مبشر بھائی جان
السلام علیکم
میں اپنے خالہ زاد سے ایک ٹاپک پر بات کر رہا تھا کہ میں نے اپنے بھائی جس کا نام فہیم ہے، سے پوچھا کہ ہم لوگ مسلم گھر میں پیدا ہوئے، اس لیے ہم مسلم ہیں لیکن جو لوگ غیر مسلم گھر میں پیدا ہوئے ہیں، وہ اسلام کے بارے میں جانتے ہیں اور اسلام کو پسند کرتے ہیں لیکن ظاہر نہیں کرتے کسی ڈر کی وجہ سے اور دوسری کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اسلام کو پسند کرتے ہیں اور اسلام کے بارے میں اچھے تاثرات کھل کر دیتے ہیں لیکن کسی وجہ سے وہ بھی کلمہ نہیں پڑھتے اور جیسا اسلام چاہتا ہے، ویسی زندگی گزارتے ہیں تو وہ کیا جنت میں داخل ہو پائیں گے؟
والسلام
محمد مدثر، انڈیا
ڈئیر مدثر بھائی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمیں کسی کے بارے میں جنت و جہنم کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالی روز قیامت عین انصاف فرمائے گا اور کسی پر بھی رتی برابر بھی ظلم نہ ہو گا۔ اللہ تعالی ہر شخص کا حساب کتاب کرتے وقت اس کی نفسیات، ذہنی اور جسمانی مسائل، ماحول، اور دیگر تمام عوامل کو دیکھ کر فیصلہ فرمائے گا۔ جن غیر مسلموں کی آپ بات کر رہے ہیں، ان کے ساتھ بھی ایسا ہو گا اور کسی پر ذرا سا بھی ظلم نہ ہوگا۔ اللہ تعالی کے ساتھ جو بھی مخلص ہو گا، اسے اس کے خلوص کا پورا اجر ملے گا اور اس کے معاملے میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ میں نے اس موضوع پر ایک تحریر لکھی تھی۔
ہمیں تفصیل سے کسی شخص کی عاقبت کی فکر کی بجائے اپنی فکر کرنی چاہیے اور اس بات پر ایمان رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہ کرے گا اور اسے اس کے حالات و نفسیات کے مطابق جزا و سزا ملے گی۔
کوئی اور سوال ذہن میں پیدا ہو تو بلا تکلف میل کیجیے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
ڈئیر مبشر بھائی جان
السلام علیکم
آپ کا میل پڑھنے کے بعد میرا خالہ زاد بھائی آپ سے پوچھنا چاہتا ہے کہ اعمال کی قبولیت کے لیے ایمان کا ہونا شرط ہے اور آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی انسان کا ضمیر دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ پلیز قرآن سے ریفرنس دے کر کلیئر کر دیں۔
مدثر
ڈئیر مدثر بھائی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے آپ کے خالہ زاد بھائی کی بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اعمال کی قبولیت کے لیے ایمان کا ہونا ضروری ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ اللہ تعالی ضمیر کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے۔
رہا غیر مسلموں کا معاملہ تو ان کا جرم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی نہ کسی انداز میں انکار کرتے ہیں۔ ان کے ہاں مختلف قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر مانتے ہیں مگر کسی نہ کسی بہانے سے آپ کی پیروی اختیار نہیں کرتے۔ جیسے بہت سے عیسائیوں کا موقف یہ ہے کہ آپ سچے رسول ہیں مگر آپ کی رسالت صرف عربوں کے لیے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ جو سخت مذہبی تعصب میں مبتلا ہیں اور اس وجہ سے آپ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام دشمنی پر اتر آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت کے بارے میں غور و فکر کریں اور پھر تحقیق کر کے فیصلہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ اللہ تعالی کے وجود ہی کے منکر ہیں۔
ان سب گروہوں کے بارے میں تو یہ واضح ہے کہ وہ انکار خدا اور انکار رسالت کے جرم کے مرتکب ہیں اور اس کے لیے انہیں اللہ تعالی کے ہاں جوابدہ ہونا پڑے گا۔
اس کے علاوہ غیر مسلموں میں مزید یہ گروہ پائے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ غیر مسلم جنہوں نے تلاش حق کی کوشش کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت ان پر واضح نہ ہو سکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ غیر مسلم جن تک اسلام کی دعوت پہنچ ہی نہ سکی۔ جیسے دور دراز علاقوں کے قبائلی لوگ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ غیر مسلم جن تک اسلام کی دعوت پہنچی تو سہی مگر مسخ شدہ شکل میں۔ پھر ان کے مذہبی راہنماؤں نے یا خود مسلمانوں کے کردار نے اسلام کا ایسا برا امیج تخلیق کر دیا جس سے ان پر حق مشتبہ ہو گیا۔ مغرب و مشرق کے بہت سے غیر مسلم شاید اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان گروہوں کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان کی مجبوری کو دیکھ کر ایسا فیصلہ فرمائے گا جو کہ عین انصاف ہو گا۔ قرآن مجید میں ہے: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ، اللہ تعالی کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں لادتا، اس کے لیے وہی ہے جو اس نے کمایا اور اس پر اسی کی ذمہ داری ہے جو اس نے کیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ان کا فیصلہ کرتے وقت یہ لازما دیکھے گا کہ ان تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کس درجے اور کس شکل میں پہنچی ہے؟ کیا انہوں نے اس دعوت کی حقانیت کو پرکھنے کی کوشش کی؟ کیا انہوں نے سنجیدگی سے اس میں غور کیا؟ اللہ تعالی کے دیگر پیغمبروں کےساتھ ان کا معاملہ کیا تھا؟ وہ کس درجے میں توحید سے وابستہ تھے؟ ان کی اخلاقی کیفیت کیا تھی؟
یہ سب امور وسعھا کے مفہوم کے اندر شامل ہیں۔ بات کو سمجھنے کے لیے کچھ دور کے لیے فرض کیجیے کہ آپ انڈیا کے کسی مسلم گھرانے کی بجائے مثلاً ناروے کے کسی گاؤں میں کسی عیسائی گھرانے میں پیدا ہوتے یا پھر منگولیا کے کسی دور دراز گاؤں کے کسی بدھ خاندان میں پیدا ہوتے یا یوگنڈا کے کسی دور دراز علاقے میں ہوتے جہاں کا مذہب شرک ہوتا۔ تصور کیجیے کہ اسلام کی دعوت آپ تک مسخ شدہ شکل میں پہنچتی۔ آپ اللہ تعالی (یا اس کا جو بھی نام آپ کی زبان میں ہوتا) کے ساتھ مخلص ہوتے اور حق کی تلاش میں رہتے مگر حق واضح نہ ہو سکتا۔ اس صورت میں پوری دیانت داری سے فیصلہ کیجیے کہ آپ اپنے لیے اللہ تعالی سے کیا توقع کر سکتے ہیں؟ جو توقع آپ اپنے لیے کرتے ہیں، وہی ان لوگوں کے لیے کیجیے۔
امید ہے کہ اس سے بات واضح ہو جائے گی۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.