کیا عہد رسالت میں ام ولد کی خدمات کو منتقل کیا جاتا تھا؟

اسلام سے پہلے لونڈیوں اور ان کے بچوں کا معاشرے میں بہت پست مقام تھا۔ لونڈی کے بچوں کو آزاد خاتون کے بچوں کی نسبت حقیر سمجھا جاتا۔ ام ولد کو بیچنے کا رواج تو عرب میں کم ہی تھا لیکن تھوڑا بہت پایا جاتا تھا۔ اسلام نے اس ضمن میں یہ اصلاح کی کہ بچے والی لونڈی جسے ام ولد کہا جاتا ہے، کی خدمات کی منتقلی کو قطعی طور پر ممنوع قرار دیا گیا۔ ایسی لونڈی اپنے خاوند کی آزاد بیوی کے ہم پلہ قرار پائی۔ اس کے بچے کا بھی معاشرے میں وہی مقام قرار پایا جو کہ آزاد عورت کے بچے کا تھا۔

حدثنا عبد اللّه بن محمد النفيلي، ثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، عن خطَّاب بن صالح مولى الأنصار، عن أمِّه، عن سلامة بنت معقل امرأة من خارجة قيس عَيْلان، قالت:  قَدِمَ بي عمي في الجاهلية، فباعني من الحباب بن عمرو أخي أبي اليَسر بن عمرو، فولدت له عبد الرحمن بن الحباب ثم هلك، فقالت امرأته: الآن واللّه تباعين في دَيْنِهِ، فأتيت رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم فقلت: يارسول اللّه، إني امرأة من خارجة قيس عيلان قدم بي عمي المدينة في الجاهلية، فباعني من الحباب بن عمرو أخي أبي اليَسر بن عمرو، فولدت له عبد الرحمن بن الحباب، فقالت امرأته: الآن واللّه تباعين في دَيْنه، فقال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم: من ولِيُّ الحباب؟ قيل: أخوه أبو اليسر بن عمرو، فبعث إليه فقال: أعتقوها، فإِذا سمعتم برقيقٍ قدم عليَّ فأتوني أعوضكم منها۔ (ابو داؤد، کتاب العتق، حديث 3953)

سلامہ بنت معقل بیان کرتی ہیں کہ میں خارجہ قیس عیلان سے تعلق رکھتی ہوں اور اپنے چچا کے ساتھ آئی تھی۔ میرے چچا نے مجھے دور جاہلیت میں حباب بن عمرو کے ہاتھ بیچ دیا تھا جو کہ ابی الیسر بن عمرو کے بھائی تھے۔ میرے ہاں ان سے عبدالرحمٰن بن حباب کی پیدائش ہوئی۔ اس کے بعد حباب فوت ہو گئے۔ ان کی بیوی کہنے لگی، خدا کی قسم اب تو ہم اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے تمہیں بیچیں گے۔

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی، یا رسول اللہ! میں خارجۃ قیس علیان سے اپنے چچا کے ساتھ دور جاہلیت میں مدینہ آئی تھی۔ انہوں نے مجھے حباب بن عمرو کے ہاتھ بیچ دیا تھا اور میرے بطن سے عبدالرحمٰن بن حباب کی پیدائیش ہوئی ہے۔ اب ان کی بیوی کہہ رہی ہے کہ وہ ان کا قرض ادا کرنے کے لئے مجھے بیچ دیں گی۔ آپ نے فرمایا، حباب کے بعد خاندان کا سرپرست کون ہے؟ کہا گیا، ان کے بھائی ابوالیسر بن عمرو۔ آپ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا، انہیں آزاد کر دو۔ جب بھی تم کسی غلام کے بارے میں سنو تو میرے آ جایا کرو۔ میں تمہیں اس کا معاوضہ دوں گا۔

حدّثنا أحَمَدُ بْنُ يَوسُفَ. نا أَبُو عَاصِمٍ، ثنا أَبو بَكْرٍ، يَعْنِي النَّهْشَلِيَّ، عَنِ الحُسَيْنِ ابنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: ذُكِرِتْ أُمُّ إِبْرَاهِيمَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم. فَقَالَ:  ((أَعْتَقَهَا وَلَدُهَا)). (ابن ماجة، كتاب العتق، حديث 2516)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سامنے ام ابراہیم (ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا) کا ذکر کیا گیا۔ آپ نے فرمایا، اس کے بچے نے اسے آزاد کروا دیا ہے۔

حدثنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّد ومحمد بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَالاَ: ثنا وَكِيعٌ. ثنا شَرِيكٌ، عَنْ حسَيْنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عِكْرِمَة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: قَالَ: قَال رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم ((أَيُّمَا رَجلٍ وَلَدَتْ أمَتُهُ مِنُ، فَهِيَ مُعْتَقَةٌ عَنْ دُبُرٍ مِنْهُ)). (ابن ماجة، كتاب العتق، حديث 2515، مشکوۃ، کتاب العتق، حديث 3394)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، “جس شخص کے ہاں بھی کسی لونڈی سے بچہ پیدا ہو جائے، تو وہ اس کے فوت ہوتے ہی آزاد ہو جائے گی۔”

