السلام علیکم
آپ یہ کہتے ہیں کہ انسان کا خدا سے عالم ارواح میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔ آپ نے لکھا ہے کہ یہ معاہدہ انسان کی آزادانہ مرضی سے ہوا تھا۔ اس کے لیے آپ ڈیلی لائف سے ثبوت بھی دیتے ہیں۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ یہ ایمان بالغیب کی قسم کی چیز ہے۔ یہ معاہدہ مجھے بہت کنفیوژن میں ڈال رہا ہے اور یہ مائتھالوجی لگ رہی ہے۔ اس پر کچھ سوالات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے کہ ہم نے یہ معاہدہ کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔ کیا قیامت تک پیدا ہونے والے ہر آدمی کی روح وہاں موجود تھی یا جب پیدا ہوا تھا تو اس سے پہلے یہ معاہدہ کیا جاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔ کیا عالم ارواح میں انسان کی خدا سے ڈائرکٹ ملاقات ہوئی تھی؟ اب کیوں نہیں ہو سکتی؟ صوفیا اس معاملے میں کہاں پر غلطی کرتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے چیلنج قبول کرنے کا لکھا ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے ماضی میں پیدا ہونے سے پہلے ایک معاہدہ کیا اور اس کا ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور ہمیں یاد دہانی کروائی جا رہی ہے۔
آپ مجھے اس پر ضرور کچھ بتائیں۔
جواد کاظمی
مانسہرہ، پاکستان
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جواد بھائی
آپ کے سوالات کے جواب آپ کی میل کے اندر لکھ دیے ہیں۔ کنفیوژن کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالی کے معاملات کو سمجھنے کی اپنی ناقص عقل سے کوشش کر رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہمیں کہیں غلطی لگ جائے۔ اس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
سوال: ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے کہ ہم نے یہ معاہدہ کیا ہے؟
جواب: ٹھوس ثبوت سے کیا مراد ہے؟ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اسے بیان فرما دیا ہے، اس سے زیادہ کیا ٹھوس ثبوت ہوگا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا. لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا۔
ہم نے اس امانت کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ (اپنی جان پر) ظلم کرنے والا اور ناواقف تھا۔ (اس بار امانت کو اٹھانے کا لازمی نتیجہ ہے) کہ اللہ منافق مرد و خواتین اور مشرک منافق مرد و خواتین کو سزا دے گا اور صاحب ایمان مردوں اور خواتین کی توبہ قبول فرمائے گا۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔ (الاحزاب 33:72-73)
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ. أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ۔
وہ وقت یاد کیجیے جب آپ نے رب نے آدم کی اولاد کو ان کی پشتوں سے نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: ’’کیا میں آپ لوگوں کا رب نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’جی ہاں، آپ ہی ہمارے رب ہیں اور ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔‘‘ ہم نے ایسا اس لیے کیا تھا کہ روز قیامت آپ کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔ یا یہ نہ کہہ دیں کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد میں ان کی نسل سے پیدا ہوئے۔ پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔ (الاعراف 7:172-173)
قرآن مجید کی ان آیات سے بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالی نے نسل انسانی کی روحوں کو اپنے سامنے کھڑا کر کے ان سے اپنے خدا ہونے کا اقرار کروایا۔ پھر ان کے سامنے ایک امانت پیش کی ۔ مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ امانت اپنی مرضی اور ارادہ سے نیکی یا برائی کے راستے کے انتخاب کی تھی۔ اللہ تعالی کی اس امانت کو قبول کرنے سے آسمان، زمین اور پہاڑ انکار کر چکے تھے جبکہ حضرت انسان ایسے ایڈونچر پسند تھے کہ انہوں نے اس امانت کو قبول کر لیا۔ انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ کسی بڑے فائدے کے لیے بڑا رسک لینے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے رسک مینجمنٹ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ۔۔۔۔
High risk, high return and low risk, low return.
