نسل آج بھی اردن، شام اور لبنان میں موجود ہے۔ اس پوری تفصیل سے وہ وجوہات سمجھ میں آ جاتی ہیں جن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور صحابہ کرام کو اتنی کثیر تعداد میں جنگیں کرنا پڑیں۔
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.