ان دونوں احادیث کی سند میں اگرچہ حسین بن عبداللہ ضعیف راوی ہیں لیکن اس حدیث کی دیگر صحیح اسناد بھی موجود ہیں۔ دارمی میں یہی حدیث صحیح سند سے روایت کی گئی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا یہی فرمان تھا کہ ام ولد کی منتقلی کو مکمل طور پر روک کر اس کی آزادی پر عمل درآمد کیا جائے۔

نا عبد الله بن إسحاق بن إبراهيم البغوي نا أبو زيد بن طريف نا إبراهيم بن يوسف الحضرمي نا الحسن بن عيسى الحنفي عن الحكم بن أبان عن عكرمة عن بن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أم الولد حرة وإن كان سقطا. (دارقطنی، كتاب المکاتب)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، ام ولد آزاد ہی ہے اگرچہ اس کا حمل ساقط ہو جائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ام ولد کی آزادی کو بچے کے پیدا ہونے سے مشروط نہیں فرمایا بلکہ محض حمل ٹھہر جانے سے مشروط فرما دیا اگرچہ وہ حمل بعد میں ضائع بھی ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس ضمن میں سختی سے ام ولد کی آزادی کو نافذ کیا۔

حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : أَيُّمَا وَلِيدَةٍ وَلَدَتْ مِنْ سَيِّدِهَا، فَإِنَّهُ لاَ يَبِيعُهَا، وَلاَ يَهَبُهَا، وَلاَ يُوَرِّثُهَا, وَهُوَ يَسْتَمْتِعُ بِهَا، فَإِذَا مَاتَ فَهِيَ حُرَّةٌ. (موطا مالک، کتاب العتق، حديث 2248)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا: جس لونڈی کے بھی اپنے آقا سے بچہ پیدا ہو، تو اس کی خدمات کو نہ تو بیچا جائے گا، نہ ہی کسی کو تحفتاً منتقل کیا جائے گا، نہ ہی وراثت میں منتقل کیا جائے گا۔ وہ مالک ہی اس سے فائدہ اٹھائے گا اور اس کے مرنے کے بعد وہ آزاد ہو گی۔

یہ حکم جاری کرتے وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تصریح فرمائی تھی کہ انہوں نے ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حکم کے مطابق کیا تھا۔

نا محمد بن الحسن النقاش ثنا الحسن بن سفيان نا مصرف بن عمرو نا سفيان بن عيينة عن عبد الرحمن الأفريقي عن مسلم بن يسار عن سعيد بن المسيب أن عمر رضى الله تعالى عنه أعتق أمهات الأولاد وقال عمر أعتقهن رسول الله صلى الله عليه وسلم. (دارقطنی، کتاب المکاتب)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب ام ولد لونڈیوں کو آزاد کیا تو فرمایا، انہیں دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے آزاد فرمایا تھا۔

اس معاملے میں صرف ایک تاریخی نوعیت کا ایک ہی اعتراض کیا جاتا ہے اور وہ یہ ایک روایت کی بنیاد پر ہے۔ روایت یہ ہے۔

حدثنا مُحَمَّد بْنُ بَحْيَى وَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُور، قَالاَ: ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ ابْنِ جُرَيْحٍ. أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ؛ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: كُنَّا نَبِيعُ سَرَارِينَاَ وَأُمَّهَاتِ أَوْلاَدِنَا، وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِنيَا حَيٌّ. لاِنَرَى بِذَلِكَ بَأْساً. (ابن ماجه، کتاب العتق، حديث 2517)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں، ہم اپنی عام اور ام ولد لونڈیوں کی خدمات کو فروخت کیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہم میں زندہ موجود تھے۔ ہم اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا کرتے تھے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں ہے بلکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک قول ہے۔ کسی روایت کے مستند اور صحیح ہونے کی پانچ شرائط ہیں۔ ان شرائط کو ڈاکٹر محمود طحان اس طرح بیان کرتے ہیں:

·       اتصال سند: ہر راوی اپنے سے پہلے جس راوی سے بھی حدیث کو حاصل کر رہا ہے، وہ ایسا بلا واسطہ (ڈائرکٹ) کر رہا ہو۔ یہی معاملہ حدیث کی سند کے آخر تک چلا گیا ہو۔

·       عدالۃ رواۃ: حدیث کو بیان کرنے والا ہر راوی اس وقت عادل قرار پائے گا جب وہ مسلمان، عاقل، بالغ ہو۔ اس میں کوئی بدکرداری نہ پائی جاتی ہو اور وہ معاشرے میں قابل عزت سمجھا جاتا ہو۔

·       ضبط رواۃ: حدیث کو بیان کرنے والا ہر راوی حدیث کو محفوظ کرنے والا ہو۔ یہ حفاظت خواہ (اچھی یادداشت کے سہارے) سینے میں محفوظ رکھ کر کی گئی ہو یا پھر کتاب میں احادیث کو لکھ کر کی گئی ہو۔