ان آیات کے علاوہ اگر آپ کو کوئی عقلی نوعیت کا ثبوت چاہیے تو اس کے لیے ایک نفسیاتی تجربہ کر لیجیے۔ اگر آج اللہ تعالی آپ کو یہ آفر دے کہ وہ آپ کو آپ کی من پسند لا محدود زندگی ، ہزاروں نعمتوں کے ساتھ دے گا۔ اس کے بدلے آپ کو صرف اتنا کرنا ہو کہ اپنی بقیہ زندگی میں پوری مرضی اور اختیار سے اللہ تعالی کا بندہ بن کر رہنا ہو۔ اب بتائیے کہ کیا آپ اس آفر کو قبول نہیں کریں گے؟ اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اس وقت بھی یہی کیا ہو گا۔ جنت کی خواہش ایسی ہے کہ ہر انسان کی فطرت میں انتہائی گہری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں بھی مانتے، وہ بھی اس دنیا کو جنت بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے موت کو ٹالنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اس بات کا احساس خاص کر اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی مغربی ملک میں جائیں۔ جن نعمتوں کا اللہ تعالی نے جنت میں ذکر کیا ہے، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ تمام نعمتیں دنیا میں مل جائیں۔ میرے خیال میں تو انسانی نفسیات کا یہ پہلو اس بات کا مضبوط ترین ثبوت ہے۔
اس مسئلے پر جب میں غور کرتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے شاید اللہ تعالی کی آفر کو قبول نہیں کیا چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں امتحان میں نہیں ڈالا۔ ایسے بچے، جو دوران حمل اور بچپن میں فوت ہو جاتے ہیں یا پیدائشی پاگل میرے خیال میں وہی روحیں ہیں جنہوں نے اللہ تعالی کی آفر کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح مزید غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرانسان نے ایک مختلف لیول پر اس امتحان کو قبول کیا۔ جیسے ہم لوگوں نے شاید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسبت بہت ہی آسان امتحان قبول کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی : ’’ اے اللہ! عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام (ابو جہل) میں سے کسی ایک کو ہدایت دے کر دین کی تقویت عطا فرمائیے۔ ‘‘ اس دعا سے لگتا ہے کہ شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابو جہل نے ایک ہی لیول کا چیلنج قبول کیا تھا۔ اس کے بعد حضرت عمر نیکی کے راستے پر انتہائی درجے میں چلے اور ابو جہل نے برائی کے راستے کا انتخاب کر کے اس میں انتہا کر دی۔ ایسے لوگ جو مثلاً افریقہ کے دور دراز جنگلات میں رہتے ہوں کی نسبت ہم نے کافی مشکل امتحان قبول کیا تبھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے اہل علم نے یہ بات لکھی ہے کہ جن لوگوں تک پیغمبروں کی دعوت نہیں پہنچی، ان کا حساب کتاب بہت سادہ ہو گا جبکہ جن لوگوں تک پیغمبروں کی دعوت پہنچ گئی، ان کا حساب سخت ہو گا۔
سوال: کیا قیامت تک پیدا ہونے والے ہر آدمی کی روح وہاں موجود تھی یا جب پیدا ہوا تھا تو اس سے پہلے یہ معاہدہ کیا جاتا ہے؟
جواب: قرآن مجید کی اوپر بیان کردہ آیات 7:172-173 سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی آدم سے یہ عہد لیا گیا۔ اس آیت کی تشریح میں جو روایات آئی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسانوں کی روحوں سے یہ وعدہ لیا گیا۔
سوال: کیا عالم ارواح میں انسان کی خدا سے ڈائرکٹ ملاقات ہوئی تھی؟ اب کیوں نہیں ہو سکتی؟ صوفیا اس معاملے میں کہاں پر غلطی کرتے ہیں؟
جواب: اوپر کی آیات سے نظر آتا ہے کہ عالم ارواح میں ملاقات ہوئی تھی۔ اگر اب ملاقات ہو جائے تو پھر امتحان کیسا۔ ہم اپنی زندگی میں عام دیکھتے ہیں کہ اگر ہم مسلسل کسی نیک انسان کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے لگیں تو ہماری گناہ کرنے کی خواہش کم و بیش ختم ہو جاتی ہے یا بہت کم ضرور ہو جاتی ہے۔ اگر اللہ تعالی سے ملاقات کرنے لگیں تو پھر کیا معاملہ ہو؟ پھر تو شاید ہی کوئی ایسا بدنصیب ہو گا جس کے دل میں گناہ کا خیال بھی آئے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز کو اگر اللہ تعالی سے ملاقات کے طور پر لیا جائے، تو اس سے انسان کے تزکیہ پر بہت اثر پڑتا ہے۔ اور انسان اگر ذہن میں اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہونے کا تصور رکھتے ہوئے نماز پڑھے تو وہ بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے۔ اسی کیفیت کو حدیث میں ’’احسان ‘‘ کہا گیا ہے۔ جب تصور کا یہ عالم ہے تو پھر سچ مچ کی ملاقات کا کیا حال ہو گا؟
بعض صوفیا کی اس معاملے میں غلطی یہ ہے کہ انہوں نے احسان کی کیفیت کی درست تشریح نہیں کی اور اسی دنیا میں اللہ تعالی سے ملاقات کو ممکن قرار دیا اور اس کے لیے چلوں، مراقبوں اور ریاضتوں کی ایک پوری سائنس وضع کر ڈالی جس کا کوئی ثبوت نہ قرآن میں ملتا ہے اور نہ حدیث میں۔ پابند شریعت صوفیا البتہ ان چیزوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ اہل تصوف کے بارے میں آپ تقابلی مطالعہ پروگرام کا ماڈیول CS05 پڑھ لیجیے، پھر تفصیلی بات کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
رہی بات اللہ تعالی سے رابطے کی تو وہ ہم روزانہ نماز کی صورت میں کرتے ہیں۔ جب انسان کی توجہ کا مرکز اللہ تعالی بن جائے تو پھر اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ کیسے زندگی کے ہر ہر قدم پر اس کا ہاتھ تھامتا ہے اور اسے کیسے مشکلات سے نکالتا ہے۔
سوال: آپ نے چیلنج قبول کرنے کا لکھا ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے ماضی میں پیدا ہونے سے پہلے ایک معاہدہ کیا اور اس کا ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور ہمیں یاد دہانی کروائی جا رہی ہے۔
اس پر ایک مرتبہ اوپر بیان کردہ آیات پڑھ لیجیے اور پھر وہی نفسیاتی تجربہ کر لیجیے۔ دیکھیے پھر کیا جواب آتا ہے۔ بلکہ یہ تجربہ کیجیے کہ اس وقت اللہ تعالی آپ کو بقیہ زندگی کے لیے آفر دے رہے ہیں کہ اگر آپ بقیہ زندگی کے مثلاً 40 سال اللہ کے بندے بن کر رہیں گے تو آپ کو ہمیشہ کی ایسی زندگی ملے گی جو آپ کی مرضی کے عین مطابق ہو گی۔ اگر ان 40 سالوں میں آپ اللہ تعالی کے نافرمان بندے بن کر رہیں گے تو پھر آپ کو سزا ملے گی لیکن ساتھ اللہ تعالی کی رحمت کی امید بھی ہے۔ کیا خیال ہے؟ اب آپ یہ رسک لینے کو تیار ہوں گے؟ اگر جواب ہاں میں ہے، تو پھر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی نفسیات کے اندر اس معاہدے کا نقش موجود ہے۔ قرآن مجید میں اسی کو یاد کرایا گیا ہے۔
اس پر مزید جو سوال پیدا ہوں تو بلا تکلف کر لیجیے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.