·       عدم شذوذ: حدیث شاذ نہ ہو۔ شذوذ کا مطلب ہے کہ حدیث میں کسی اور زیادہ قابل اعتماد راوی کی حدیث کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔

·       عدم علت: حدیث میں کوئی اور علت (خامی) نہ پائی جاتی ہو۔ علت کا مطلب ہے کہ حدیث بظاہر تو صحیح معلوم ہوتی ہو لیکن اس میں کوئی مخفی خامی ایسی ہو جس کی بنیاد پر حدیث کی صحت مشکوک ہو جائے۔

اس روایت کی سند میں پہلی تین شرائط تو موجود ہیں لیکن آخری دونوں شرائط مفقود ہیں جن کے باعث یہ حدیث صحیح اور مستند نہیں ہے۔ اس روایت میں جو علتیں (خامیاں) پائی جاتی ہیں وہ یہ ہیں۔

·       یہ روایت دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے خلاف ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اس قانون کو سختی سے نافذ کیا کہ ام ولد کی خدمات کو منتقل نہ کیا جائے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور میں یہ کام ہو رہا ہوتا اور جائز سمجھا جاتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، حضور کے فیصلے کو کیسے بدل سکتے تھے۔ ایسا کرنے کی صورت میں انہیں صحابہ کرام کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت درست نہیں ہے۔

·       یہ روایت معقولیت کے بھی خلاف ہے۔ جیسا کہ امام خطابی نے معالم السنن میں بیان کیا ہے کہ دور جاہلیت میں بھی ایسا بہت ہی کم ہوتا تھا کہ کوئی اپنے بچے کی ماں کی خدمات کسی اور کی طرف منتقل کر دے۔ اپنے بچے کی ماں کو منتقل کرنا آسان کام نہیں۔ اگر ایسا کرتے ہوئے بچے کو ماں سے الگ کر لیا جائے تو یہ بدترین ظلم ہو گا جس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور خلفاء راشدین نے ہمیشہ منع فرمایا ہے۔ اگر بچے کی ماں کو منتقل کرتے ہوئے بچے کو اس کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے تو وہ کون سا غیرت مند باپ ہو گا جو اپنے بچے کو کسی اور کی غلامی میں جانے دے گا۔

·       اس روایت کو سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی جلیل القدر صحابی ہیں جن کا ذاتی کردار خود اس روایت کی نفی کر دیتا ہے۔ بخاری کی مشہور روایت کے مطابق سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے والد جب جنگ احد میں شہید ہوئے تو یہ نوجوان تھے اور ان کی چھوٹی چھوٹی بہنیں تھیں جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا۔ انہوں نے اپنے نوجوانی کے جذبات کو ایک طرف رکھ کر ایک بڑی عمر کی خاتون سے شادی کر لی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایسا صرف اپنی بہنوں کے لئے کیا ہے تاکہ بڑی عمر کی خاتون ان کی بہنوں کی دیکھ بھال آسانی سے کر سکے۔ ایسے کردار کے شخص سے کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے بچے کی والدہ کو کسی اور کی طرف منتقل کر دے گا؟

·       اس روایت سے بظاہر تاثر یہ ملتا ہے کہ ام ولد کی خدمات کو فروخت کرنا عہد رسالت میں گویا ایک عام معمول تھا۔ اگر ایسا ہی تھا تو اس ضمن میں ایسی بہت سی روایات ملنی چاہییں جن میں لوگوں نے ام ولد کی خدمات کو منتقل کیا ہو۔ عہد رسالت میں ایسا ایک ہی واقعہ ملتا ہے جس کی اطلاع ہوتے ہی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے خود جا کر اس معاملے کو روک دیا۔ عہد رسالت تو کیا دور جاہلیت میں بھی ایسے واقعات استثنائی تھے۔

اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی بات کو سمجھنے میں کسی راوی کو شدید غلطی لاحق ہوئی ہے۔ انہوں نے کچھ اور فرمایا ہو گا جسے راوی نے کچھ کا کچھ کر دیا ہے۔ غالب گمان ہے کہ انہوں نے یہ بیان فرمایا ہو گا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے پہلے ام ولد کی خدمات کو منتقل کرنے کے خلاف حکومت کی جانب سے باقاعدہ کاروائی نہیں کی گئی تھی جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اسے قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا تھا۔

          امام بغوی نے شرح السنۃ میں بیان کیا ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام سے پہلے لوگوں میں کچھ کنفیوژن پائی جاتی تھی۔ آپ کے اس اقدام کے بعد سب لوگوں کا ذہن اس معاملے میں واضح ہو گیا اور اس پر امت کا اجماع ہو گیا کہ ام ولد کی خدمات کو منتقل نہیں کیا جائے گا۔

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا عہد رسالت میں ام ولد کی خدمات کو منتقل کیا جاتا تھا؟
Scroll to top